فولاد بے جان ہوتا ہے اور فولاد سے بنائی جانے والی پٹڑیاں بھی بے جان ہی ہوتی ہیں۔ فولادی پٹڑیاں گرمی کا اثر قبول کرتی ہیں نہ سردی کا۔ گرمی سے وہ پگھلتی نہیں اور سردی میں سُکڑنے کا نام نہیں لیتیں۔ فولادی پٹڑیوں پر دوڑنے والا انجن اور اُس سے جُڑی بوگیاں بھی فولاد کی بنی ہوتی ہیں۔ حیرت اِس بات پر ہے کہ فولادی ٹرین کی کوکھ سے جنم لینے والا خسارہ بے جان نہیں ہوتا! دن بہ دن پنپتا جاتا ہے، پروان چڑھتا رہتا ہے۔ جس ٹرین کو دیکھیے اُس کی حالت یہ ہے کہ شروع سے آخر تک بلکہ مُنہ تک بھری ہوئی۔ انجن پر بھی لوگ چڑھے ہوئے، مگر پھر بھی خسارہ! یہ تو جادو ہے اور ایسا جادو پاکستان ہی میں ممکن ہے کیونکہ یہ سرزمین ہر معاملے میں جیتا جاگتا ’’زندہ طلسمات‘‘ ہے۔ ٹرینیں دنیا بھر میں چلتی ہیں اور کما کر دیتی ہیں۔ ایک ہماری ٹرینیں ہیں کہ ناکارہ اور ہڈ حرام جوان اولاد کی طرح بے عملی کی عملی تصویر بن کر رہ گئی ہیں۔ یہ ملک بھر میں دوڑتی پھرتی ہیں مگر اِن کی آمدن مارشلنگ یارڈ سے باہر نہیں نکلتی۔ اہلِ جہاں نے بہت مَغز کھپایا، بہت جَھک ماری مگر اب تک ایسی ٹرین نہیں بنا پائے جس کے چلنے سے فاصلہ گھٹے اور خسارہ بڑھے۔ دنیا بھر میں ٹرینیں آمدورفت کے لیے ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ہر ٹرین یہی مقصد حاصل کرتی ہے مگر ذرا مختلف انداز سے۔ یعنی ٹرین آمد، وسائل رفت! بھاپ کے انجن ہر وقت خدمت چاہتے تھے یعنی کوئلہ جھونکتے رہیے۔ ہماری ٹرینیں بھی بھاپ کے انجنوں کے اُصول کی بنیاد پر کام کرتی ہیں۔ انہیں چلانا ہے تو قومی خزانے سے وسائل نکال کر انجنوں میں جھونکتے رہیے۔ ٹرینیں تو کہیں کہیں رک کر سانس بھی لیتی ہیں مگر اب تک یہ طے نہیں کیا جا سکا کہ خسارے کو کس اسٹیشن یا پلیٹ فارم پر روکا جائے۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ سفر کے لیے ٹرین استعمال کیا کرتے تھے۔ اب ٹرین کے ذریعے سفر کم اور suffer زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بھی مُجاہدے اور ضبطِ نفس ہی کی ایک شکل ہے۔ اہلِ جہاں مہم جوئی کے چکر میں پتا نہیں کہاں کہاں کی خاک چھانتے پھرتے ہیں۔ کوئی پہاڑ پر چڑھتا ہے، کسی کو سمندر کی گہرائی ناپنے کا شوق ہے۔ کوئی گھنے جنگلات میں مٹر گشت کرتا پھرتا ہے۔ کسی کو درندوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا شوق ہے۔ یہ سب لوگ پاکستان آکر ایک بار ٹرین کا سفر کریں اور بتائیں کہ دنیا میں کہیں اِس سے بڑی مُہم جُوئی بھی ہے۔! ریلوے کی وزارت کا قصہ ہو یا ٹرین کے سفر کی کہانی، دونوں میں شروع سے آخر تک موڑ ہی موڑ ہیں۔ دلچسپی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ریلوے کی وزارت کے خسارے کی داستانیں اِس قدر دلچسپ ہیں کہ اِن سے تحریک پا کر کئی شاہکار المیہ فلمیں بنائی جا سکتی ہیں۔ پاکستان میں ٹرین کا سفر بہتوں کے ذوق کی تسکین کرتا ہے۔ کسی نے اگر کوئی گناہِ کبیرہ کیا ہے اور ضمیر کی خلش تنگ کر رہی ہے تو اپنے آپ کو سزا دینے کے لیے کچھ اور نہ کرے، ٹرین میں سوار ہو جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ اِس عمل کو دو تین مرتبہ دُہرانے پر وہ ’’نِروان‘‘ اور ’’مُکتی‘‘ پا جائے گا۔ بہتوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ ٹرین کے طویل سفر کے ذریعے روحانیت کی کئی منازل طے کرتے ہیں۔ یہ سفر اُنہیں تحمل کی تعلیم ہی نہیں، تربیت بھی دیتا ہے۔ ٹرین کے مسافر ڈیڑھ دو دن کے سفر میں جس طور ایک دوسرے کو جھیلتے ہیں اگر زندگی بھر یوں ہی ایک دوسرے کو برداشت کرتے رہیں تو بہت سی معاشرتی اُلجھنیں خود بخود ختم ہو جائیں۔ ٹرین کے طویل انتظار کے جاں گسل ماحول میں بھی اگر آپ ہنس ہنس کر، گا گا کر باتیں کرنے کی تحریک پاتے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ آپ کی نفسیاتی اور روحانی تربیت بہت حد تک مکمل ہو گئی۔ اسٹیشن پر ہزاروں مسافر سامان باندھ کر تیار کھڑے ہوں اور ایسے میں محض چند سو نشستوں کی گنجائش والی ٹرین وارد ہو تو! تو کیا؟ کوشش تو سبھی کریں گے مگر ع ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں؟ ٹرین میں سوار ہونا وہ مرحلہ ہے جس سے بخوبی گزرنے پر کوئی بھی اپنی ’’فِطری شُجاعت‘‘ پر فخر کر سکتا ہے۔ اِس مرحلے سے گزرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ آندھی کے سامنے سارے ہی چراغ جلتے رہنے کی دوڑ شروع کرتے ہیں مگر بقول محسنؔ بھوپالی ع جس دِیے میں جان ہو گی وہ دِیا رہ جائے گا پاکستان کے قیام کی تحریک کے دوران یہ نعرہ بہت مشہور ہوا تھا۔ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ اکھنڈ بھارت سے اپنے لیے زمین کا ٹکڑا تو ہم نے حاصل کر لیا مگر بہت سے معاملات ادھورے رہ گئے۔ اِن میں ریلوے کی دُرستی بھی شامل ہے۔ مسلم لیگ سے متعلق نعرے ہی کے وزن پر اب ہر ریلوے پلیٹ فارم زبانِ حال سے کہہ رہا ہے ع ہمت ہے تو ٹرین پہ چڑھ کے دِکھا ٹرین میں جگہ پانے کے لیے زورِ بازو پر بھروسہ کرنے کے ساتھ ساتھ قُلی بہادر سے بھی معاملات طے کرنا پڑتے ہیں۔ قُلیوں سے ڈیلنگ بجائے خود ایک فنی شعبہ ہے جس میں مہارت حاصل کرنا پڑتی ہے۔ بیشتر قُلی ’’مینوں نوٹ وَخا، میرا مُوڈ بنے‘‘ کے اُصول کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ جنہیں ادب سے شغف ہے وہ جانتے ہیں کہ اُردو شاعری بالخصوص غزلوں میں پایا جانے والا روایتی محبوب کس کس طرح کے غمزہ و عشوہ و ادا سے مُزیّن و آراستہ ہوتا ہے۔ جدید اصطلاح استعمال کیجیے تو اُردو شاعری کا روایتی محبوب ناز نخروں سے fully loaded ہوتا ہے۔ بات بات پر اینٹھنا، روٹھنا اور ٹھنکنا اُس کے لیے بہت حد تک built-in معاملہ ہے۔ یہ بات تو خیر سمجھ میں آتی ہے کہ ع خُدا جب حُسن دیتا ہے، نزاکت آ ہی جاتی ہے غزلوں میں سانس لیتا ہوا محبوب اگر کچھ اکڑ دکھاتا ہے تو حیرت کی بات نہیں۔ اُس کا بے مثال حُسن (خیالی ہی سہی) رعونت پیدا کر سکتا ہے‘ مگر جناب! برائے نام حسین بھی نہ ہونے کے باوجود قُلیوں کی ناز برداری کرنی پڑتی ہے۔ ٹرین میں سیٹ حاصل کرنے کے لیے قُلیوں کے جتنے اور جیسے نخرے برداشت کرنا پڑتے ہیں وہ اگر شُعرا تھوڑی سی توجہ سے اپنی غزلوں میں فِٹ کریں تو ایک الگ طرح کا منفرد بلکہ ما فوق البشر ٹائپ کا محبوب اُردو شاعری کو مل سکتا ہے۔ ٹرین صفائی سُتھرائی اور دُھلائی کے بعد پلیٹ فارم پر لائی گئی ہو اور ہزاروں افراد اُس پر ہَلّہ بولنے کے لیے بے تاب ہوں تب ذرا قُلیوں کا جائزہ لیجیے۔ پل میں تولہ، پل میں ماشہ۔ ابھی خوش ہیں اور ابھی ناراض ہوئے جاتے ہیں۔ یہ تُنک مزاجی، یہ خود سَری اگر اُردو غزل کے روایتی محبوب کے مزاج میں ’’انسٹال‘‘ کر دی جائے تو غزل کی روایت مزید تابندہ اور درخشاں ہو جائے۔ ریلوے پلیٹ فارم پر سامان کے ساتھ ٹرین کا طویل انتظار بہتوں کے لیے جاں گسل ثابت ہوتا ہے‘ مگر یہ بھی دیکھیے کہ آج کے مصروفیت زدہ دور میں اس بہانے لوگ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ کچھ وقت زیادہ گزارنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ اِس اعتبار سے دیکھیے تو ریلوے کا شعبہ فاصلے مِٹا کر لوگوں کو قریب لا رہا ہے جو بہت بڑی معاشرتی خدمات ہے۔ ریلوے پلیٹ فارم کو ’’سوشل نیٹ ورکنگ‘‘ کے لیے عمدگی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ٹرین کے انتظار میں ہلکان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ انتظار کی ’’لذّت‘‘ پانے والے دوسرے مسافروں سے رسم و راہ بڑھائیے، دوستی پروان چڑھائیے۔ ہمارے ہاں ہر چیز وہ کام کر رہی ہے جس کے لیے اُسے بنایا ہی نہیں گیا۔ ایسے میں اگر ریلوے کا شعبہ اپنے اصل کام سے ہٹ کر کچھ، بلکہ بہت کچھ کر رہا ہے تو حیرت کی کیا بات ہے۔ شکر کیجیے کہ کچھ کر تو رہا ہے۔ اب اِس کارکردگی کو اپنے حق میں بہتر انداز سے استعمال کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔