"MIK" (space) message & send to 7575

اسٹیک ہولڈرز ہُشیار باش!

جو نہ مانے اُس کی مرضی مگر سچ یہ ہے کہ سیاست کے جُھوٹ کا پیٹ کچھ چاک ہوا تو ہے، برف کچھ پگھلی تو ہے اور بات کچھ آگے بڑھی تو ہے۔ اپنی ناقص کارکردگی کے تعفّن کو گڈ گورننس کا چِھڑکاؤ کرکے غیر موثر بنانے کی کوشش کرنے والے اب چوکنّے ہوگئے ہیں۔ اُنہیں یہ احساس بھی ہوچلا ہے کہ محض باتیں بنانے سے بات نہ بن پائے گی۔ لوگ گڈ گورننس کو اب بیانات کے دائرے سے باہر یعنی عمل کی دُنیا میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ شیخیاں بگھار کر ایک خاص حد تک کام چلایا جاسکتا ہے۔ ووٹرز جمہوریت کی بقاء کے نام پر ایک ہی سوراخ سے کِتنی بار ڈسے جائیں گے؟ سیاسی شعور کے ریلے کی سطح بلند ہوتے ہوتے اب اسٹیک ہولڈرز کے حلق تک آپہنچی ہے۔ 
ڈاکٹر طاہرالقادری دھرنا ختم کرکے مغربی ممالک کے دورے پر جاچکے ہیں۔ اِدھر عمران خان اب تک دھرنے کے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں اور جواب میں حکومت بھی ڈٹے رہنے کے محاذ پر ڈٹی ہوئی ہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری سے اختلاف رکھنا ہر پاکستانی کا حق ہے مگر اُنہوں نے کسی نہ کسی شکل میں قومی سیاست کی جو خدمت کی ہے اُس کا اعتراف نہ کرنا دونوں سے ناانصافی ہی کہلائے گا۔ 
ماننا پڑے گا کہ کائنات میں کوئی بھی واقعہ عِلّت و معلول کے اُصول اور کُلیے سے مستثنیٰ و ماورا نہیں۔ جو کچھ محض ''شر‘‘ دکھائی دے رہا تھا اُس کے بطن سے تھوڑا بہت خیر بھی برآمد ہوا ہے۔ وسط مدتی انتخابات کا ہانکا لگایا جارہا ہے۔ ابھی کل تک یہ محض خواب تھا۔ اب بعض سیاسی مہربانوں کا جوشِ خطابت دیکھ کر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے کہ وسط مدتی انتخابات زیادہ دور کی بات نہیں۔ جمہوریت کی مایا نگری میں جادو جگانے والوں کو داد دیجیے کہ اُنہوں نے میڈیا کی مدد سے ایسا سحر پھونکا ہے کہ قبل از وقت انتخابات ایک نمایاں حقیقت بنتے جارہے ہیں۔ اگر یہ محض تاثر بھی ہے تو کیا غم ہے؟ جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں کے پہلو سے ایسا کچھ ہویدا ہوا ہے جو دِل و دِماغ کو معطّر کر رہا ہے۔ 
سِسٹم کو ختم کرنے کی باتیں اِس قدر جوش اور تواتر سے کی گئیں کہ بے چارے ''اسٹیک ہولڈرز‘‘ پریشان ہو اُٹھے۔ دھرنوں میں عوام کی بھرپور شرکت اور اب جلسوں میں خاصی پُرجوش حاضری نے موجودہ سِسٹم کے ہر کرتا دھرتا کو متوجہ ہونے اور سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ ہلچل شروع ہوگئی ہے، بھاگ دوڑ جاری ہے۔ سب اپنے اپنے ووٹ بینک کو بچانے میں لگ گئے ہیں۔ یہ کوشش وکھری ٹائپ کے ڈراموں کو جنم دے رہی ہے۔ جو ایک دوسرے کو بلیک میل کرنے سے آگے کچھ سوچتے ہی نہ تھے وہ شیر و شکر ہوئے جاتے ہیں۔ آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں۔ قوم حیران ہے کہ راتوں رات یہ کیا دھماچوکڑی مچ گئی ہے، ایسا کیا ہوگیا ہے کہ سبھی ہڑبونگ کی زد میں دکھائی دے رہے ہیں؟ عوام بے چارے کیا جانیں کہ ''اسٹیک‘‘ کیا ہوتا ہے اور اُس کا داؤ پر لگنا کیا قیامت ڈھاتا ہے! جن کی برسوں، بلکہ عشروں کی ''محنت‘‘ خاک میں مِلتی نظر آرہی ہو وہ اگر اُتاؤلے اور باؤلے ہوئے جارہے ہیں تو حیرت کی کیا بات ہے! 
وسط مدتی انتخابات کی گردان کرنے والوں کو اُن کے مخالفین تمسخر کا نشانہ بنارہے تھے مگر اب ایسا ماحول بنتا جارہا ہے کہ سبھی جلسوں کی چوکھٹ پر سَر جُھکا رہے ہیں۔ اسٹریٹ پاور وہ کارڈ ہے جسے سبھی کسی نہ کسی بہانے سے شو کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کھیل خوب فنڈنگ مانگتا ہے۔ مگر فنڈز کی کمی ہے کہاں؟ بھری ہوئی تجوریوں کے مُنہ کھول دیے گئے ہیں۔ انگریزی کی مشہور کہاوت ہے کہ فری لنچ نام کی کوئی چیز نہیں ہوا کرتی۔ سیدھی سی بات ہے کہ لوگوں کو دو ماہ سے زائد مدت تک دھرنے میں بٹھاکر بھی مفت لنچ تو نہیں کرایا گیا ع 
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے! 
مگر خیر، دھرنوں کی مَشق سے اِتنا تو ہوا کہ سیاسی میدان میں کھیل تماشے دکھاکر کام چلانے والے خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے۔ سب کو فکر لاحق ہوئی کہ کسی ناگہانی صورتِ حال کے لیے تیار رہا جائے۔ کون جانتا ہے کہ کب، کِس بِلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ جائے! 
موسم عجیب چل رہا ہے۔ گرمیوں کے دِن ختم ہوئے مگر گرمی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ موسم اور سیاست کی گرمی نے مل کر وہ گرما گرمی پیدا کی ہے کہ بہت سے ''اسٹیک ہولڈرز‘‘ آپس کی سرد مہری ختم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ حکومت مشکل میں ہے مگر اُس سے زیادہ مشکل میں تو وہ ہیں جو سِسٹم کو بچانے کے نام پر اب تک اُس کا ساتھ دیتے آئے ہیں۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ حکومت کا ساتھ دیتے رہیں، مخالفین سے جا مِلیں یا پھر کوئی کونا پکڑ کر محض تماشا دیکھیں۔ 
دھرنوں کے بعد جلسوں کی ریس شروع ہوئی اور اِس دوسری ریس میں حصہ لینے والے دراصل ووٹ بینک بچانے کے لیے دوڑ رہے ہیں۔ مزید نشستوں کا تو بعد میں سوچیں گے، اِس وقت تو فکر لاحق ہے کہ جو کچھ ہاتھ میں ہے اُسے کیسے بچایا جائے۔ ناکامی سے محفوظ رہنا بھی اُن کے نزدیک کامیابی سے کم نہیں۔ 
عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنوں اور جلسوں نے کراچی، لاہور، ملتان، فیصل آباد، میانوالی اور دیگر شہروں میں نئی نسل کو چارج کردیا ہے۔ اِس بدلتی ہوئی صورتِ حال نے اُن کی راتوں کی نیند اُڑادی ہے اور دِن کا چَین حرام کردیا ہے جو اب تک مُنہ کی کھاتے آئے ہیں یعنی ایوان میں پہنچنے کے بعد عوام کو صرف وعدوں اور دعووں سے بہلاتے رہے ہیں۔ جو اب تک سیاہ و سفید کے مالک رہے‘ وہ سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ کہیں اُن کے تمام سفید جُھوٹ کُھل کر سامنے نہ آجائیں اور ساری سیاہی پانی کی طرح اعمال پر نہ پِھر جائے۔ سبھی کو خدشہ لاحق ہے کہ 
ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لادوا 
ایسا نہ ہو کہ ''ہم بھی مداوا نہ کرسکیں!‘‘ 
اب وہ ایک بار پھر بھرپور تیاری کے ساتھ اپنے اپنے ووٹرز کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ زبان پر نئے وعدے ہیں۔ اور یہ دعویٰ بھی کہ ؎ 
شاید تمہیں بھی چَین نہ آئے مِرے بغیر 
شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کرسکو! 
دوسری طرف ووٹرز بپھرے ہوئے ہیں اور زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں ؎ 
''تم ہو‘‘ ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی 
''تم‘‘ نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی! 
عوام بھی کیا کریں؟ ایک ہی سیاسی سوراخ سے خود کو کِتنی بار ڈسوائیں؟ کب تک جھوٹے اور بے بنیاد وعدوں پر بھروسہ کرکے اپنے آپ کو دھوکا دیں اور اپنی ہی نظروں سے گِرتے رہیں؟ کب تک ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد روتے ہوئے گنگنایا کریں ع 
غضب کیا تِرے وعدے پہ اعتبار کیا
دھرنوں سے بہت کچھ بگڑ بھی گیا مگر ساتھ ہی ساتھ کچھ بنا بھی تو ہے۔ لوگ متحرک ہورہے ہیں اور اپنے سوالوں کے جواب چاہتے ہیں۔ کراچی میں بھی فضا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ تین عشروں سے مسائل کے حل کی راہ تکنے والے بیدار ہوکر آنکھیں مَل رہے ہیں۔ بیداری کی لہر نے اُنہیں بھی جمود کی دیواریں گِرانے کی تحریک دی ہے۔ وہ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کہیں اِس بار بھی ٹرین مِس نہ کردیں! 
عمران خان نے چند ایک غلطیاں بھی کی ہیں مگر یہ کیا کم ہے کہ وہ سیاسی شعور کسی حد تک جگانے میں کامیاب رہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے ڈھائی ماہ تک چیخ چیخ کر سمع خراشی ضرور کی‘ مگر شُکر ہے کہ اِس چیخ پُکار نے سوئے ہوئے ''اسٹیک ہولڈرز‘‘ کو بیدار ہوکر کچھ کرنے کی راہ بھی تو سجھائی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ بدلتے ہوئے حالات اور ووٹرز کے بدلتے ہوئے موڈ سے کچھ تحریک پائیں اور اپنے اپنے اسٹیکز بچانے کے لیے کچھ ڈلیور کرنے پر کمربستہ ہوں۔ عوام ٹرین مِس نہ کرنے کا سوچ رہے ہیں تو اُن کے ووٹوں کے بَل پر جیبیں اور تجوریاں بھرنے والوں کو بھی ٹرین مِس نہ کرنے کا سوچنا ہی چاہیے۔ عوامی حمایت کی ٹرین نکل گئی تو مشکل ہی سے ہاتھ آئے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں