"MIK" (space) message & send to 7575

انقلاب؟ کیا مذاق ہے جناب!

یاروں نے تو پوری یعنی بھرپور تیاری کر رکھی تھی کہ جمہوریت کے فروغ اور انتخابی اصلاحات کے نام پر کچھ نہ کچھ کرکے دم لیں گے، کوئی نہ کوئی انقلاب برپا کرکے ہی چین سے بیٹھیں گے۔ آثار بھی یہی تھے کہ ہر طرف افراتفری ہوگی، دھما چوکڑی مچے گی۔ سب اپنی اپنی لنگوٹیں کس کر میدان میں نکل آئے تھے۔ 
مگر پھر وہی ہوا جو اِس ملک میں ہوتا آیا ہے۔ ہمیں کوئی بھی کام وقت پر کرنا کب آیا ہے۔ ہر کام کسی نہ کسی وقت پر تو ہوتا ہی ہے۔ بس، ہم اِسی کو وقت پر فیصلہ یا کام کرنا سمجھ لیتے ہیں۔ اب کے بھی یہی ہوا۔ 
بیرون ملک پُرسکون فضاؤں میں وطن اور اہلِ وطن کا بھلا سوچنے والوں نے طے کیا کہ اہلِ وطن کو اپنے وجود کا ایک بار پھر احساس دلایا جائے۔ یعنی ایک بار پھر بھرپور انٹری ماری جائے۔ انٹری ماری بھی گئی مگر معاملہ ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کا سا تھا۔ یعنی ٹائمنگ غلط ہوگئی۔ 
انقلاب تو کیا برپا ہونا تھا، تھوڑا بہت ہنگامہ ضرور برپا ہوا۔ مگر پھر سب کچھ سمندر کے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ بیٹھ ہی جانا تھا۔ لوگ لاکھ جذباتی اور پُرجوش سہی، نرے احمق یا گھامڑ تو ہیں نہیں کہ ایک سُوراخ سے بار بار ڈَسے جائیں۔ اگرچہ مَت ماری جاچکی ہے مگر پھر بھی تھوڑی بہت عقل باقی ہے جو عین وقت پر گڑھے میں جا گِرنے سے بچالیتی ہے۔ 
ڈاکٹر طاہر القادری جس طور آئے اور جس جانے پہچانے انداز سے انہوں نے ایک بار پھر خود کو سیاسی مارکیٹ میں پیش کیا وہ حیران کن تھا نہ افسوس ناک۔ ہاں، اِتنا ضرور ہوا کہ شدید گرمی کے مارے اپنے آپ سے بھی اُکتائے ہوئے لوگوں کو ذرا کھل کر ہنسنے کا موقع ملا۔ ہم نے شادی کی بعض تقریبات میں دیکھا ہے کہ نکاح سے قبل دولہا چند فرمائشیں کرتا ہے اور پھر ایک آدھ منواکر نکاح پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً کار کی فرمائش ہوتی ہے اور موٹر سائیکل پر ''ڈن‘‘ کردیا جاتا ہے۔ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی طیارے کو شادی کا شامیانہ سمجھ کر خود کو دولہا فرض کرلیا۔ باراتیوں کے جِلو میں ڈاکٹرطاہرالقادری نے ریڈ کارپٹ ویلکم مانگا۔ نئی سیاسی بارات کے دولہا میاں کسی طور طیارے سے اُترنے کو تیار نہ تھے۔ ایک مرحلے پر موصوف نے کہا کہ اُن کے استقبال کے لیے کسی اعلیٰ فوجی افسر کو آنا چاہیے۔ عقب سے کسی مُرید نے لقمہ دیا کور کمانڈر کو آنا چاہیے! 
کئی گھنٹے چلنے والا یہ ڈرامہ ٹائیں ٹائیں فِش پر منتج ہوا۔ شادی کی تقریب میں تو دولہا کار کا مطالبہ کرکے موٹر سائیکل پر ''ڈن‘‘ کردیتا ہے مگر ڈاکٹرطاہر القادری اپنے ہی جوش و جذبے کا شکار ہوکر بظاہر خسارے میں رہے۔ انہوں نے کار کی بجائے ہوائی جہاز مانگا اور پھر سائیکل پر راضی ہوگئے! شکر ہے، یہ مرحلہ طے ہوا۔ اگر وہ کہیں انقلاب مانگ بیٹھتے تو حکومت کہاں سے لاتی! ہوسکتا ہے ڈاکٹرطاہرالقادری کے چاہنے والے طیارے میں چھ گھنٹے گزارنے اور طرح طرح کے مطالبات پیش کرنے ہی کو انقلاب سمجھ کر خوش ہولیے ہوں! دعوے انقلاب لانے کے تھے اور اب گھر میں آرام کیا جارہا ہے! یہ تو سیاست کے نام پر اہلِ وطن سے مذاق ہوا! 
سیاسی قائدین انقلاب لانے کی تیاری کر رہے تھے مگر انقلاب خدا جانے کس کونے میں گھس بیٹھا ہے کہ منہ دکھائی کا موقع ہی نہیں دے رہا۔ قوم حیران (کم) اور پریشان (زیادہ) ہے کہ تبدیلی کے نام پر یہ نیا ڈرامہ کس خوشی میں ہے اور اِس کی غایت کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جو لوگ انقلاب کے ٹھیکیدار بن بیٹھے ہیں اُنہیں کچھ اندازہ ہی نہیں کہ ٹائمنگ بھی کوئی چیز ہوا کرتی ہے۔ 
ایک زمانہ تھا کہ جب سلور اسکرین پر منور ظریف اور ننھا کے برجستہ جُملے جادو جگایا کرتے تھے۔ اُن کی ٹائمنگ کا کوئی جواب نہ تھا۔ دونوں کا اپنا اپنا مقام تھا۔ کسی بھی سچویشن کا جُملہ یہ دونوں فنکار ایسی عمدگی سے ادا کرتے تھے کہ لوگ عش عش کر اُٹھتے تھے۔ کمال یہ تھا کہ معمولی سے اور بظاہر بے جان جُملے کو بھی یہ عظیم فنکار اپنی شاندار اور قابل رشک ٹائمنگ سے جاندار اور یادگار بنادیا کرتے تھے۔ ہمارے سیاسی قائدین کے پیٹ میں اگر کبھی انقلاب برپا کرنے کا مروڑ اُٹھے تو لازم ہے کہ اِن دونوں فنکاروں کے چند وڈیو کلپس دیکھیں تاکہ ٹائمنگ کا شعور پیدا ہوسکے! 
اپوزیشن جماعتوں کے قائدین سے مل کر طاہرالقادری نے انقلاب کے نام پر جو کچھ برپا کرنے کی کوشش کی اُس کی ٹائمنگ کا ذرا بھی خیال نہ کیا۔ کہتے ہیں ایک بار دمشق میں ایسا قحط پڑا کہ یاروں کو صرف پیٹ یاد رہا، عشق بھی بھول گئے! جب شدید گرمی پڑ رہی ہو اور لوڈ شیڈنگ کا تازیانہ بھی سَر پر برس رہا ہو تو لوگ عشق کے ساتھ ساتھ انقلاب کو بھی بھول بھال جاتے ہیں! جہاں لوگ پینے کے صاف پانی کے حصول کی فکر میں ڈوبے ہوئے ہوں وہاں انقلاب کی بات کرنے والے کو شرم سے پانی پانی ہو جانا چاہیے۔ کیا ستم ہے کہ انقلاب جیسا سیاسی تھیٹر میں وکھری آئٹم پیش کرنے کی تیاری کی گئی اور ٹائمنگ کا فیکٹر نظر انداز کردیا گیا۔ اِس طرح کی حرکتیں ہی تو انقلاب کی شہرت کو داغدار کر رہی ہیں اور اُسے رُو پوش رہنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ 
ہمیں پریشانیوں اور پشیمانیوں کے ساتھ جینے کی عادت پڑ گئی ہے۔ بے حِسی نے سب کچھ چھین لیا ہے۔ زندگی کا سفر کسی نہ کسی طور جاری ہے مگر زندگی میں وہ بات نہیں۔ کسی زمانے میں قتل کی باز گشت کئی دن تک جاری رہتی تھی۔ لوگ برسوں مثالیں دیا کرتے تھے۔ اب حالت یہ ہے کہ کسی مقام پر قتل کے محض دس منٹ بعد بھی گزریے تو اندازہ نہیں ہو پاتا کہ یہاں قتل ہوا تھا۔ بے حِسی اور بے دِلی ہر طرف، ہر معاملے پر چھائی ہوئی ہے۔ 
یہی حال سیاست اور اہلِ سیاست کا بھی ہے۔ بیشتر معاملات میں سیاسی قائدین بے ذہنی اور بے دِلی کے حوالے سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر تُلے رہتے ہیں۔ خوابِ غفلت کا اثر ٹوٹتے ہی ہڑبڑاکر اُٹھتے ہیں اور حکومت کے خاتمے کی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے ایسی جَست بھرتے ہیں کہ چشم زدن میں انقلاب تک پہنچ کر دَم لیتے ہیں۔ کوئی لاکھ سمجھائے کہ بھائی صاحب! حکومت مخالف تحریک سے پہلے اور پھر اِس تحریک سے انقلاب تک کئی مراحل ہیں مگر اِن کے کانوں پر جُوں نہیں رینگتی۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ کارنر میٹنگ ٹائپ کے چند ''اجتماعات‘‘ منعقد کئے جاتے ہیں، میڈیا پر دو تین دن کچھ عجیب و غریب ٹِکر چلتے ہیں اور چوتھے دِن انکشاف ہوتا ہے کہ حکومت مخالف تحریک چلانے کی کوشش فرمائی گئی! لوگ حیران رہ جاتے ہیں کہ کیا اب حکومت مخالف تحریک چلانے کا یہ معیار رہ گیا ہے! 
اہلِ وطن نے رمضان المبارک کی آمد پر سُکون کا سانس لیا ہے کہ عبادات کے اِس موسم نے سیاسی تبدیلیوں کے نام پر دھما چوکڑی مچانے والوں کے تعزیے ٹھنڈے کردیئے ہیں اور اُنہیں اعتکاف کی سی حالت اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ رمضان کی سعادت مآب ساعتوں نے لوگوں کو اللہ کی طرف متوجہ کردیا ہے۔ 
قوم کی عادت ہے کہ رمضان کا ماہِ مبارک وارد ہوتا ہے تو سارے کام عید تک موقوف کردیئے جاتے ہیں۔ اب کوئی کتنے ہی اعلانات کرے اور کیسا ہی انقلاب برپا کرنے کا عزم ظاہر کرے، لوگ گھروں سے نکلنے والے نہیں۔ ایسے میں انقلاب برپا کرنے کے خبط میں مبتلا صاحبان کے لیے موقع ہے کہ کچھ دن ایک طرف بیٹھیں اور اپنی سَکت کا جائزہ لیں۔ جن میں معمولی سی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے کی طاقت نہیں وہ انقلاب برپا کرنے اور پورے نظام کو تہہ و بالا کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ اور کمال یہ ہے کہ اپنے کہے پر کبھی شرمندہ بھی نہیں ہوتے! ع 
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں