"MIK" (space) message & send to 7575

مداری کا دردِ سَر

بندر بھی تھکا تھکا سا لگ رہا تھا اور مداری بھی۔ لوگ حیران تھے کہ آخر ایسا کیا ہوگیا ہے کہ دونوں ہی تھک گئے ہیں۔ بندر تو بہت تھکنے پر بھی اُچھل کُود سے باز نہیں آتا۔ پھر ایسا کیا ہوا ہے کہ اُسے بھی اُچھل کود کے معاملے میں چُپ سی لگ گئی ہے! کسی نے مداری سے پوچھا: ''کیا بات ہے؟ تم دونوں ہی مُرجھائے ہوئے سے لگ رہے ہو۔ کیا کئی دن سے مسلسل تماشا دکھا رہے ہو؟‘‘ دیکھنے والوں نے اندازہ لگایا کہ تھکن جسم سے زیادہ اعصاب پر سوار تھی۔ ماتھے پر پریشانی کی لکیریں نمایاں تھیں۔ مداری بولا: ''بہت بہت شکریہ۔‘‘ سوال کرنے والے نے پوچھا: ''شکریہ کس بات کا؟‘‘ 
مداری تشکر سے سرشار لہجے میں بولا: ''اِس بات کا کہ کسی نے تو ہمارا حال پوچھا۔ ایسا لگتا ہے اب کسی کو بھی ہماری ضرورت نہیں رہی۔ کوئی ہماری طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ پتا نہیں اِس ملک کے لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ آپس میں حق تلفی کرتے کرتے اب حیوانات کے حقوق بھی بھول بیٹھے ہیں۔ میرا معصوم بندر زندہ دلی سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ یہ اُچھل اُچھل کر لوگوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہے اور لوگ ایک نظر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ارے پیار سے نہ سہی، غلط انداز نظروں ہی سے دیکھ لیا کریں۔ ایک پیار بھری نظر ڈالنے سے کسی کی جیب تو خالی نہیں ہوجائے گی۔‘‘ 
سوال کرنے والا حیران ہوگیا کہ آخر مداری کو ہوا کیا ہے۔ اُس کی زبان پر تو شِکوے ہی شِکوے ہیں۔ اُس نے ہمدردانہ لہجہ برقرار رکھتے ہوئے پوچھا: ''کیا لوگ تمہارے بندر کا تماشا دیکھنے میں دلچسپی نہیں لے رہے؟‘‘ 
مداری نے خاصے رُندھے ہوئے گلے سے جواب دیا: ''بھائی صاحب! اِس ملک میں ہر طرف اب اِتنے تماشے ہیں کہ ہمارا تماشا تو خود تماشا ہوکر رہ گیا ہے! کبھی کبھی تو اپنے آپ سے شرم آتی ہے کہ پوری زندگی کھپادی اور ڈھنگ کے دو چار تماشے بھی بندر کو نہ سِکھا سکا۔‘‘ 
مداری کی باتیں سُن کر دو چار لوگ اور جمع ہوگئے۔ اُس نے بات جاری رکھی: ''کچھ عرصہ پہلے تک میں سانپ اور نیولے کی لڑائی بھی دکھایا کرتا تھا۔ مگر پھر خدا جانے کس بد خواہ کی بد دعا لگی کہ جمہوریت اور سیاسی سرگرمیوں کے نام پر یاروں نے تماشا شروع کردیا ۔یہ تماشا ایسا شاندار تھا کہ لوگ دیکھتے نہیں تھکتے تھے اور داد دینا نہیں بھولتے تھے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ تماشا بالکل مفت تھا۔ لوگ گھر میں ٹی وی پر روز اپنی سہولت کے مطابق دیکھ لیا کرتے تھے۔ پھر تو یہ بھی ہونے لگا کہ جب میں سڑک پر سانپ اور نیولے کی لڑائی کا تماشا دکھاتا تو مجمع میں سے بہت سے لوگ طنزیہ جُملے کستے کہ اِس تماشے میں دم کہاں، تماشا تو ٹی وی پر ہوتا ہے! لوگوں کی طنزیہ باتیں سُنتے سُنتے جب میرے کان پک گئے اور دِماغ اُبل گیا تو میں نے سانپ اور نیولے سے جان چُھڑالی۔‘‘ 
مجمع میں سے کسی نے کہا: ''اگر لوگ توجہ نہیں دے رہے تو اپنے تماشے میں جان پیدا کرو۔ کچھ ایسا کر دکھاؤ کہ لوگ حیران رہ جائیں، دانتوں تلے انگلیاں داب لیں اور تمہارے گرد کھڑے رہنے پر مجبور ہوں؟‘‘ 
مداری بے چارگی سے پُر لہجے میں بولا: ''اب یہ سب کہاں سے لاؤں؟ اِس ملک کے لوگوں کو تو پتا نہیں کیا کیا چاہیے۔ اب یہاں لوگوں کا دل بہلانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ بڑے تماش بین لوگ ہیں۔ قدم قدم پر ایک نیا تماشا چاہتے ہیں، گام گام نئے کرتب دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور تماشے بھی وہ کہ اِس دنیا میں کہیں ڈھونڈے سے نہ ملیں۔ لوگ اب تدفین کو بھی ایونٹ کے طور پر سیلیبریٹ کرنا چاہتے ہیں۔ کہیں آگ لگے تو انجوائے کرنے کا ذہن بنا لیتے ہیں۔ اب کوئی کیا چاند پر جاکر نئے کھیل تماشے سیکھے اور واپس آکر توجہ پائے!‘‘ 
مجمع میں سے کسی نے کہا: ''تم اپنے بندر اور بکرے کو ٹی وی پر کچھ دکھاؤ۔ ہوسکتا ہے وہ کچھ سیکھیں۔‘‘ 
''یہ تجربہ بھی بیک فائر کرچکا ہے۔‘‘ مداری نے اُداسی اور بے چارگی سے کہا۔ 
''کیا مطلب؟‘‘ سوال کرنے والے نے حیرت سے دوسرا سوال داغا۔ 
مداری نے وضاحت کی: ''آپ جیسے چند بہی خواہوں کے مشورے سُن کر میں نے سوچا لوگ دن رات ٹی وی پر سیاسی تماشا دیکھتے ہیں تو میں بھی اپنے بندر اور بکرے کو کچھ دکھائوں، اِنہیں کچھ سکھائوں۔ شاید اِنہیں کچھ نیا کرنے کی تحریک ملے، تماش بینوں 
کے دل تک پہنچنے کا کوئی راستہ سُوجھے۔ مگر جب میرے پیارے اور معصوم جانور ٹی وی سیٹ کے پاس دو تین دن بیٹھے تو لینے کے دینے پڑگئے۔ سیاسی جلسوں کا ہَلّا گُلّا دل و دماغ کو ہلا دینے والا تھا۔ یہ دونوں پہلے تو یہ سب کچھ ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہے۔ کچھ دیر اِن پر سکتہ طاری ہوا، پھر یہ اُٹھے اور اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے لگے۔ دونوں کی زبان سے نعرے سے اُبلنے لگے۔ شعور اِن جانوروں میں کہاں مگر خیر ایسی بے شعوری کی حالت بھی نہ تھی! تھوڑی دیر اندھا دھند فائرنگ جیسی دھماچوکڑی مچانے کے بعد دونوں ہی بے جان سے ہوکر ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ میں ڈر گیا۔ میری تو روزی روٹی اِن کے دم سے چلتی ہے۔ کچھ دیر تو مجھ پر بھی سکتہ سا طاری رہا۔ پھر میں بندر اور بکرے کو جانوروں کے ایک نفسیاتی معالج کے پاس لے گیا اور کیفیت بیان کی۔ اُس نے چیک اپ کے بعد کہا: 'بھائی، کیوں اِن بے زبان معصوموں پر ظلم ڈھا رہے ہو۔ جو کچھ سیاسی جلسوں میں اور سیاسی احتجاج کے نام پر ہوتا ہے اُسے ہضم کرنے کے لیے لکڑ ہضم پتھر ہضم قسم کا دماغ اور اِس سے بھی کہیں بڑھ کر جِگرا چاہیے۔ اِن تماشوں کی تاب تو اب بہت سے انسان نہیں لا پاتے اور تم ہو کہ ننھی سی بے زبان جانوں کو آگ کے دریا میں ڈبکیاں دینے پر تُلے ہوئے ہو۔ آئندہ کبھی اِنہیں اِس قسم کی اوور ڈوز مت دینا۔‘ یقین جانیے کہ ڈاکٹر کی بات سُن کر میں بے حد شرمندہ ہوا۔ بے زبانوں پر ایسا ظلم ڈھانے پر مجھے اپنے آپ سے گِھن آنے لگی۔‘‘ 
مجمع میں سے کسی نے پوچھا: ''تو پھر کیا تمہارے جانور نارمل ہوئے یا اب تک 'سوال گم جواب گم‘ والی کیفیت ہے؟‘‘ 
مداری نے کہا: ''جانوروں کے اُس نفسیاتی معالج ہی کے مشورے پر میں اپنے بندر اور بکرے کو نیشنل جیو گرافک کی ڈاکومینٹریز دکھا رہا ہوں۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ یہ ڈاکومینٹریز دیکھ کر بندر اور بکرے کو اپنی اصلیت اور جبلّت یاد آجائے گی اور وہ دوبارہ نارمل زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔‘‘ 
''تو پھر کیا نتیجہ نکلا؟ دونوں نارمل زندگی کی طرف آئے یا نہیں؟‘‘ مجمع سے سوال آیا۔ 
مداری بولا: ''ابھی کہاں؟ ابھی تو ایک ہی ڈاکومینٹری دیکھی ہے اِنہوں نے۔ ڈاکٹر نے کہا تھا تین چار دن تک روزانہ ایک ایک پوری ڈاکومینٹری دکھانا تب کہیں جاکر یہ اپنی اصلیت بحال کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے!‘‘ 
''اگر اِن دونوں کو اپنی اصلیت یاد آجائے تو یہ بھی ایک کارنامہ ہوگا کیونکہ یہاں تو اب سبھی اپنی اصلیت بُھلا دینے پر تُلے ہوئے ہیں۔‘‘ مجمع میں سے کسی نے آواز لگائی۔ 
مداری کا دردِ سر آسانی سے ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ہو بھی کیسے؟ اب یہاں نِت نئے تماشے درکار ہیں۔ ہماری اجتماعی نفسیات یہ ہوگئی ہے کہ ہر معاملے سے، ہر چیز سے لَذّت کشید کیجیے۔ معاملہ غم کا ہو یا خوشی کا، ہمیں غرض نشاط سے ہے۔ بس اِتنا ہے کہ ایک گونہ بے خودی ہمیں دن رات چاہیے۔ ایسے میں بے چارے معصوم جانور ہمارا کیا دِل بہلا پائیں گے؟ وہ اِس عجیب و غریب معاشرے میں اپنی اصلیت ہی برقرار رکھ پائیں اور اپنے جبلّی راستے پر گامزن ہی رہ پائیں تو بڑی بات ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں