ایک طرف موسم گرما ہے اور دوسری طرف سیاسی موسم۔ دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ایک طرف سُورج آگ برسا رہا ہے۔ دوسری طرف سیاسی آفتاب نصف النہار پر ہے۔ موسم کی گرمی اور سیاست کی گرما گرمی شاید کافی نہ تھی اِس لیے اب یاروں نے اِس میں ہٹ دھرمی اور احتجاج کا تڑکا بھی لگا دیا ہے! الیکشن سے قبل نعرے بازی کی فضاء میں مستقبل کے لیے چند وعدے بھی کئے جارہے تھے۔ ایک نعرہ یہ بھی تھا کہ معاملات کو دُرست کرنے کے لیے بَلّے سے پھینٹی لگائی جائے گی۔ سمجھ لیجیے کہ پھینٹی لگانے کا موسم بھی آ چکا۔ جو الیکشن جیت گئے وہ تو کنارے لگے ہی لگے، جو ہارے تھے وہ بھی اب دھندے سے لگ گئے ہیں۔ دھندا وہی پُرانا ہے یعنی کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے۔ جو اپنے مفاد کو ہر شے پر مقدم رکھتے ہیں وہ اپنی بوٹی کے لیے پورا بکرا ذبح کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ الیکشن سے پہلے جو ماتم تھا وہی الیکشن کے بعد بھی ہے۔ ایک منتخب حکومت مرضی کی نہیں تھی سو اُس کے نام کا احتجاج تھا۔ اب وہ حکومت نہیں رہی اور انتخابات کا مرحلہ تمام ہوا تو انتخابی نتائج کا رونا رویا جارہا ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا ؎ مے سے غرض نشاط ہے کِس رُو سیاہ کو اِک گونہ بے خودی مُجھے دِن رات چاہیے! کچھ لوگوں کی نَفسی ساخت نے اِس شعر کو مضبوطی سے پکڑ لیا ہے۔ کام ایک ہے، بہانے بدلتے رہتے ہیں۔ احتجاج کرنا ہے، رونا اور سَر پیٹنا ہے، ہر معاملے کو غلط قرار دینا ہے، جو مِلے اُس پر تشکر کا اظہار کرنے کے بجائے اُس پر گریاں کُناں رہنا ہے جو نہ مِل سکا۔ ڈیڑھ دو ماہ قبل ٹکٹ کی تقسیم کا غلغلہ بلند ہوا تو ماتم کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھی۔ ہر سیاسی جماعت میں سب لوگ یہ طے کر بیٹھے تھے ٹکٹ اُنہی کے لیے ہے اور ملنا ہی ملنا ہے۔ جب نہ مِلا تو ہنگامہ کھڑا کردیا گیا۔ ایسی دھماچوکڑی مچی یا مچائی گئی کہ دیکھنے والوں نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔ ایسے منچلے بھی پائے گئے جو ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی سے ناراض ہوئے اور کھمبوں پر چڑھ گئے! مسلم لیگ (ن) کے مرکزی دفتر کے سامنے تو یہ تماشا اِس قدر ہوا کہ پارٹی کے صدر میاں محمد نواز شریف نے بالآخر تنگ آکر وہ کھمبا ہی اُکھاڑ پھینکنے کا حکم دیا جس پر چڑھ کر لوگ پارٹی کا نام ’’بُلند‘‘ کرنے پر تُلے ہوئے تھے! ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ تو کب کا رفع دفع ہوا۔ مگر رونا اِس بات کا ہے کہ کھمبے پر چڑھنے کا سِلسِلہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ قوم نے ووٹ ڈالا تو سُکون کا سانس لیا کہ چلو، اب نیا سیٹ اپ بنے گا اور نئے چہرے آکر کچھ نیا کرنے پر کمر بستہ ہوں گے۔ مگر اِس قوم کے نصیب میں سُکون اور راحت کہاں؟ کھمبے تو اب بھی گڑے ہوئے ہیں۔ اب انتخابی نتائج کا رونا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے ہفتے کو کہا تھا کہ الیکشن کا کمال یہ ہے کہ ہارنے والوں کے ساتھ ساتھ جیتنے والے بھی رو رہے ہیں۔ یہ تو ایسا ہی معاملہ ہے کہ کوئی مَر جائے تو لوگ روتے ہیں۔ اور کبھی کبھی حالات کے ستائے ہوئے اِس بات پر بھی روتے ہیں کہ اگر مَر نہ سکے یعنی جینا پڑا تو کیا کریں گے! پیپلز پارٹی والے کہتے آئے ہیں ہر گھر سے بھٹو نکلے گا، تم کتنے بھٹو ماروگے۔ اور پھر یہ ہوا کہ ہر گھر سے بھٹو نکل گیا۔ اِس بار اہل وطن نے پانچ سالہ کارکردگی سے پیدا ہونے والے اشتعال کو بروئے کار لاتے ہوئے بھٹو فیکٹر کو بھی نظر انداز کردیا اور پیپلز پارٹی کو زمین پر دے مارا۔ گویا پارٹی کی ’’شاندار‘‘ کارکردگی نے اب کے بانی کے نام کو بھی پھانسی گھاٹ تک پہنچادیا! اِس معاملے میں ایک بس سندھ کو استثنٰی مِل سکا ہے۔ اور یہ نام نہاد اِستثنٰی بھی کب تک کے لیے ہے، کون جانتا ہے؟ ’’تُم کتنے بھٹو ماروگے‘‘ کا نعرہ تو اب قِصّۂ پارینہ ہوچلا ہے۔ ہاں، نیا نعرہ یہ ہے کہ تُم کِتنے کھمبے اُکھاڑوگے! احتجاج کا کھمبا قدم قدم پر گڑا ہے۔ اور اب تو یہ احتجاجی کھمبے ہمارے تمام تعمیری عزائم کے سینے میں گڑ چلے ہیں۔ احتجاج بھی ایک عجیب ہی کیفیت ہے۔ ایک دور وہ بھی تھا جب اِس سرزمین کی سیاست میں اپوزیشن بھی ہوا کرتی تھی۔ سیاسی مقابلے حقیقی اور کانٹے کے ہوا کرتے تھے۔ اپوزیشن فرینڈلی میچ کھیلنے پر یقین نہ رکھتی تھی۔ حکومت سے اختلاف ہوا بھی کرتا تھا تو کِسی کے اشارے پر نہیں بلکہ خالص اُصولی بُنیاد پر۔ سیاست میں کِسی سے محبت کِسی اور سے نفرت کی محتاج اور مُکلّف نہ تھی۔ وہ دِن ایسے ہوا ہوئے ہیں کہ اب یادوں میں بھی دُھندلا سے گئے ہیں! ع اب اُنہیں ڈھونڈ چراغ رُخ زیبا لے کر جمہوریت کے دامن میں بہت کچھ ہے مگر ہم نے احتجاج اور تنقید کو چُن لیا ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جمہوریت کا دستر خوان بچھاکر ہم نے اُس پر صرف احتجاج اور تنقید کو چُن دیا ہے! بعض ’’اہل کرم‘‘ کو تو احتجاج کی ایسی لَت پڑی ہے کہ کچھ دِن احتجاج نہ کریں تو اِسی بات پر احتجاج کرنے لگتے ہیں کہ اِتنے دِنوں سے احتجاج کیوں نہیں کیا تھا! جب کچھ سمجھ میں نہیں آتا تو احتجاج کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ گویا ؎ بے چینیاں سمیٹ کے سارے جہان کی جب کچھ نہ بن سکا تو مِرا دِل بنا دیا! جمہوریت کا سفر جاری رکھنے کے نام پر جو تماشے ہو رہے ہیں اُنہوں نے لوگوں کو suffer کی منزل پر اُتار دیا ہے! ڈاکٹر طاہرالقادری کا کہا سچ اور دُرست ثابت ہو رہا ہے کہ الیکشن کے بعد دھرنے ہی دھرنے ہوں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ بعض قوتوں نے انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج کے نام پر ایک اور جن کو بوتل سے نکالا ہے اور شاید بوتل ہی کو ٹِھکانے لگانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے تاکہ احتجاج اور دھرنوں کا جن بے گھری اور در بہ دری کے عالم میں جہاں تہاں ڈیرا ڈالتا پھرے! قوم کا یہ حال ہے کہ دو قدم چلتی ہے اور رُک جاتی ہے کیونکہ راستے میں کوئی دھرنا آ جاتا ہے! کیا اِسی تعبیر کے لیے جمہوریت کا خواب دیکھا تھا؟ سیاسی راگ مالا کا تازہ ترین راگ مینڈیٹ چُرائے جانے کے الزام کے سُروں سے ترتیب دیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی بہت عقل مند ہے کہ عوام کے غُصّے کو بھانپتے ہوئے شکست کو تسلیم کرکے خاموش بیٹھی ہے۔ تحریکِ انصاف کا احتجاج تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ اُس نے بھی مینڈیٹ چُرائے جانے کا الزام شدومد سے لگایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کہیں کپتان کو دَھکّا دے کر احتجاج کے تالاب میں تو نہیں گِرایا جارہا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اُنہیں مُبیّنہ دھاندلیوں کے خلاف احتجاج میں اُلجھاکر وہاں کچھ ڈھنگ کا کام کرنے کے قابل نہ چھوڑا جائے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی پوزیشن میں ہیں؟ تحریکِ انصاف کے قائد کو یہ نُکتہ سمجھنا چاہیے کہ احتجاج طُول پکڑتا ہے تو لوگ بدظن ہونے لگتے ہیں۔ ٹائمنگ اور پریکٹس ہر معاملے میں اہمیت رکھتی ہے۔ اور یہ بات کپتان سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے؟ عمران خان کو میچ کے شروع ہی میں تمام اوورز کرانے سے گریز کرنا چاہیے۔ احتجاج بھی آج کی سیاست کا ایک اہم کارڈ ہے۔ اِسے وقت آنے پر ہی شو کرنا چاہیے! یہ وقت فتح پر سَجدۂ شُکر بجا لانے کا ہے، احتجاجی کا نہیں!