بہت سادہ الفاظ بھی استعمال کئے جائیں تو اِنسان کو ''مظہر العجائب‘‘ کے سِوا کچھ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اِنسانی مزاج کا چمن حیرت انگیز گل کھلانے سے باز نہیں آتا۔ کوئی اُصول بھی طے نہیں جس کی بنیاد پر کوئی پیش گوئی کی جاسکے، پُورے تیقّن سے کوئی تجزیہ کیا جاسکے۔ دُکھ دینے والی ہر بات کا رونا رویا جاتا ہے اور انتہائی دُکھ دینے والے معاملات کو بخوشی گلے لگایا جاتا ہے۔ اور پھر دُکھوں کا رونا رویا جاتا ہے، شِکوے شکایت کا راگ الاپا جاتا ہے۔
اب شادی ہی کا معاملہ لیجیے۔ ہزاروں سال سے اِنسان شادی کے بعد کی زندگی کا رونا روتا آیا ہے اور آج تک شادی کا طوق بھی گردن میں ڈالے ہوئے ہے۔کہتے ہیں شادی موتی چُور کا لَڈّو ہے۔ جو کھائے وہ پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔ غالبؔ نے اِسی کیفیت کو یُوں بیان کیا ہے ؎
محبت میں نہیں ہے، فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
شادی کے معاملے میں اِنسان کی بے تابی اور باقی تمام معاملات میں ''ابدی سُکون‘‘ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ع
تیر پر اُڑ کے بھی نِشانے لگے
ایک نوجوان شادی کے لیے بے تاب ہو رہا تھا۔ کئی جگہ رشتے لگانے کی کوشش کی مگر بات بن کر نہیں دے رہی تھی۔ وہ ایک نجومی بابا کے پاس پہنچا اور ہتھیلی اُن کے آگے دَھر دی۔ پوچھا کہ بابا میری شادی کب ہوگی۔
نجومی بابا نے اُس کی ہتھیلی کی لکیروں کو غور سے دیکھا اور کہا: ''تیری شادی نہیں ہوسکتی۔‘‘
نوجوان نے مایوسی اور حیرت کے مِلے جُلے لہجے میں پوچھا: کیوں نہیں ہوسکتی؟۔
نجومی بابا نے اُس کی ہتھیلی کی لکیروں کو گھورتے ہوئے جواب دیا: ''بے وقوف، کیسے ہوگی تیری شادی؟ تیرے نصیب میں تو سُکھ ہی سُکھ لِکھا ہے!‘‘
غور فرمائیے۔ لِکھنے والے نے سُکھ لِکھا ہے اور برخور دار اُسے دُکھ میں تبدیل کرنے پر تُلے ہوئے ہیں! اِسی ذہنی کیفیت کو تو کہتے ہیں، آ بیل، مجھے مار!
بہت سے لوگ اپنے سُکھ کا ذبیحہ کرنے پر کمربستہ رہتے ہیں‘ اور بعض تو جھٹکے پر بھی اُتر آتے ہیں! زمانے کی روش ایسی ہے کہ اب اُن سے چار دِن اپنا ہی سُکھ برداشت نہیں ہو پاتا۔ اِس معاملے میں نوجوانوں کی بے تابی قابلِ دید ہوا کرتی ہے۔ زندگی کی ٹرین جیسے ہی نوجوانی کے ٹریک پر آتی ہے، نوجوان اِس ٹرین کو کسی نہ کسی طور شادی کے اسٹیشن تک پہنچانے کے لیے اُتاؤلے، بلکہ باؤلے ہوئے جاتے ہیں۔ بہت سے نوجوان تو اِس معاملے میں ٹرین کو طیارہ بنانے پر بھی تُل جاتے ہیں! جذبات کی شِدّت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ ''زیرو ٹالرنس‘‘ کی پالیسی پر کاربند رہتے ہیں۔ بیشتر نوجوان ایسی حالت میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جیسے ہوجاتے ہیں۔ کوئی کچھ بھی سمجھائے، کرنا وہی ہے جو مَن میں آئے! لوگ سمجھا سمجھاکر تھک گئے مگر خان صاحب نے گھر نہ بسایا‘ اور جب دوبارہ گھر بسایا تو لوگ سوچتے رہ گئے کہ اِس مرحلے پر اِس مُہم جُوئی کی کیا ضرورت تھی!
شادی کے معاملے میں نوجوانوں کا معاملہ تو سمجھ میں آتا ہے۔ جوانی کا جوش و جذبہ ہوتا ہی کچھ ایسا ہے کہ عقل ماؤف سی ہوکر رہ جاتی ہے، حواس سِمٹ اور سُکڑ کر کونا پکڑ لیتے ہیں۔ جوانی کا جذبہ کسی بھی صائب مشورے کو کب خاطر میں لاتا ہے؟ یعنی نئی نسل کو رعایتی مارکس دیتے ہی بنے گی مگر پُختہ عمر میں شادی کا فیصلہ؟ یہ تو آنکھوں دیکھی مَکّھی نگلنے والی بات ہوئی! اور عُمر کی پُختگی بھی ایسی کہ جس کے بارے میں سب جانتے ہوں۔
20 سے 25 سال تک کی عمر میں شادی کے لیے عُجلت پسندی سمجھ میں نہ آنے والی بات نہیں‘ اچھی خاصی زندگی ترک کرکے نوجوانوں کو نئی زندگی شروع کرنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ گویا ؎
عاشقی صبر طلب ... اور تمنّا بے تاب
دِل کا کیا رنگ کروں خُونِ جگر ہونے تک
لڑکا اور لڑکی دنیا والوں کو یہ بتانے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں کہ دیکھو، ایسا نہیں ہے کہ کوئی ہمیں پسند کرنے والا یا پسند کرنے والی ہی نہ ہو! جلد از جلد (یعنی رات رات بھر کے موبائل پیکیج کی مدد سے!) جوڑا بناکر دُنیا والوں پر اپنی اہلیت بھی تو ثابت کرنا ہوتی ہے!
مگر بڑھاپے میں شادی کا فیصلہ؟ تب کِس پر کیا ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے؟ انتہائی ڈھلی ہوئی عمر میں کون سی عاشقی سلامت رہ جاتی ہے جو صبر طلب ہو؟ اور کون سی تمنّا بے تاب رہ پاتی ہے؟ مگر اِنسان عجیب واقع ہوا ہے۔ یہ کب کیا کر بیٹھے یا کیا کرنے کی ٹھان لے‘ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
برطانیہ کے انتہائی مُعمّر پریمی جوڑے نے شادی کا فیصلہ کرکے اپنے اپنے خاندان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ یہ خبر انٹرنیٹ پر وائرل ہوگئی ہے یعنی وبا کی طرح پھیلی ہے۔ سسیکس کاؤنٹی کے علاقے ایسٹ بورن کے جارج کِربی کی عمر 102 سال ہے اور وہ 13 جون 2015ء کو 91 سالہ ڈورین سے شادی کرنے والے ہیں۔ تب تک کِربی 103 سال کے ہوچکے ہوں گے۔ ڈورین 64 سال کی عمر میں بیوہ ہوئی تھی۔ تب سے اب تک وہ کِربی کے ساتھ رہتی آئی ہے۔ 27 سال ساتھ گزارنے کے بعد دونوں نے شادی کے بندھن میں بندھنے کا فیصلہ کیا ہے! ع
یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے!
اِس انتہائی مُعمّر پریمی جوڑے سے کون پوچھے کہ بھئی اب شادی کرنے کی کیوں سُوجھی‘ جو تھوڑی بہت زندگی رہ گئی ہے اُسے سُکون سے بسر کرنا کیا اچھا نہیں لگ رہا! ایسا بھی نہیں ہے کہ اِس جوڑے کی زندگی میں کچھ نہ ہو۔ دونوں کے اپنی اپنی پچھلی شادی سے مجموعی طور پر 7 بچے اور 22 پوتے پوتیاں، بلکہ پڑپوتے پڑپوتیاں بھی ہیں!
آپ بھی حیران ہوں گے کہ 102 سالہ کِربی اور 91 سالہ ڈورین اپنی اچھی خاصی پُرسکون زندگی کو داؤ پر لگانے پر کیوں تُلے ہوئے ہیں۔ بات یہ ہے کہ کِربی اور ڈورین سے کسی نے کہہ دیا ہے کہ اگر دونوں شادی کرلیں تو شادی کرنے والا مُعمّر ترین پریمی جوڑا بن جائیں گے! اور دونوں نے اِس بات کو دانتوں سے پکڑ لیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کسی طور ریکارڈ بن جائے!
کِربی اور ڈورین کی سمجھ میں اِتنی بات تو آنی چاہیے کہ مغرب میں ‘یعنی اُن کے اپنے ماحول میں 13 کا عدد منحوس سمجھا جاتا ہے! وہ 13 جون کو شادی کریں گے تو پریمی جوڑے کی حیثیت سے محروم ہوجائیں گے۔ جب ازدواجی زندگی شروع ہوگی تو کون سا ''پریم‘‘ باقی رہ جائے گا!
پتا نہیں کس کم بخت نے ایک اچھے خاصے پریمی جوڑے کے کانوں میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں نام درج کرانے کا منتر پُھونکا ہے کہ اب وہ اِس گئی گزری عمر میں بھی اپنا سُکون غارت کرنے کو بے تاب ہیں!
آج کے اِنسان کو شہرت کا بھی ہَوکا لگا ہوا ہے۔ وہ چاہتا ہے کسی نہ کسی طور کچھ نام چمک جائے، لوگ جان جائیں۔ لوگ کس حوالے سے جان پاتے ہیں اِس کی کچھ پروا نہیں۔ مطلوب و مقصد صرف شہرت ہے، خواہ کسی طور بھی ہاتھ آئے۔ اِس کم بخت گنیز بک نے پتا نہیں کتنوں کا سُکون غارت کیا ہے۔ لوگ ریکارڈ بنانے اور اِس کتاب میں نام درج کرانے کے لیے پتا نہیں کیا کیا اوٹ پٹانگ قسم کے کارنامے انجام دیتے رہتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ ہے کہ دراز ہی ہوتا جاتا ہے۔ قد آدم برگر اور آملیٹ بنانے تک تو معاملہ قابل قبول ہے مگر محض شہرت کی خاطر 102 سال کی عمر میں شادی کا فیصلہ؟ یعنی شہرت کی تمنّا نے آج کے اِنسان کی عقل سَلب کرلی ہے! اِتنی بڑی عمر میں دوبارہ گھر بسانے کا فیصلہ وہی کرسکتا ہے جس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نے دم توڑ دیا ہو۔ اچھا ہے۔ یُوں بھی شادی کے بعد سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا دم نکل ہی جانا ہے!