"MIK" (space) message & send to 7575

سانپ اور بِچّھو جیت گئے

میڈیا کے روز افزوں فروغ نے پاکستان کو خبروں میں رہنے کا ہُنر سِکھا دیا ہے۔ روزانہ کوئی نہ کوئی ایشو تلاش یا پیدا کرنا میڈیا کی بھی مجبوری ہے اور حکومت کی بھی۔ میڈیا کو چوبیس گھنٹے اپنا پیٹ بھرنا ہے اور حکومت کو عوام کی توجہ ہٹانی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ خبروں پر خبریں بنتی اور پھیلتی جاتی ہیں۔ 
ایک زمانے سے دہشت گردی نے ہمارے آنگن میں ڈیرا ڈال رکھا ہے۔ تخریب کاری، انتہا پسندی اور عدم استحکام ہماری امتیازی علامات کا درجہ اختیار کرچکی ہیں۔ مگر صدر شکر کہ اب ٹرینڈ تھوڑا بدل رہا ہے۔ اب تک تو پاکستانی اب حرکتوں سے مُلک کا نام ''روشن‘‘ کرنے پر مامور تھے۔ اب خیر سے پاکستان کے حشرات الارض میدان میں آگئے ہیں۔ 
کہتے ہیں سندھ کا حُسن تَھر کے بغیر نامکمل ہے۔ پانی کی شدید قِلّت کے باعث زندگی کو انتہائی دُشوار بنا دینے والا تَھر کا ماحول بہرحال اپنے اندر بہت تنوع رکھتا ہے۔ بے آب و گیاہ تَھر میں جب بارش ہوتی ہے تو زندگی کا چہرہ کِھل اُٹھتا ہے، ہر طرف زندہ رہنے کی اُمنگ لہلہانے لگتی ہے۔ 
جس طرح پُھول کے پہلو میں کانٹے ہوتے ہیں اور جس طرح قدم قدم پر ہر خوشی کے دامن میں کوئی نہ کوئی غم بھی چُھپا ہوتا ہے بالکل اُسی طرح بارش کی بدولت تَھر کی زمین صرف سبزہ نہیں اُگلتی بلکہ سانپ اور بِچّھو بھی اُگلتی ہے۔ زمین جب سیراب ہوتی ہے تو اُس کے آغوش میں چُھپی ہوئی زہریلی مخلوق باہر آ جاتی ہے۔ ہر سال جب تَھر میں سبزہ لہلہاتا ہے تو لوگوں کے دِل کِھل اُٹھتے ہیں کیونکہ برستا پانی زندگی کی نوید لاتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اُن کی پریشانیاں بھی بڑھ جاتی ہیں کیونکہ سانپ اور بِچّھو بھی سطحِِ زمین پر رینگتے پھرتے ہیں۔ اُن سے بچنا بڑا دردِ سر ہوتا ہے۔ سانپ کے ڈَسنے یا بِچّھو کے ڈنک مارنے سے بہت سی اموات واقع ہوتی ہیں۔ مگر اب کے کچھ عجیب بات ہوئی ہے۔ سانپ اور بِچّھو اہلِ تَھر کے لیے موت کی نہیں، بلکہ زندگی کی نوید بن کر نمودار ہوئے ہیں۔ 
محققین اور ماہرین کو اچانک یاد آیا ہے کہ تَھر میں پائے جانے والے بِچّھو اور سانپ کینسر اور ایڈز کی ادویہ تیار کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ 200 گرام تک کے وزن والے کالے بِچّھو کے زہر سے مغربی دُنیا میں مہلک امراض کی ادویہ تیار کی جاتی ہیں۔ یہ بِچّھو پچاس پچاس لاکھ کا فروخت ہو رہا ہے۔ تَھر میں پائے جانے والے انتہائی زہریلے سانپ بھی ادویہ بنانے والے اداروں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ اِن سانپوں کی بھی مُنہ مانگی قیمت دی جارہی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پاؤ کے کالے بچھے سے نکالا جانے والے ایک سرنج بھر زہر سے کینسر اور ایڈز کی ادویہ کی ہزاروں خوراکیں تیار کی جاسکتی ہیں۔ 
تَھر وہ مقام ہے جہاں اِنسان کی اب بظاہر کوئی قیمت نہیں رہی۔ سیکڑوں بَچّے بھوک، پیاس اور بیماری سے مَر جائیں تو کسی کی آنکھ سے آنسو نہیں بہتے۔ ہاں، سانپ اور بِچّھو کی قدر و قیمت بڑھی ہے تو لوگوں کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوگئی ہے۔ جن کی رگوں میں بے کسی اور بے بسی کا زہر بسا ہوا ہے وہ اپنے سارے دُکھ بھول کر سانپ اور بِِچّھو تلاش کرتے پھر رہے ہیں! کسی نے خوب کہا ہے ع 
روٹی تو کسی طور کما کھائے مُچھندر 
بس کچھ ایسی کیفیت اہلِ تَھر کی ہے۔ اُنہیں کام پر لگا دیا گیا ہے۔ جو جتنے سانپ اور بِِچّھو پکڑے گا وہ اُتنا ہی زیادہ صِلہ پائے گا۔ زہر بھری مخلوق کی قدر و قیمت اِس تیزی سے بڑھی ہے کہ یاروں نے اپنی رگوں میں اُترا ہوا خوراک اور پانی کی قِلّت کا زہر بھی بُھلادیا ہے۔ 
تَھر کی بدلی ہوئی صورتِ حال سے مرزا تنقید بیگ خاصے پریشان ہیں۔ کل ملاقات ہوئی تو کہنے لگے۔ ''ہمارے سیاسی قائدین تو تبدیلی کا راگ الاپتے الاپتے تھک گئے مگر کچھ نہ ہوا۔ اُن سے اچھی تو تَھر کی زمین ہے جس پر اور کچھ اُگا ہو یا نہ اُگا ہو، ایک بڑی تبدیلی تو اُگی ہے۔ جس زمین کو یکسر بنجر قرار دے کر بھلا دیا گیا ہے اُس کی کوکھ سے جنم لینے والے سانپ اور بِچّھو اُن انسانوں کو لاکھوں، کروڑوں کمانے کا موقع دے رہے ہیں جنہیں دو کوڑی کا نہیں سمجھا جاتا!‘‘ 
مرزا بھی کیا دور کی کوڑی لائے ہیں۔ خیر ع 
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی! 
ہم سوچنے لگے کہ اگر بِچّھو اور سانپ کے زہر سے کینسر اور ایڈز جیسے مُوذی امراض کی دوا تیار کی جاسکتی ہے تو کیوں نہ ہماری رگوں میں اُترے ہوئے زہر کو بھی بروئے کار لایا جائے! نفرت، تعصب، بے حِسی، سَفّاکی، بے رحمی، اشتعال، بے دِماغی، بے دِلی، بے بسی، بے کسی ... غرض کون سا زہر ہے جو ہم میں سرایت کرنے سے رہ گیا ہے! مُوذی امراض کی ادویہ تیار کرنے والے ادارے اگر زہر سے دوا تیار کرنے میں مہارت رکھتے ہیں تو تھوڑا بہت زہر ہماری رگوں سے بھی نچوڑ لیں۔ شاید کہ اِسی طور ہم دُنیا کے کام آسکیں! 
جب ہم نے مرزا کے سامنے یہ بات کہی تو وہ ہنستے ہنستے بے حال ہوگئے۔ ہم نے حیران ہوکر اِس گستاخ و بے لگام ہنسی کا سبب پوچھا تو مرزا نے جواب مرحمت فرمایا۔ ''ہماری تمہاری رگوں کا تو زہر بھی اب کِسی کام نہیں رہا۔ ہم سے تو جانور اچھے کہ اُن کا زہر اِنسانوں کو بچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہماری رگوں کا زہر صرف مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر کبھی کسی کو مارنے والی دوا کرنے کی ضرورت پڑی تو یقیناً ہمیں زحمت دی جائے گی۔‘‘ 
ہم نے عرض کیا کہ جانوروں کے زہر سے اگر جان بچانے والی دوا تیار کی جاسکتی ہے تو ہمارے وجود کے زہر سے ایسی دوا کیوں تیار نہیں کی جاسکتی؟ زہر تو زہر ہے، انسانوں میں یا حیوانوں میں۔ اور جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے، اِنسان کی رگوں کا زہر تو بے مثال و لاجواب ہے۔ اِس زہر کی تاب تو خود اِنسان بھی نہیں لا پاتے۔ 
مرزا نے ہماری معروضات کے جواب میں ہمیں ''خراجِ تحسین‘‘ پیش کرنے کے لیے بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ چند ایسے ''شاہکار‘‘ جملے ادا کئے جو ہم خوفِ فسادِ خلق سے یہاں بیان نہیں کرسکتے! پھر وضاحت فرمائی۔ ''زہر صرف وہ کام ہے جو قدرتی طور پر پایا جاتا ہو۔ اپنی محنت اور کوشش سے پیدا کئے جانے والے زہر میں کسی کی جان بچانے کی تاثیر بالکل نہیں ہوتی۔ ایسا زہر تو اپنے پیدا کرنے والے کو بھی کھا جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ اِس کی بہترین مثال ہے۔‘‘ 
ایک زمانہ گزرا، ہماری سرزمین اب معیاری اِنسان پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکی ہے۔ اچھا ہے کہ چند زہریلی مخلوقات کی بدولت ہم دنیا کے کسی کام آسکیں اور اِسی بہانے زمانے میں ملک کا کچھ نام روشن ہو جائے۔ جو لوگ پاکستانی سرزمین کو زہریلی تصور کرتے ہیں وہ اِس سرزمین کے سینے میں پلنے والی مخلوق کے زہر سے زندگی بخش ادویہ تیار ہوتی دیکھ کر یقیناً اپنا سا مُنہ لے کر رہ جائیں گے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں