موسم سرد ہے مگر جذبوں کا موسم گرما ہے کہ جانے کا یا ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ آپ سوچیں گے جذبوں کی گرمی تو برقرار ہی رہنی چاہیے۔ ٹھیک ہے، مگر جذبے بھی درست ہوں۔ ملک سردی کے ساتھ ساتھ دھرنوں، جلسوں اور جنگوں کے موسم سے بھی گزر رہا ہے۔ ایک جنگ وہ ہے جو ہمارے جوان شمالی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں لڑ رہے ہیں۔ یہ ملک کی بقاء کی جنگ ہے۔ دوسری طرف وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں بھی ایک جنگ لڑی جارہی ہے۔ یہ جنگ بظاہر اقتدار کی بقاء کی ہے مگر اُس سے کہیں بڑھ کر جھوٹی انا کی ہے۔ اِس میں فریقین برابر کے ہیں۔ کوئی کسی سے کم نہیں، یا کم از کم اپنے آپ کو کم سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے مل کر جو محاذ کھولا تھا وہ اب دو لخت ہوچکا ہے۔ کوئی بھی اپنے مفادات یا ''اصولی سیاست‘‘ کے ''ماحصل‘‘ کو داؤ پر لگانے کے لیے تیار نہیں۔ ہر ایک کو یہ خطرہ ہے کہ کہیں فریقِ ثانی میلہ نہ لُوٹ لے۔ ڈاکٹر طاہر القادری تازہ دم ہوکر یورپ سے واپس آچکے ہیں۔ اُن کے یورپ جانے سے یہ تو ثابت ہو ہی گیا کہ وہ تھک گئے تھے اور کچھ دن محاذ سے دور رہ کر نئی حکمت عملی تیار کرنا چاہتے تھے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین اسپورٹس مین رہے ہیں مگر اب اُن کا سیاسی قد اِتنا بلند ہوچکا ہے کہ ہم اُن پر ''اسپورٹس مین اسپرٹ‘‘ کا ''الزام‘‘ عائد نہیں کرسکتے۔ اگر کسی نے ''اسپرٹ‘‘ کے ترجمے میں غلطی کردی تو خان صاحب خواہ مخواہ ناراض ہوجائیں گے۔ ہم ابھی اُن کی باتوں سے بہت کچھ پانا اور کشید کرنا چاہتے ہیں اِس لیے اُن کی ناراضی کسی قیمت پر مول نہیں لیں گے۔
یہ بات تو ماننا پڑے گی کہ عمران خان کا دم خم ماند پڑنے کا نام نہیں لے رہا۔ کھیلوں کی دنیا میں گزارے ہوئے زمانے کی بدولت اُن میں ایک اچھی عادت ضرور پیدا ہوئی، یہ کہ ورزش کا دامن اُنہوں نے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ یہ نکتہ بھی اُنہوں نے اچھی طرح ذہن نشین کر رکھا ہے کہ سیاست میں بھی اسٹیمنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اب یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ عمران خان جسمانی ورزش کے معاملے میں زیادہ پُختہ ہیں یا سیاسی مشق کے معاملے میں ۔
شیخ رشید کو اپنے خیر خواہوں اور معاونین میں شمار کرکے عمران خان نے ثابت کردیا کہ وہ مہم جُو طبیعت کے مالک ہیں اور رکاوٹیں عبور کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ شیخ صاحب کی شبانہ روز محنت اور باقاعدگی سے جاری رہنے والی مشاورت نے عمران خان کو بھرپور اور جامع احتجاجی سیاست دان میں تبدیل کردیا ہے۔ وہ خود بھی تو یہی ہیں۔ کپتان کے لیے شیخ رشید سَر بہ سَر نمک کی کان ثابت ہوئے ہیں۔ جو بھی نمک کی کان میں پہنچتا ہے، نمک ہو جاتا ہے۔ عمران خان بھی اِسی مرحلے سے گزر رہے ہیں۔
شیخ صاحب کے چند حالیہ بیانات اور بالخصوص تقریروں نے خاصا اُدھم مچایا ہے۔ دوسروں کے قائم کئے ہوئے اسٹیج پر شیخ صاحب نے مزے سے اپنے دِل کی بھڑاس نکالی ہے۔ اُن کی ہر تقریر ''ایسا موقع پھر کہاں ملے گا؟‘‘ ثابت ہوئی ہے۔ حکومت بجا طور پر برہم دکھائی دے رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شیخ صاحب کچھ زیادہ ہی بول گئے ہیں۔ مگر خیر، وہ کب زیادہ نہیں بول جاتے! بعض سادہ دل یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کو حکومت کے خلاف جذبات بھڑکانے کے معاملے میں اِس حد تک نہیں جانا چاہیے تھا۔ اب وہ اُس مقام سے گزر چکے ہیں کہ کچھ کہنے سے کچھ بگڑے۔ اُن کی سیاست میں اب رہا ہی کیا ہے جو بگڑے گا؟ اُن کا تو کچھ نہیں بگڑے گا، فکر عمران خان کو کرنی چاہیے۔ خان صاحب کا بہت کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے، بلکہ شاید لگ بھی چکا ہے۔ شیخ رشید جن جلسوں میں حکومت کے خلاف گل افشانیاں کر رہے ہیں وہ اُن کی پارٹی یعنی عوامی مسلم لیگ کے نہیں، تحریک انصاف کے ہیں۔ اگر تحریک انصاف کے جلسے میں عوام کو خرابی پر اُکسانے والی کوئی بات کی جائے گی تو جواب عمران خان سے مانگا جائے گا۔ اگر بات جواب طلبی تک پہنچی تو عمران خان کے چاہنے والوں کو بہت دُکھ ہوگا کہ ع
پکڑے جاتے ہیں ''وہ اوروں کے کہے‘‘ پر ناحق
اگر شیخ رشید کو جُملۂ معترضہ کی طرح ایک طرف کردیا جائے تو عمران خان کو اِس بات کی داد تو دینا ہی پڑے گی کہ اُنہوں نے اپنی بات پر قائم رہ کر دکھایا ہے۔ دھرنے کے موقف پر وہ اب تک قائم ہیں اور بظاہر پسپائی کے لیے تیار بھی نہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے پندرہ بیس دن کے لیے میدان چھوڑنا گوارا کرلیا مگر عمران خان فی الحال کریز چھوڑنے کے موڈ میں نہیں۔
30 نومبر کو کیا ہوگا، اللہ جانتا ہے۔ عمران خان نے فیصلہ کن جنگ کا اعلان کردیا ہے۔ بات عجیب سی ہے۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں شاید حکومت ایک سال اور نکال جائے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو فیصلہ کن جنگ کیوں؟ یہ واضح نہیں کہ 30 نومبر کو فیصلہ کن جنگ ہوگی یا جنگ کا آغاز ہوگا۔ لوگ یہ دیکھ کر بھی حیران ہیں کہ جنگ کا فیصلہ اور اعلان عمران خان نے کیا ہے مگر طبلِ جنگ بجانے، بلکہ بجاتے رہنے کا فریضہ کوئی اور سرانجام دے رہے ہیں۔
اب آئیے، اِس سوال کی طرف کہ فیصلہ کن جنگ سے آخر کیا مراد ہے۔ کیا حکومت یا جمہوریت کا بوریا بستر گول کرنے کی حتمی لڑائی شروع کی جانے والی ہے؟ کیا عمران خان کوئی خفیہ ہتھیار آزمانا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو کون سا؟ اور اِس سے بڑھ کر یہ سوال کہ اب اُن کے پاس کون سا خفیہ ہتھیار رہا ہے؟ قوم میں بیداری کی لہر تو اُنہوں نے دوڑا ہی دی ہے۔ اُن کے لیے اِس سے بڑا ہتھیار کون سا ہوسکتا ہے؟ حکمران اگر چاہتے تو تھوڑی سی گڈ گورننس کا اہتمام کرکے ''ڈیٹرنس‘‘ کھڑا کرسکتے تھے، مگر شاید وفاداروں نے یقین دلا دیا ہوگا کہ ایسا کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں!
عمران خان فیصلہ کن جنگ تو بہت پہلے شروع کرچکے ہیں۔ عوام کو حقوق کے لیے بیدار کرنے سے بڑی فیصلہ کن جنگ کون سی ہوسکتی ہے؟ اِس کے بعد تو کسی کا کوئی بھی ہتھیار کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے عوام کا شعور تو بیدار کردیا مگر خود اُن کا ذہن مکمل بیداری کی حالت میں نہیں۔ وہ یہ بات نہیں سمجھ پارہے کہ ان کے کچھ احباب پورس کے ہاتھی کا کردار ادا کرتے ہوئے تحریک انصاف کے ایڈوانٹیج کو ڈِس ایڈوانٹیج میں تبدیل کر رہے ہیں!
عمران خان اِس وقت کچھ ایسی ہی کیفیت میں ہیں کہ کسی کی کوئی بھی خیر خواہانہ بات، کوئی بھی صائب مشورہ سُننے کے لیے تیار نہیں۔ اِس کیفیت کو جون ایلیا نے یوں بیان کیا تھا ؎
میں بھی بہت عجیب ہوں اِتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں!
عمران خان کچھ اور سمجھنا نہیں چاہتے تو اُن کی مرضی مگر اِتنا ضرور سمجھیں کہ قوم کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے، ورغلانے اور اُکسانے کی نہیں۔ اندازے کی غلطی اِنسان کو پلک جھپکتے میں ہدف یا منزل سے بہت دور لے جاتی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھی اندازے کی کوئی بڑی غلطی کر بیٹھیں اور پھر اپنے ہی فیصلوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑنی پڑے! سیاست محض فیصلے کرنے کا نہیں بلکہ درست اور بروقت فیصلے کرنے کا فن ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ عمران خان پَتّے کھیلنے کے شوقین ہیں نہ شو بازی کے مگر اب اُنہیں اپنے پَتّے بہت سوچ سمجھ کر شو کرنا ہوں گے!