"MIK" (space) message & send to 7575

اُلّو اور گدھے

مثل مشہور ہے کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ بڑے کی ہر بات بڑی ہوتی ہے۔ یعنی جس کے پاس مال اور دم خم ہے وہ اگر غلط کو درست قرار دینے پر تُل جائے تو زیادہ تگ و دَو نہیں کرنی پڑتی۔ لوگ بھی ہر زبردست کی بات فوراً تسلیم کرلینے ہی میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ ہمارے ہاں جس چیز کو بے عقلی اور چریا پن کی علامت سمجھا جاتا ہے، مغرب میں اُسی چیز کو دانائی کی تابندہ علامت قرار دیا جاتا ہے۔ یعنی ہم جو کہہ رہے ہیں اس کی کوئی وقعت نہیں۔ ہاں، مغرب کی ترقی یافتہ دنیا کچھ کہے تو ٹھیک۔ ہم ایک زمانے سے اُلّو کو حماقت اور بے عقلی کی علامت قرار دیتے آئے ہیں مگر مغربی دنیا ہے کہ اُلّو کو دانائی کا مظہر قرار دے کر ہمیں دنیا والوں کی نظروں میں اُلّو ثابت کرنے پر تُلی ہوئی ہے! 
گدھوں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہم ایک زمانے سے اپنی بہت سی حماقتوں کے معاملے میں گدھوں کو قربانی کے بکروں میں تبدیل کرتے آئے ہیں۔ جب بھی کوئی شخص ہماری سمجھ میں نہیں آتا تو سوچنے کی زحمت گوارا کئے بغیر ہم دھڑلّے سے کہہ دیتے ہیں کہ وہ تو گدھا ہے۔ اس میں قصور بہت حد تک گدھوں ہی کا ہے۔ وہ جس طرح کی زندگی بسر کرتے ہیں اس کی روشنی میں تو کوئی بھی انہیں لتاڑے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ ہر طرح کی زیادتی سہہ لیتے ہیں، سَر جھکاکر کام کئے جاتے ہیں اور برائے نام بھی احتجاج نہیں کرتے۔ اب جو لوگ سوچے سمجھے بغیر محنت کئے جائیں اور جن کی زبان پر اُف تک نہ ہو انہیں لوگ گدھا نہیں تو اور کیا قرار دیں گے! مگر اس معاملے میں بھی امریکہ نے ہمارے لیے سُبکی کا سامان کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔ امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کا نشان گدھا ہے! ہمارے ہاں اگر کسی سیاسی جماعت کو نشان کے طور پر گدھا مل جائے تو سیاست میں اس کا نام و نشان ہی مٹ جائے! لوگ صرف گدھے کو دیکھ کر اس جماعت کو ووٹ دینے کا ارادہ ترک کردیں گے۔ ہم جسے حماقت کی علامت سمجھتے ہیں اس چوپائے کو عزت دے کر امریکی ہمیں نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔ ان کی اس حرکت پر کیا کہا جائے۔
اب جاپانی بھی اہل مغرب کی راہ پر گامزن ہوگئے ہیں۔ جاپانی شہر توشیما میں ایک ریسٹورنٹ کھولا گیا ہے جس کی مرکزی تھیم اُلّو ہے۔ اس ریسٹورنٹ میں گاہکوں کا استقبال اُلّو کرتے ہیں۔ اور کئی مقامات پر سِدھائے ہوئے اُلّو بٹھائے گئے ہیں جو گاہکوں کی دل بستگی کا سامان کرتے ہیں۔ ان کی چُہلوں سے گاہک اور ان کے بچے ماحول کو ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں۔ 
اُلّوؤں کی موجودگی اور ماحول کا ہلکا پھلکا پن! بہت خوب۔ یعنی اہل مغرب کی طرح اب جاپانی بھی یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اُلّوؤں سے متعلق ہمارا ''نظریہ‘‘ غلط ہے۔ ہاں بھائی، ترقی یافتہ ہیں۔ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ انہی کی بات کو تو درست سمجھا اور تسلیم کیا جائے گا! ہم کیا اور گدھوں یا اُلّوؤں سے متعلق ہمارا ''فلسفہ‘‘ کیا! ہم لاکھ سَر پھوڑ لیں، جو بڑوں نے کہہ دیا بس وہی درست ہے۔ 
جاپانیوں کو شاید معلوم نہیں کہ ہم اُلّوؤں کو اِتنی ''عزت‘‘ کیوں دیتے ہیں۔ کسی زمانے میں اُلّو کے لیے عام طور پر استعمال ہونے والا لفظ چُغد تھا۔ مگر یہ لفظ ''اُلّوئیت‘‘ کو کماحقہ بیان نہیں کر پاتا تھا! پھر کسی زمانے میں اُلّو کے لیے فارسی کا لفظ بُوم استعمال کیا جانے لگا۔ یہ لفظ کسی کے مزاج کا اُلّو پن بیان کرنے میں کسی حد تک مدد کرتا تھا۔ پھر جب میڈیا میں اُچھال آیا تو اُسے انگریزی میں boom کہا جانے لگا۔ اور اِس کے بعد شاہد آفریدی کو بھی لوگ بُوم بُوم کہنے لگے۔ ہمیں یقین ہے کہ لوگ شاہد آفریدی کو انگریزی والا بُوم کہتے ہیں۔
خیر، جب انگریزی والا بُوم مشہور ہوا تو فارسی والا بُوم پتلی گلی سے نکل گیا اور قوم براہِ راست اُلّو کی طرف آگئی۔ اب اگر کسی کی تکریم مقصود ہے تو لگی لپٹی رکھے بغیر اسے اُلّو کہہ دیجیے۔ اس ایک لفظ کے اندر مفاہیم کا ایک جہاں آباد ہے۔ اور ہاں، اگر کسی کو اُلّو کہنے کے بعد آپ یقین دلائیں کہ اہل مغرب کے فلسفۂ دانش کے مطابق اُلّو کہا ہے تو وہ یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگائے گا کہ آپ اُسے مزید اُلّو بنانے کی کوشش فرما رہے ہیں! یعنی کسی کو اُلّو کہہ دینا ہی کافی ہے۔ توضیحی کلمات معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف لے جاتے ہیں! 
بات ہو رہی تھی جاپانی ریسٹورنٹ کی جس میں اُلّو گاہکوں کا استقبال کرتے ہیں۔ پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں معاملات زیادہ تر برعکس ہی ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں اُلّو ریسٹورنٹ میں نہیں ہوتے بلکہ اُس میں آکر کھانا کھاتے ہیں! ریسٹورنٹ میں ملکی اور غیر ملکی، بلکہ کانٹی نینٹل ڈشوں کے نام پر جو کچھ کھلایا جارہا ہے اسے ہنسی خوشی قبول کرنے اور اِس سے بھی زیادہ ہنسی خوشی پے منٹ کرنے کے لیے انسان کا اُلّو ہونا لازم ہے! جب سے شیف کلچر متعارف ہوا ہے، پتا نہیں کیا کیا الا بلا کھلایا جارہا ہے اور لوگ بخوشی کھا رہے ہیں۔ بڑے ریسٹورنٹس اور ڈھابوں پر بیٹھ کر کھانے والوں کے سامنے نئی ڈش ''ہماری اسپیشلٹی‘‘ کے نام پر جو کچھ بھی ''پروس‘‘ دیا جائے وہ اُسے نہ صرف بخوشی ہضم کرتے ہیں بلکہ اِس بات پر فخر بھی کرتے ہیں کہ اُنہوں نے کوئی ''آف بیٹ‘‘ چیز کھائی ہے! 
ورائٹی دنیا بھر میں غیر معمولی حد تک پسند کی جاتی ہے مگر ورائٹی کے نام پر کوئی بھی انٹ شنٹ چیز برداشت نہیں کی جاتی۔ یہ ''وصف‘‘ اللہ نے صرف پاکستانی معاشرے کو بخشا ہے جہاں لوگ ورائٹی کے نام پر خود کو اُلّو ثابت کرنے کے لیے تیار، بلکہ بے تاب رہتے ہیں، بالخصوص کھانے پینے کے معاملے میں۔ بیشتر معاملات میں ہم نے طے کرلیا ہے کہ اُلّو بنتے رہیں گے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کی کوئی سمت نہیں، کوئی تھیم نہیں وہ اب اپنی رائے سے رجوع کریں۔ پاکستانی معاشرے کی بنیادی تھیم ہے اُلّو۔ 
کبھی کبھی ہمیں خیال آتا ہے کہ ہمارے ہاں لوگ بات بات پر ایک دوسرے کو اُلّو بناتے ہیں۔ معاشرے میں ہر طرف اُلّو پن ہی جلوہ فرما دکھائی دیتا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو اہل مغرب ہمیں داناؤں میں شمار کیوں نہیں کرتے جبکہ وہ اُلّو کو دانائی کی علامت گردانتے ہیں؟ 
بہت غور کرنے پر بھی جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو ہم نے مرزا تنقید بیگ سے ماہرانہ رائے طلب کی۔ اُلّو کے تذکرے پر بھی پہلے تو چونکے، پھر کچھ جھینپے اور اِس کے بعد خاصے نرم و شائستہ لہجے میں (یعنی اُلّو ثابت ہونے سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے!) کہنے لگے : ''یورپ اور امریکہ کی مرضی کہ جسے چاہے عقل مند سمجھے اور جسے چاہے بے وقوف قرار دے۔ ہم اُلّو کو بے وقوفی کی علامت سمجھتے ہیں اور اہل مغرب کے نزدیک وہ دانائی کی نشانی ہے۔ ہمارے ہاں قدم قدم پر اُلّو پائے جاتے ہیں۔ مگر ہمیں وہ دانائی کی علامت قرار دینے کو تیار نہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اہل مغرب اُلّو کو تو پسند کرتے ہیں، ہاں اُلّو پن انہیں ذرا بھی پسند نہیں! اور یہی حال گدھے کا ہے۔ امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کا نشان گدھا ہے۔ عزت وہ صرف ایسے گدھوں کو دیتے ہیں جو ان کی مرضی کے ہوں! وفاقی بجٹ سے ایک دن جاری کئے جانے والے سالانہ اقتصادی جائزے سے پتا چلا ہے کہ ملک میں گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے ہاں لوگ سوچنے لگے ہیں کہ اب شاید ہم امریکیوں کے لیے زیادہ قابل قبول ہوں گے کہ یہاں گدھوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ سچ یہ ہے کہ امریکی پالیسیوں کی ''بدولت‘‘ یہاں گدھوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے! اور پھر وہ ملک بھر کے گدھوں کو منہ کیوں لگانے لگے؟ یہ بات سوچنے کی ہے اگر کوئی سنجیدگی سے سوچے۔
خاصی مدت کے بعد ہم نے محسوس کیا کہ مرزا نے کوئی ایسی بات کہی ہے جو اُنہیں اُلّو ثابت کر رہی ہے نہ گدھا! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں