"MIK" (space) message & send to 7575

حد کردی آپ نے

شاہد آفریدی کے چَھکّے تو ستم ظریفی ڈھانے پر تُل گئے۔ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ معاملہ اِتنا آگے بڑھ جائے گا کہ حکومت کو حرکت میں آنا پڑے گا۔ ہم بنگلہ دیشی حکومت کی بات کر رہے ہیں۔ ایشیا کپ کے میچ میں شاہد آفریدی کے پے در پے چَھکّوں نے ایسی قیامت ڈھائی کہ ڈھاکہ سرکار کے سینے پر سانپ لوٹ گیا۔ شیخ حسینہ واجد کتنا تڑپی ہوں گی جب اُنہوں نے پاکستان کو اپنی سرزمین پر فتح سے ہمکنار ہوتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ 
دو سال قبل شیخ حسینہ نے پاکستان سے نفرت اور بیزاری کا ایسا مظاہرہ کیا تھا کہ سفارتی شائستگی کا جنازہ نکل گیا۔ ایشیا کپ کے فائنل میں پاکستان نے بنگلہ دیش کو شکست دی تو مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے تشریف فرما بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد جلن اور کُڑھن کے مارے، فاتح ٹیم کو ٹرافی اور دیگر انعامات دیئے بغیر، اسٹیڈیم سے نکل گئی تھیں۔ سوچا جاسکتا ہے کہ کسی ملک میں کوئی بین الاقوامی ٹورنامنٹ ہو رہا ہو اور وہاں کا وزیر اعظم تقریب سے یوں اُٹھ کر چل دے؟ شیخ حسینہ کے لیے ایسا کرنا کچھ مشکل نہ تھا کیونکہ اُن کے ذہن پر صرف اشتعال اور انتقام سوار رہا ہے۔ وہ ذاتی انا کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں اور جارہی ہیں۔ عبدالقادر مُلّا کی پھانسی سے یہ ثابت بھی ہوچکا ہے۔ 
ایشیا کپ کے میچ میں شاہد آفریدی کے چَھکّوں نے بنگلہ 
دیشی کرکٹرز اور اُن کے پرستاروں پر قیامت ڈھادی۔ ہاتھ آیا ہوا میچ شاہد آفریدی کی طوفانی بیٹنگ کے باعث ہاتھ سے ایسا نکلا کہ قیامت ڈھاگیا۔ ہر طرف شاہد آفریدی کے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔ اِس سے قبل بھارت کو شکست دینے میں بھی مرکزی کردار شاہد آفریدی ہی نے ادا کیا تھا۔ بھارت کے خلاف میچ کے دوران بنگلہ دیشی تماشائیوں نے پاکستانی ٹیم کا بھرپور ساتھ دیا۔ بھارتی قیادت کے سینے پر تو تب بھی سانپ لوٹے ہوں گے مگر خیر، وہ کڑوی گولی اُس نے نگل لی تھی۔ 
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں پھر وہی مناظر دکھائی دیئے۔ بھارت کے خلاف پاکستانی ٹیم کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے بنگلہ دیشی تماشائیوں نے سبز ہلالی پرچم لہرائے اور پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے نعرے بھی لگائے۔ پاکستان کی بیٹنگ کے دوران جب بھی چوکا لگتا، بنگلہ دیشی تماشائی کھل کر داد دیتے۔ اِس بار نئی دہلی کی حالت بُری ہوگئی۔ وہ بھلا یہ بات کس طور برداشت کرسکتا تھا کہ اُس کے گود لیے ہوئے بنگلہ دیش کی زمین پر پاکستان کی جے جے کار ہو؟ بنگلہ دیشی کرکٹ پریمیوں کا یہ جرم ناقابل معافی تھا۔ بھارتی قیادت تو اِس بات پر بھی خفا تھی کہ اُس کے ٹکڑوں پر پلنے والی حسینہ ایڈمنسٹریشن کی ناک کی نیچے یہ سب کچھ ہو رہا تھا اور اِسے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ ہاٹ لائن پر 
رابطے ہوئے اور ڈھاکہ سرکار کو اُس کا فرض یاد دلایا گیا۔ فرمان آیا کہ بنگلہ دیشی تماشائیوں کو پاکستان کے لیے دِل کے دروازے کھولنے کی اجازت نہ دی جائے۔ دِلّی سرکار کی مُطیع و فرماں بردار ڈھاکہ سرکار کے لیے اِس فرمان کی عدم تعمیل کسی بھی طور ممکن نہ تھی۔ 
شیخ حسینہ نے نزلہ شائقین پر گرادیا۔ بنگلہ دیشی شائقین کو حکم دیا گیا ہے کہ اسٹیڈیم میں بنگلہ دیش کے سِوا کسی بھی ملک کا پرچم نہ لہرائیں۔ بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ نے سکیورٹی اہلکاروں کو حکم دیا ہے کہ وہ اسٹیڈیم میں کسی بھی بنگلہ دیشی تماشائی کو کسی اور ملک کا پرچم لے کر داخل نہ ہونے دیں۔ حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیشی باشندوں کے لیے کسی اور ملک کا پرچم لہرانا قومی پرچم سے متعلق قواعد کی خلاف ورزی ہے! کوئی پوچھے کہ قواعد کی خلاف ورزی کا نوٹس لینے کی توفیق ایشیا کپ کے میچوں میں کیوں نہ ہوئی۔ 
کرکٹ کی تاریخ میں یہ شاید اپنی نوعیت کا واحد حکم ہے۔ ڈھاکہ سرکار کی سوچ اور بھارت کے معاملے میں اُس کی فرماں برداری کے ساتھ ساتھ اِس حکم سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ بنگلہ دیشی باشندوں کے دِل آج بھی بہت حد تک پاکستانی بھائیوں کے ساتھ اور پاکستان کے لیے دھڑکتے ہیں۔ ڈھاکہ سرکار کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ آج پرچم لہرانے پر پابندی لگائی ہے، کل کیا بیٹسمین یا بائولر کو داد دینے پر بھی پابندی لگائی جائے گی؟ اور اُس کے بعد کیا یہ پابندی عائد ہوگی کہ تماشائی ہونٹوں پر اُنگلی رکھیں اور دوسرے ہاتھ سے سے دِل تھامیں یعنی کسی سے یکجہتی کیلئے دِل کا دھڑکنا بھی جائز نہ ہوگا! 
ڈھاکہ سرکار جو کچھ کر رہی ہے اُس میں بنگلہ دیشی عوام کیلئے یہ پیغام بھی ہے کہ اُن کی وزیر اعظم ایک برادر اسلامی ملک سے تعلقات کو محض اِس لیے داؤ پر لگانا چاہتی ہے کہ نئی دِہلی کو اُس ملک کے پرچم کا لہرایا جانا قبول اور برداشت نہیں۔ عوام اور حکومت کی سوچ میں اِتنا واضح فرق اِس امر کی تحریک دیتا ہے کہ عوامی حلقے حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ مخاصمت کی شدت سے اندھی ہوکر بے ڈھنگے اقدامات نہ کرے۔ شاہد آفریدی کو تو چَھکّے لگانے سے روکا نہیں جاسکتا مگر اُنہیں اُن کا فرض ضرور یاد دلایا جاسکتا ہے جو اپنی ہی آگ میں جل بُھن کر کسی بھی لائن آف کنٹرول کو خاطر میں نہیں لاتے اور سفارتی آداب بھی فراموش کردیتے ہیں۔ 
شیخ حسینہ اور ان کی ٹیم حد سے گزر گئی ہے۔ اُنہیں شائستگی کا مفہوم بھی شاید یاد نہیں رہا۔ کھیل کو کھیل رہنے دیا جائے تو اچھا۔ اُس میں سیاست ڈال کر معاملات کو زیادہ الجھانا کسی صورت ایسا عمل نہیں جس کی تعریف کی جائے۔ جو لوگ پیسے خرچ کرکے اسٹیڈیم میں آتے ہیں اور اپنے شوق کو وقت دیتے ہیں۔ اُنہیں اس بات کی آزادی ہونی چاہیے کہ کھلاڑیوں کو کھل کر داد دیں، خواہ اس کا تعلق کسی ٹیم سے ہو۔ بنگلہ دیشی شائقین کا بھی یہ حق محفوظ ہے کہ جس ٹیم یا کھلاڑی کو چاہیں اُس کے لیے تالیاں بجائیں۔ کھیل سے اُن کی دلچسپی کی راہ میں ڈھاکہ سرکار کو حائل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا جذبات کو مجروح کرنا ہے۔ کھیل دِلوں کو جوڑنے والی چیز ہے، اِسے دِل توڑنے والے آلے میں تبدیل نہ کیا جائے۔ ڈھاکہ سرکار کا مزاج دیکھتے ہوئے ع 
اُمّید تو نہیں ہے مگر ہاں خدا کرے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں