ہمارا قومی مزاج چند ایسی باتوں سے مِل کر بنا ہے جن کی پشت پر کوئی منطق یا دلیل تلاش نہیں کی جا سکتی۔ اِس میں ایک آسانی یہ بھی ہے کہ دُنیا اب ہمارے قومی مزاج کے بارے میں سوچنے کی زحمت سے نجات پا چکی ہے۔ اگر کبھی کوئی پاکستانی کچھ کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو سب سے پہلے یہ دیکھتا ہے کہ دِن کون سا ہے۔ اگر کچھ کر گزرنے کی لگن منگل یا بدھ کو پیدا ہوئی ہے تو عمل کا معاملہ پیر تک موخر کردیا جاتا ہے۔ اب اگر پیر تک لگن دم توڑ جائے، ارادے شکست و ریخت سے دوچار ہوجائیں تو اِنسان کیا کرے؟ برقرار رہنا تو ارادوں کی ذمہ داری ہے، لگن کا فرض ہے۔ ایسے ارادے کِس کام کے جو چار دن بھی برقرار نہ رہ سکیں۔ ثابت ہوا کہ ہم اب تک کچھ نہیں کر پائے تو اِس میں قصور ہمارا نہیں، ہمارے ارادوں کا ہے جو آن کی آن میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ قومی معاملات کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ ہر سال شب برأت کے آتے ہی تمام اہم معاملات عید کے بعد تک کے لیے موخر کردیئے جاتے ہیں۔ منتخب ایوانوں کے اجلاس ہوتے ہیں نہ اہم میٹنگز۔ ایسا لگتا ہے کہ رمضان آتے ہی تمام معاملات پر ’’ایمبارگو‘‘ لگا دیتا ہے۔ رمضان میں شیاطین قید کردیئے جاتے ہیں۔ شاید اِسی عمل کی پیروی میں سرکاری اُمور بھی موخر کردیئے جاتے ہوں۔ ماہِ صیام کے دوران سیاست دان اہم قومی امور کو معرضِ التوا میں ڈال کر ذاتی مفادات کے حُجروں میں گوشہ نشینی اختیار کرلیتے ہیں۔ اِس بار بھی رمضان کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی کا سیلاب آیا۔ پھر عید آئی اور ہر تنخواہ دار کے بجٹ کو تہہ و بالا کرتی ہوئی گزر گئی۔ اہلِ سیاست نے بہت کچھ عید کے گزرنے سے مشروط کر رکھا تھا۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما جہانگیر بدر نے چاند رات کو خاصے دَم دار انداز سے اعلان کیا کہ عید کے بعد دما دم مست ’’قلندڑ‘‘ ہوگا۔ ہم آج تک سمجھ نہیں کہ یہ دما دم مست قلندر کون سا قسط وار سیاسی ڈراما ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ جہانگیر بدر فرماتے ہیں کہ محکموں کی بحالی کے نام پر کرپشن کا بازار گرم ہے۔ حکومت تین ماہ ہی میں ناکام ہوگئی ہے۔ کوئی حساب لگاکر ہمیں سمجھائے کہ نئی حکومت کو تشکیل کی منزل سے گزرے تین ماہ کہاں سے ہوگئے! اور ابھی سے اُس کی ناکامی کے فتوے کیوں جاری کئے جارہے ہیں؟ یہ بھی خوب ہے۔ ابھی تو ہم نے تیسرے دور میں مسلم لیگ ن کا ’’ہُنر‘‘ اچھی طرح دیکھا بھی نہیں اور اُس کا بوریا بستر گول کرنے کی باتیں ہونے لگیں۔ جہانگیر بدر کہتے ہیں کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے سے عوام کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ جہانگیر بدر یہ تو بتائیں کہ کون سی کمر؟ کیا کوئی کمر بچی ہے؟ اگر بچی تو یہ اُن کی طرف سے اپنی ہی یعنی سابق حکومت کی ’’کارکردگی‘‘ پر بہتان کے سِوا کچھ نہیں۔ جہانگیر بدر یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر بجلی کے نرخ کم نہ کئے گئے تو عید کے بعد قوم سڑکوں پر آنے کے لیے تیار ہے۔ ہم اِس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ قوم کو سڑکوں پر لانے کے دعویدار خواہ مخواہ کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ قوم تو پہلے ہی سڑک پر ہے، بلکہ فٹ پاتھ کی سطح پر آچکی ہے۔ اگر اہلِ سیاست کی مہربانیاں جاری رہیں تو بھارت کے بڑے شہروں کی طرح کراچی، لاہور اور ملتان وغیرہ میں لاکھوں سفید پوش گھرانے فٹ پاتھ پر آباد ملیں گے۔ جہانگیر بدر کو نئی حکومت کا سیاسی مستقبل اچھا دکھائی نہیں دے رہا۔ ہم اِس بات سے بھی متفق نہیں۔ وہ اچھے کی بات کر رہے ہیں، ہمیں تو مستقبل ہی دکھائی نہیں دے رہا۔ اور اب کِسی کو سیاسی مستقبل کی فکر کہاں لاحق رہتی ہے؟ اگر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر پارٹی قیادت اپنا مالی مستقبل سنوار لے تو سیاسی مستقبل تھوڑا بہت خرچ کرکے پھر سنوارا جاسکتا ہے۔ جہانگیر بدر نے عید کے بعد دما دم مست قلندر کی بات کی ہے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اپوزیشن سے تعلق رکھتے ہیں اور اپوزیشن کا تو کام ہی جھپٹنا، پلٹنا اور پلٹ کر جھپٹنا ہے تاکہ لہو گرم رہے۔ درونِ خانہ خواہ کچھ طے ہوچکا ہو، دِکھاوے کے لیے تھوڑی بہت ہلچل تو ہونی ہی چاہیے۔ ہمیں حیرت اِس بات پر ہے کہ سندھ میں مسلم لیگ ن کے چند گروپوں نے بھی عید کے بعد دما دم مست قلندر کا عندیہ دیا ہے۔ سید غوث علی شاہ صدر بننے کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ ہُما تو ممنون حسین کے سَر پر بیٹھ گیا۔ مون سون کو بھی ابھی آنا تھا اور غوث علی شاہ کے ارمانوں پر پانی پھیرنا تھا۔ ممتاز بھٹو اور لیاقت جتوئی نے کراچی میں گورنر ہاؤس کو مَسکن بنانے کا سوچ رکھا تھا۔ مگر ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ نومنتخب صدر ممنون حسین نے سندھ اور خیبر پختونخوا میں گورنرز فی الحال تبدیل نہ کئے جانے کا عندیہ دے کر ممتاز بھٹو اور لیاقت جتوئی کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ عید کے بعد اِن کی طرف سے بھی دما دم مست قلندر کا عندیہ دیا گیا ہے۔ یہ عجیب جمہوری دور ہے کہ حزبِ اختلاف کے ساتھ ساتھ حزبِ اقتدار کی طرف سے بھی دما دم مست قلندر کا عندیہ دیا جانے لگا ہے۔ دُنیا بھر میں جو لوگ جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتے وہ ذرا ہمارے ہاں سے جمہوریت کے نئے ورژن قبول کریں تو اندازہ ہو کہ جمہور کے نام پر کیسے کیسے تماشے پیش کیے جاسکتے ہیں۔ ہماری ہر منتخب حکومت چومکھی لڑائی لڑے یا نہ لڑے، کم از کم دو مُکھی لڑائی تو اُسے لڑنی ہی پڑتی ہے۔ بیرونِ خانہ ہی نہیں، درونِ خانہ بھی دما دم مست قلندر کا سامنا رہتا ہے۔ عید کے بعد مزید بہت کچھ ہونے والا ہے۔ مثلاً فیصلہ کیا گیا ہے کہ عید کے بعد ٹرینوں میں ٹریکنگ سِسٹم لگایا جائے گا۔ اِس صورت ٹرینوں کی مانیٹرنگ آسان ہو جائے گی۔ یہ خبر پڑھ کر ہم نے سُکون کا سانس لیا کہ چلیے، ٹریکنگ سِسٹم لگنے سے یہ تو خیر معلوم ہو ہی جائے گا کہ ٹرینیں کہاں ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی اطمینان ہوسکے گا کہ ٹرینیں پائی بھی جاتی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ گلوبل پوزیشننگ سِسٹم (ٹریکنگ سِسٹم) میں اِتنا دَم خم ہے کہ ہماری ٹرینوں کی پوزیشن بتاسکے۔ عید گزر گئی ہے تو اب بہت کچھ ہونا ہے۔ سیاسی سطح پر بہت سی تبدیلیاں لائی جانی ہیں۔ کچھ کو نوازنا ہے، بعض کو دُھتکارنا اور لتاڑنا ہے۔ ہم کیا جانیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں کیا اُکھاڑ پچھاڑ ہونی ہے۔ رمضان ہمارے لیے غزل کی طرح تھا اور نصیب ہی ایسے ہیں کہ مقطع میں سُخن گسترانہ بات کو وارد ہونا تھا۔ سو ہوگئی۔ چاند رات کو فہرست تھام کر عید الفطر منانے کا سامان لینے گھر سے نکلے تو معلوم ہوا کہ ایک معمولی سی چیز نے ایک بار پھر ہمیں ذِلّت سے دوچار کرنے کی ٹھان لی ہے۔ اور ایک ہم کیا، پورا شہر دِل تھامے ہوئے تھا۔ ٹماٹر نے ایک بار پھر قسم کھالی تو ہمیں نیچا دِکھاکر دَم لے گا یعنی اُس کی قیمت پلک جھپکتے میں ڈیڑھ سو روپے فی کلو تک جا پہنچی۔ اب ہمیں یہ خوف لاحق ہے کہ کہیں ٹماٹر کی قیمت بھی اُسی طرح نیچے آنے سے انکار نہ کردے جس طرح ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری ملازمین مکانات اور بنگلے خالی کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ اب عید گزر گئی ہے تو اور جو کچھ بھی گزرنی ہے گزر جائے۔ مگر ہم تو فی الحال صرف یہ دُعا مانگ رہے ہیں کہ پہلے مرحلے میں ٹماٹر کے نرخ نیچے آجائیں ورنہ ہم گھریلو بجٹ کے نیچے آجائیں گے! باقی جو دما دم مست قلندر نصیب میں لکھا ہے وہ تو ہم بھگت ہی لیں گے، جھیل ہی جائیں گے۔