پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنے کے شرکاء سے خطاب کے دوران تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بار بار مشورے دینے والے شیخ رشید غلط تو نہ کہتے تھے۔ عیدالفطر کے بعد سے، بلکہ رمضان کے دوران شیخ صاحب نے کہنا شروع کردیا تھا کہ عیدالاضحیٰ سے قبل قربانی ہوگی۔ اُن کا اشارا، سب کو پتہ ہے کس کی طرف تھا۔ اللہ نے شیخ صاحب کا بھرم رکھ لیا مگر ایک ذرا سی کسر رہنے دی۔ اگر ایسا نہ ہو تو اِنسان اپنے رب کو کیسے پہچانے؟ شیخ صاحب کی پیش گوئی کے مطابق قربانی کی صورت میں حکومت کو جان سے ہاتھ دھونا تھے۔ یعنی کسی کو جان سے جانا تھا۔ اِس اعتبار سے شیخ صاحب درست ثابت ہوئے۔ دو ماہ ہونے کو آئے ہیں۔ ملک زبردستی سیاسی تعطل کی حالت میں ہے۔ جیسے کوئی کَچّے آم کی پھانکیں مسالا لگاکر تیل میں ڈالے اور بُھول جائے!
ایک مُدت سے ''اسٹیٹس کو‘‘ کے تیل میں پڑے ہوئے سیاسی لاشے میں تھوڑی سی جان کیا آئی (یعنی ڈالی گئی) کہ بہت کچھ اُلٹ پلٹ گیا۔ سیاسی لاشے میں پُھونکی جانے والی رُوح کے ہاتھوں بہت کچھ ہے جو مرحلہ وار دم توڑتا گیا ہے۔ سب سے پہلے تو لاہور کے شہریوں کا سُکون قربان ہوا۔ عمران خان اور طاہرالقادری نے وہیں سے اسٹارٹ لیا اور خاصی دھما۔ چوکڑی کے بعد اسلام آباد کی راہ لی۔ جب دو سیاسی باراتیں جشن آزادی کے لمحات میں اسلام آباد پہنچیں تو اُن کا دھوم دھڑکّا دیکھ کر اسلام آباد کے شہری لڑکی والوں کی طرح سہم گئے۔ وفاقی دارالحکومت کے شہریوں کا سُکون غارت ہوا یعنی اُن کی پُرسکون زندگی کے
گلے پر احتجاجی شور شرابے کی چُھری پِھرگئی۔ شیخ صاحب کی پیش گوئی کے مطابق رُونما ہونے والا یہ پہلا جھٹکا تھا۔ اب وہ اپنے سَچّے ہونے کا حلفیہ اعلان کرسکتے ہیں۔ ذبیحہ نہ سہی، جَھٹکا سہی۔ سوال چُھری پِھرنے کا تھا، سو پِھرگئی۔ دو ماہ سے قوم خلجان میں مُبتلا ہے۔ سیاسی جمود توڑنے کے نام پر برپا کی جانے والی تحریک نے قوم کا خُون کسی حد تک گرمایا ضرور ہے مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ بہت کچھ ہاتھ سے جاتا رہا ہے۔ ابتدا میں حکومت کا بوریا بستر گول کرنے کا عزمِ مُصمّم ظاہر کیا گیا۔ خیر، حکومت نے بھی خود کُشی میں کوئی کسر تو نہیں چھوڑی۔ جن باتوں کی بُنیاد لوگ حکومت کے خلاف چلے اور ریڈ زون تک پہنچے وہ تمام باتیں جُوں کی تُوں ہیں۔ گویا ہوش کے ناخن لینے کی قسم کھالی گئی ہے۔ احتجاجی تحریک چلانے اور دھرنے دینے والوں نے حکومت اور جمہوریت دونوں ہی کا تیا پانچا کرنے کا عزم ظاہر کرنے میں بُخل سے کام نہیں لیا۔ ایک مرحلے پر ایسا لگتا تھا کہ حکومت کا سانس پُھول گیا ہے۔ چند لمحات کے لیے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ دُنبے کی طرح اب لِٹائی گئی کہ تب لِٹائی گئی۔ اور ذبیحہ یا جَھٹکا اب ہوا کہ تب ہوا۔ خیر گزری کہ ہر بار ''قصّابانِ محترم‘‘ ہی سے کوئی نہ کوئی کوتاہی سَرزد ہوئی اور ہاتھ آئی ہوئی منزل دور چلی گئی۔
جو حکومت اور سسٹم کا ذبیحہ دیکھنے کے آرزو مند تھے وہ تھوڑے سے مایوس ہوئے ہیں۔ اب ایسی بھی کیا مایوسی؟ ذبیحہ نہ سہی، جَھٹکا سہی۔ بہت کچھ ہے جو چُھری کے نیچے آیا ہے یعنی جان سے گیا ہے۔ غور سے دیکھیے تو ریڈ زون کے دَھرنائی استھان پر قوم کا بہت کچھ جَھٹکے کی نذر ہوا ہے۔ دو ماہ سے زیادہ مُدّت ہونے کو آئی ہے کہ قوم کے گلے پر مخمصے کی چُھری پِھرتی ہی جارہی ہے۔ ایک طرف دھرنے دینے والوں کی ضِد اور دوسری طرف حکومت کا ''زمیں جُنبد نہ جُنبد گل محمد‘‘ والی روش۔ سیاسی سطح پر بے چینی اور اُس کی کوکھ سے جنم لینے والی بے یقینی۔ اِن دونوں نے مل کر بہت سے معاملات کو اٹکا اور لٹکا رکھا ہے۔ عوام (اپنے مفادات سمیت) تذبذب کی کھونٹی پر ٹنگے ہوئے ہیں۔ قربانی کے جانوروں کی آمد سے بہت پہلے جن چُھریوں کی دھار تیز کرائی گئی اُن کے نیچے بہت کچھ آگیا ہے۔ ریڈ زون میں مچائی جانے والی دھما چوکڑی نے چینی صدر کے دورے کا بھی جَھٹکا کر ڈالا۔ یہ جَھٹکا ''اسکیجول‘‘ کا حصہ تھا یا نہیں یہ بعد کی بحث ہے۔ مگر ہو تو گیا۔ عوام کے لیے تو ہر سیاسی گھڑی آزمائش اور ابتلا کی ہے۔ نظام کو تلپٹ کرنے کے نام پر فرمائشی احتجاجی پروگرام ہو یا حکومت کی انا پسندی و بے حِسی، دونوں کی کوکھ سے عوام کے لیے تو مشکلات ہی جنم لے رہی ہیں۔ ذبیحہ ہو یا جَھٹکا، شامت عوام کی آتی ہے۔ چُھری کہیں بھی اور کسی پر بھی پِھرے، کھال عوام کی اُترتی ہے۔ اور حتمی تجزیے میں تو ایسی ویسی ہر بات کی چُھری عوام ہی کے مفادات پر پِھرتی ہے یا پِھرائی جاتی ہے۔
اب عمران خان نے یہ دعویٰ کیا ہے (یا پیش گوئی کی ہے) کہ اگلی عید سے قبل اُن کی حکومت ہوگی یعنی وزیر اعظم تحریک انصاف کا ہوگا۔ اللہ اُن کی زبان مبارک کرے۔ اگر تحریک انصاف کی تحریک واقعی انصاف کی تحریک ثابت ہوجائے تو قوم کو اور کیا چاہیے۔ مگر دل ڈر رہا ہے۔ خان صاحب نے بیسیوں مرتبہ کہا ہے کہ وزیر اعظم کے استعفے تک احتجاج ختم نہ ہوگا۔ تو کیا وہ اگلی عید سے قبل اپنی پارٹی کی حکومت کے قیام تک اسلام آباد کے ریڈ زون ہی میں براجمان رہیں گے؟ کسی خان کو یہ زیبا تو نہیں کہ زبان سے پِھر جائے! ذرا صراحت بھی فرمادی جائے کہ جب تک حکومت ''غیرت‘‘ کا مظاہرہ نہیں کرتی یعنی مستعفی نہیں ہوجاتی تب تک احتجاجی چُھرا کتنی بار نئی دھار کے ساتھ نکالا جاتا رہے گا اور مزید کیا کیا جَھٹکے کی منزل سے گزرے گا۔ مگر صراحت کرے کون؟ جنہیں سسٹم کا تیا پانچا کرنے کا شوق ہے وہ خود نہیں جانتے کہ اگلے مرحلے میں اُنہیں کیا کرنا ہے۔
آج قوم جانوروں کے گلے پر چُھری پھیر کر سُنّتِ ابراہیمی کے اِتّباع کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہماری چُھریاں جانوروں کے حلقوم تک کیوں محدود ہوگئی ہیں؟ جُھوٹی اَنا، کھوکھلے تفاخُر اور ہر حد سے بڑھی ہوئی مفاد پرستی نے ہمیں بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔ فریقین سیاسی محاذ کے ہوں یا کسی اور شعبے کے، سبھی اپنی اپنی جُھوٹی انا اور تنگ نظری کے حِصار میں ہیں۔ سسٹم لپیٹنے کی باتیں کرنے والے اور سسٹم بچانے کے لیے پورے جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں ڈٹے رہنے والے قوم کا کیا بھلا کر رہے ہیں؟ دونوں ہی اپنے مفادات کو بچانے کی تگ و دَو میں مصروف ہیں۔ طاہرالقادری کئی سال سے سسٹم، جمہوریت اور پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتے آئے ہیں اور اب انتخابات کے ذریعے پارلیمنٹ میں پہنچ کر تبدیلی لانے کی بات کر رہے ہیں! منحوس و مذموم پارلیمنٹ اب دُودھ کی دُھلی کیسے ہوگئی؟
قوم نے اچھا خاصا تماشا خاصی بے بسی سے دیکھا ہے۔ ستم یہ ہے کہ اب بے بسی سے بھی لطف کشید کرنے کا چَسکا سا قوم کو پڑگیا ہے۔ آج عہد کیا جائے کہ بے حِسی اور لاتعلقی کے گلے پر چُھری پھیر کر قومی مفادات کے ٹھیکیداروں کو پابند کریں گے کہ وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بعد قوم سے کِھلواڑ بند کریں۔ اب وقت آچکا ہے کہ عوام اپنے فکر و عمل کی چُھری تیز کریں اور ہر سطح پر جمود کا جَھٹکا کر گزریں۔ اِس چُھری کے پِھرنے ہی سے ہماری خرابیوں کا تیا پانچا ہوسکے گا۔ دیکھیں یہ چُھری کب پِھرتی ہے۔ یہ پِھرے گی تو دِن پِھریں گے۔