کسے معلوم تھا کہ زمانہ یوں بھی بدلے گا کہ جو کچھ حقیقی ہے اُس پر بھی یقین کرنے کو جی نہ چاہا کرے گا۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری پر کچھ ایسی گزری ہے کہ اب بہت کوشش کیجیے تب بھی یقین نہیں آتا کہ کسی زمانے میں پاکستان میں بھی باقاعدگی سے فلمیں بنا کرتی تھیں اور لوگ اُن کی پذیرائی بھی کرتے تھے۔ اِن فلموں کا عوام پر واضح اثر بھی مرتب ہوتا تھا۔ پاکستانی فلموں کے چند مکالمے بہت مشہور ہوئے۔ مثلاً محمد علی مرحوم کا ''انصاف اور قانون‘‘ کا جُملہ ''جج صاحب! مجھے میری جوانی لَوٹا دیجیے‘‘ ایسا مقبول ہوا تھا کہ بچے بچے کی زبان پر تھا۔ سلطان راہی، مصطفیٰ قریشی اور دوسرے بہت سے اداکاروں نے ایسے یادگار جُملے ادا کئے کہ اُنہیں اب اِن جُملوں کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔
کمال ایرانی مرحوم اچھے اداکار تھے مگر سخت گیر باپ کے کردار کے لیے مختص ہوکر رہ گئے تھے۔ کئی فلموں میں اُنہوں نے ایسے باپ کا کردار ادا کیا جو جہیز نہ ہونے پر اپنے بیٹے اور بارات کو واپس لے جاتا ہے۔ سچویشن کچھ یوں ہوتی تھی کہ لڑکی کا باپ اپنی پگڑی کمال ایرانی کے قدموں میں رکھتا ہے اور کمال ایرانی غُرور سے تنی ہوئی گردن کے ساتھ کہتے ہیں۔ ''بارات واپس جائے گی۔‘‘
اگر کمال ایرانی زندہ ہوتے تو کہتے۔ ''بارات کب آئے گی؟‘‘
کمال ایرانی کے عہد کے اور آج کے پاکستان میں کتنا فرق ہے۔ اُس زمانے میں بارات گھر سے لڑکی کے گھر تک تو پہنچ جاتی تھی مگر پھر اُس کا رُخ موڑ لیا جاتا تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ بارات کو گھر تک لانا دُوبھر ہوگیا ہے۔
ہم پورے ملک کی بات نہیں کر رہے۔ سوال صرف میرا کی شادی کا ہے۔ باراتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ نہیں آتی تو بس ایک میرا کی بارات نہیں آتی۔ قوم کو اور بہت سے ''کرم فرماؤں‘‘ کے ساتھ ساتھ میرا نے بھی وختا ڈالا ہوا ہے۔ زمانے بھر کی عِلّتوں سے چُھٹکارا پایا جاچکا ہے۔ کیسے کیسے عُقدوں کو وا کیا جاچکا ہے۔ حد یہ ہے کہ اب تو عمران خان بھی دوسری شادی کرچکے ہیں مگر ایک میرا ہیں کہ شادی کا ارمان لیے ''گلیاں گلیاں ڈھونڈ چکی میں، کہاں ہو بتادو ساجنا‘‘ گاتی پھر رہی ہیں۔ پاکستان میں ایک سے بڑھ کر ایک دانشور، بلکہ بزرجمہر پائے جاتے ہیں مگر کسی میں بھی میرا کا مسئلہ حل کرنے کا یارا نہیں!
میڈیا کی مہربانی ہے کہ ہر نان اِشو کو ہماری زندگی کے بنیادی مسئلے میں تبدیل کردیتا ہے۔ میرا کے معاملے میں بھی میڈیا نے اپنی عادت ترک نہیں کی۔ ملک کی بہت سی خواتینِ خانہ بھی اب میرا کی حالت دیکھ کر کُڑھتی نہیں تھکتیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ میرا کو اُن کے اِسی دیس میں پِیا کے دیس تک کیسے پہنچ جائیں، اُن کے خوابوں کا شہزادہ (یا شہزادے!) کہاں تلاش کریں! میرا کے سپنوں میں کسی راج کمار کی انٹری کب ہوئی یہ تو ہم نہیں جانتے مگر اِتنا معلوم ہے کہ اِس اِشو کی طرف افتخار عارفؔ نے بہت پہلے اشارا کردیا تھا ؎
دیارِ نُور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو ''تِری‘‘ وحشتوں کا ساتھی ہو!
ملک بھر میں ایسے میرج بیورو بکھرے پڑے ہیں جو ناممکن کو ممکن کر دکھانے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے مگر کسی بھی میرج بیورو میں اِتنی ہمت نہیں کہ میرا کے لیے ''ور‘‘ کھوج کر دکھائے۔ کسی کو انتہائی مشکل کام کے لیے ہمت دلانا ہو تو کہا جاتا ہے ؎
وہ کون سا عُقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا
ہمت کرے اِنسان تو کیا ہو نہیں سکتا!
ایسا لگتا ہے کہ میرا کے معاملے میں اِس شعر نے بھی ہتھیار ڈال دیئے ہیں!
ہمارے ایک دوست سِتاروں کی چال سمجھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہم نے کہا بھائی! ذرا ہماری ایک فلمی ''سِتاری‘‘ کے سِتاروں کی چال دیکھ کر بتاؤ کہ اُس کی شادی ہوگی یا نہیں اور اگر ہوگی تو کب تک ہوگی۔ جناب نے ہم سے نام پوچھا تو ہم نے میرا کا تذکرہ کیا۔ کاغذ پر سِتاروں اور سیّاروں کا نقشہ بناکر اُسے گھورتے رہے، پھر اُنگلیوں پر کچھ حساب لگایا اور آخر میں چکراکر گِرنے لگے۔ ہم نے خیریت دریافت کی تو بولے۔ ''بھائی! آئندہ ایسا مذاق مت کرنا۔ ہم تو بس ایسے ہی 'دِل پشوری‘ کے لیے ہلکی پھلکی پیش گوئیاں کردیا کرتے ہیں۔ ہم کہاں اور میرا کی شادی کی پیش گوئی کہاں؟ اب تو ہمارے اُستاد بھی نہیں رہے ورنہ ہم آپ کو اُن کے پاس بھیج دیتے۔ خیر، یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ ہمارے اُستاد اب اِس دنیا میں نہیں۔ اگر ہوتے اور میرا کی شادی سے متعلق کوئی پیش گوئی نہ کر پاتے تو بُڑھاپے میں بَھد اُڑتی۔‘‘
فٹ پاتھ پر فال نکالنے والے طوطو ں کو دیکھ کر ہم نے کئی بار اُن سے میرا کی شادی سے متعلق فال نکلوانے کا ارادہ کیا مگر پھر یہ سوچ کر ارادہ ترک کردیا کہ میرا کا تو کچھ بگڑنا نہیں، اِن معصوم پرندوں کو ناکامی اور شرمندگی کا دانہ چُگنے پر کیوں مجبور کریں!
کئی سال سے قوم کے بچے میرا سے انگریزی سیکھتے آئے ہیں۔ آپ اِس جُملے کو مذاق نہ سمجھیں۔ قوم کے بچوں نے میرا سے اچھی خاصی انگریزی سیکھی ہے، طریقہ البتہ ذرا مختلف رہا ہے۔ ایک صاحب اداکاری سیکھنا چاہتے تھے۔ اُنہوں کسی جاننے والے سے تذکرہ کیا تو وہ بولا۔ ''راج کرن اور انیل دَھون کی فلمیں دیکھا کرو۔‘‘ وہ صاحب بہت حیران ہوئے اور بولے۔ ''بالی وُڈ میں تو ایک سے بڑھ کر ایک اداکار پڑے ہیں۔ اُن کی فلمیں دیکھ کر میں اِن دونوں تھکے ہوئے اداکاروں سے کیا سیکھوں؟‘‘
جواب ملا۔ ''دلیپ کمار، امیتابھ بچن وغیرہ کی فلمیں دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ اداکاری کیا ہوتی ہے۔ راج کرن اور انیل دَھون جیسوں کو دیکھ کر آپ جان پائیں گے کہ اداکاری کیا نہیں ہوتی ہے! یعنی جو کچھ یہ دونوں کریں وہ آپ کو نہیں کرنا، یہی اداکاری ہے۔‘‘
کچھ ایسا ہی معاملہ میرا کی انگریزی کا بھی ہے۔ میرا جو کچھ انگریزی کے نام پر بولتی ہیں وہ نہ بولنا ہی انگریزی ہے! مگر صاحب، میرا نے شیر کا جگر، بلکہ جگرا پایا ہے۔ دُنیا چاہے کتنی ہی واٹ لگائے، اُنہوں نے انگریزی کی ٹانگ توڑنا چھوڑا ہے نہ خوابوں کا شہزادہ ڈھونڈنا!
ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ میرا رشتے کے لیے جس کی طرف لپکتی ہیں وہ جان چُھڑانے کے لیے شادی کر بیٹھتا ہے تاکہ کہہ سکے کہ دیکھو، میں تو پہلے ہی شادی شدہ ہوں! عمران خان کی مثال بہت واضح ہے۔ میرا نے اُنہیں شادی کی پیشکش کی تو اُن کی جان پر بن آئی۔ پہلے تو وہ سمجھے کہ مذاق فرمایا گیا ہے۔ پھر سوچا کہیں میرا اِس مذاق سے ایک قدم آگے جاکر سنجیدہ نہ ہوجائیں۔ کچھ ایسا ہی سوچ کر تحریک انصاف کے چیئرمین نے میرا کی پیشکش سے بھرپور ''انصاف‘‘ کیا اور ریحام کو جیون ساتھی بناکر پتلی گلی سے نکل لیے!
میرا کی شادی سے متعلق ''تازہ ترین اپ ڈیٹ‘‘ یہ ہے کہ شکر گڑھ بار کونسل کے سابق سیکرٹری چوہدری ریاض احمد گڈ نے میرا کو شادی کی پیشکش کرکے اپنا نام اُن لوگوں میں فہرست میں درج کرالیا ہے جنہیں ستارۂ جرأت دینے پر غور کیا جارہا ہے! میرا کے بیانات و نظریات و تصورات نے قوم کوجو وختہ ڈالا ہوا ہے اُس کی روشنی میں اُن سے شادی کا ارادہ ظاہر کرنا، بلکہ پیشکش کرنا جان کی بازی لگانے سے کم نہیں!
ہمیں اُمّید ہے کہ ریاض احمد گڈ سنجیدہ ہیں،مذاق فرمانے کی کوشش نہیں کی۔ میرا کی شکل میں ہیروئن تو ہمیں میسر ہے۔ اگر وہ ریاض احمد گڈ کی پیشکش پر تین بار ہاں کہہ دیں تو قوم کو ''ہیرو‘‘ بھی مل جائے گا!
کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اکیسویں صدی میں اِتنے سارے مسائل حل ہوچکے ہیں تو کچھ ایسا بھی ہوجائے کہ میرا کو قرار آ جائے۔ اور اب تو وہ خیر سے توبہ کی منزل سے بھی گزر گئی ہیں!
آج کل تمام مسائل کا حل ٹی وی پر کرنٹ افیئرز سے تعلق رکھنے والے اینکرز کے پاس ہے۔ کیوں نہ اِن اینکرز کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔ اچھا ہے، اُن کی صلاحیتوں کا امتحان بھی ہوجائے گا۔ اگر وہ انگریزی اور شادی سمیت میرا کے تمام ''کور اِشوز‘‘ سے نمٹنے میں کامیاب ہوگئے تو قوم سُکون کا سانس لے گی۔ اور اگر ناکام رہے تو شرمندہ ہوکر ایک طرف ہوجائیں گے اور اِس صورت میں قوم زیادہ سُکون کا سانس لے گی!