اِس دنیا میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم کبھی چینی زبان میں غیر معمولی مہارت کے حامل ہوجائیں۔ الجبرا اور جیومیٹری سے ہمیں ہمیشہ بے رغبتی رہی ہے مگر ممکن ہے کبھی ہم اِن دونوں کو اپنالیں اور کچھ کر دکھائیں۔ ایکشن فلمیں ہمیں کبھی پسند نہیں رہیں مگر ناممکن نہیں کہ ہم یہ فلمیں بھرپور دلچسپی سے دیکھنا شروع کردیں۔ ہاں، ایک بات کا ہمیں پورا یقین ہے اور یوں سمجھ لیجیے کہ شکست تسلیم کرچکے ہیں۔ یہ کہ ہم کبھی ماہرین کو سمجھنے میں کامیاب نہ ہوسکیں گے!
چار پانچ عشروں کے دوران ماہرین خود رَو پودوں کے مانند عام ہوئے ہیں۔ اب معاملہ اِس نہج تک پہنچ چکا ہے کہ اُن کے نہ ہونے کا تصور محال ہے۔ ذہن پر کتنا ہی زور دے لیجیے، یاد نہیں آتا کہ 1950ء کے عشرے میں یا اُس سے قبل لوگ کس طور زندگی بسر کیا کرتے ہوں گے۔ اُنہیں کون بتاتا ہوگا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے، کیا کھانا ہے اور کیا نہیں کھانا ہے!
کون سا شعبہ ہے جسے ماہرین نے اپنی انٹ شنٹ آراء سے پامال نہیں کیا؟ اور کون سا معاملہ جس میں ماہرین نے اپنی طبیعت کی جَولانی اور روانی نہیں دکھائی یعنی لوگوں کا ناک میں دم نہیں کیا؟ ماہرین کا اب شاید یہی کام رہ گیا ہے کہ کسی نہ کسی طرح کوئی ایسی ویسی بات کیجیے تاکہ ذہنوں میں خدشات کی فصل اُگے اور لوگ پہلے سے زیادہ پریشان ہوجائیں! یہ ماہرین ہی تو ہیں جو دِلوں میں وسوسے ڈال کر ذہنوں میں خلفشار پیدا کرتے ہیں۔ اِس معیار کی رُو سے کامیاب ماہر وہ ہے جو لوگوں کو تشویش میں زیادہ سے زیادہ مبتلا کرے!
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے یعنی جب سے شعور کی حالت میں جینا شروع کیا ہے تب سے ماہرین کی بے شعوری بھگتی ہے۔ مختلف ادوار میں ہمیں ہر شعبے کے ماہرین نے بے حواس کیا ہے۔ اُن کی بے مثال ''ذہانت‘‘ نے کئی مواقع پر ہمارے حواسِ خمسہ کو ''حواسِ خفتہ‘‘ میں تبدیل کیا ہے! ہم کیا اور ہماری ہستی کیا۔ ماہرین کی نویدیں اور وعیدیں سُن کر تو اچھے اچھوں کے حواس لمبی چھٹّی پر چلے جاتے ہیں!
کچھ دن ہوئے، یہ خبر پڑھی کہ دودھ پینا بھی جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ خبر پڑھتے ہی ہم دِل اور سَر دونوں تھام کر بیٹھ گئے۔ دِل میں وسوسے اُبھرنے لگے کہ کہیں ہم دودھ کی لہر میں بہتے ہوئے موت کے دریا میں نہ جا گِریں! ہم ایک زمانے سے دودھ پیتے ہی نہیں آئے بلکہ اُس کی کوکھ سے جنم لینے والی بہت سی اشیاء کھاتے بھی آئے ہیں۔ جو دودھ ہم نے پیا ہے اور اُس سے بنی ہوئی جو اشیاء کھائی ہیں اگر اُن کی مقدار کا اندازہ لگائیں تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ہم موت کی منزل سے کب کے گزر چکے ہیں!
سویڈن کی اپسلا یونیورسٹی کے محققین کی ایک ٹیم نے پروفیسر کارل مائیکل سن کی سربراہی میں 20 سال تک دودھ کے ایسے ویسے اثرات پر تحقیق کی۔ 39 سے 74 سال کے 61 ہزار اور 45 سے 79 سال کے 45 ہزار افراد کی کھانے پینے کی عادات اور انفرادی صحت کے تمام اشاریوں کا عمیق جائزہ لینے کے بعد اِس ٹیم نے بتایا ہے کہ دودھ کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں یا خوش فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً یہ تصور بے بنیاد ہے کہ دودھ پینے سے ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں یا فریکچر کا خطرہ گھٹ جاتا ہے۔
دودھ سے متعلق یہ تحقیقی نتائج پڑھ کر ہم خوفزدہ ہوگئے تھے مگر پھر یہ سوچ کر دِل کو سُکون ملا کہ حکومت کی مہربانی سے دودھ اب اِس قدر مہنگا ہوچکا ہے کہ چند روز باقاعدگی سے پینے پر جیب کی موت واقع ہوجاتی ہے! وہ زمانے ہوا ہوئے جب بچوں کو صحت مند رکھنے کے لیے روزانہ سوتے وقت گلاس بھر دودھ پلایا جاتا تھا۔ اب اگر بچوں کے لیے روزانہ گلاس بھر دودھ کا اہتمام کیجیے تو گھر کے بجٹ کا گلاس خالی رہ جاتا ہے! ایسا نہیں ہے کہ دودھ پینے سے مضبوطی نصیب نہیں ہوتی۔ بچوں کو باقاعدگی سے دودھ پلانے کی صورت میں دودھ بیچنے والے کی تجوری کو تو مضبوطی ملتی ہی ہے!
پھر یہ خبر بھی پڑھی کہ گائے کا دودھ پینے سے جوانی میں موت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ ہم یہ خبر پڑھ کر بھی کچھ دیر سہمے سہمے رہے۔ پھر یہ سوچ کر بہت دیر تک ہنستے رہے کہ ہم میں اب کون سی جوانی رہ گئی ہے! گائے کا دودھ پینے سے جوانی میں مرنے کے امکان کا ہم سے کیا تعلق؟ ع
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو؟
کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ماہرین نے ہم جیسوں کو ہنسا ہنساکر مار ڈالنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ عجیب و غریب امکانات پر تحقیق کرتے ہیں اور اُس سے بھی عجیب ہوتے ہیں تحقیق کے نتائج۔
ایک مدت سے ہم ماہرین کے مشوروں اور اَٹکل پِچّو ٹائپ کی ''پیش گوئیوں‘‘ کے ہاتھوں دردِ سَر میں مبتلا رہے ہیں۔ جب وزن 90 کلو گرام کی منزل تک پہنچا تو ہمیں صحت کی فکر لاحق ہوئی۔ بچپن سے سُنتے آئے ہیں کہ باقاعدگی سے ورزش کرنے پر جسم متوازن رہتا ہے اور وزن بھی گھٹتا ہے۔ یقین تو نہ آتا تھا مگر عدنان سمیع کو اچھا خاصا وزن گھٹاکر دوبارہ صحت مند انسان بنتے دیکھا تو ہماری ''سینس آف ہیلتھ‘‘ بھی بیدار ہوئی اور ہم روزانہ ورزش کرنے کا ذہن بنانے لگے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ ورزش کرنے کا ارادہ کرنے کا بھی کچھ نہ کچھ تو اجر ضرور ملے گا کیونکہ اللہ نیت کا پھل بھی دیتا ہے!
مگر یہ کیا؟ ابھی ہم نے ورزش شروع بھی نہیں کی تھی کہ ماہرین نے جانے پہچانے طریق واردات کے مطابق یعنی تازہ ترین تحقیق کے ذریعے یہ وعید سُنائی کہ ڈھلتی ہوئی عمر میں ورزش کے شدید منفی نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں! وعید سُنانے والی خبر میں ماہرین کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ جیسے کسی نو گو ایریا میں جانے سے روک رہے ہوں یا بھتہ طلب کر رہے ہوں!
کالم لِکھ لِکھ کر ذہن بھلے ہی بوڑھا ہوگیا ہو، ہمارا دِل اب بھی جوان ہے۔ اللہ اہلِ پنجاب کو سلامت رکھے۔ اُنہوں نے بعض سدابہار قسم کے اُصول مرتب کرکے ہم جیسوں کا دِل رکھ لیا ہے! دِل کی تسلّی کے لیے اہلِ پنجاب کی یہی بات کافی ہے کہ دِل ہونا چاہیدا جوان، عمراں چ کی رکھیا اے! خیر، ورزش کے نتائج سے متعلق وسوسہ انگیز خبر پڑھ کر ہم نے ورزش کے ارادے اور وزن گھٹانے کے عزم کو ''بالائے طاق کے اُوپر‘‘ رکھ دیا!
ماہرین کے پیدا کردہ اور پھیلائے ہوئے وسوسوں نے ہمارا جینا دُوبھر کردیا ہے۔ کبھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ کافی پینے سے دِماغ میں تیزی آتی ہے، اُس کی کارکردگی کا گراف بلند ہوتا ہے، چستی اور پھرتی بڑھتی ہے۔ ایسی ہی کسی خبر سے متاثر ہوکر جب ہم کافی پینا شروع کرتے ہیں تاکہ آپ کو ہمارے کالم میں چستی اور پھرتی دکھائی دے تو کہیں سے یہ خبر نازل ہوتی ہے اور ہم پر بجلی بن کر گرتی ہے کہ باقاعدگی سے کافی پینے سے کئی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔ ایک تازہ ترین تحقیق کے مطابق روزانہ کیفین کی ہزار ملی گرام سے زائد مقدار لینے سے نیند اُڑ جاتی ہے، دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے، مزاج میں اشتعال بڑھ جاتا ہے، سانس لینے میں دِقّت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم نے خبر یہیں تک پڑھ کر اخبار رکھ دیا۔ کیا پتا آگے لکھا ہو کہ کافی زیادہ پینے سے کالم لِکھنے کی صلاحیت سَلب ہوجاتی ہے!
سچ تو یہ ہے کہ ماہرین نے ہمیں کھلونے میں تبدیل کرلیا ہے۔ جب چاہتے ہیں کھیلتے ہیں اور جب جی چاہتا ہے توڑ کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ پھر جب کھیلنے کا مُوڈ ہو تو جوڑ کر کھیلنے لگتے ہیں۔ اپنے جیسے دُکھی لوگوں کو ہم یہی مشورہ دیں گے کہ جب بھی جدید تحقیق پر مبنی ماہرانہ مشوروں والی کوئی خبر پڑھیں، اللہ سے پناہ ضرور مانگیں کہ وہ بے بنیاد وسوسوں سے محفوظ رکھے!