"MIK" (space) message & send to 7575

آئے موسم ہمیں آزمانے

مرزا تنقید بیگ چونکہ اب ریٹائرڈ زندگی بسر کر رہے ہیں اِس لیے ان کے پاس قوم پر ہنسنے کے وقت کی کمی نہیں۔ ہم نے جب بھی قوم کی کسی ''خصوصیت‘‘ کے بارے میں کچھ بتانے کی کوشش کی ہے، مرزا کی ہنسی چھوٹ گئی ہے۔ اور جب ہم مرزا کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنی قوم پر ہنستے رہتے ہیں اور دوسروں کی خوبیاں گنواتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں تو انہوں نے ہماری ایسی کلاس لی ہے کہ ہمیں خاموش رہتے یا اٹھ کر چلتے ہی بنی ہے! 
بات سیاست کی ہو یا موسم کی، مرزا ہر معاملے میں قوم کے خلاف جاتے رہتے ہیں۔ بہت سوں کو وہ اِسی وجہ سے بہت برے لگتے ہیں۔ بالخصوص بھابی صاحبہ کو۔ بھابی کا خیال ہے کہ مرزا کی سوچ قنوطیت میں اُسی طرح ڈوبی ہوئی ہے جس طرح جلیبیاں شیرے میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہیں! فرق صرف یہ ہے کہ مرزا کے خیالات کی جلیبیاں نمک کے شیرے میں ڈوبی ہوئی پائی گئی ہیں! وہ جب بھی بولتے ہیں، سننے والے کان سے حلق تک نمک ہی نمک بھر جاتا ہے۔ کڑوی باتیں کوئی کب تک برداشت کرسکتا ہے؟ ہمارا حوصلہ دیکھیے کہ ہم اُن سے باقاعدگی سے ملتے ہی نہیں رہتے بلکہ اُن کی کڑوی کسیلی باتیں برداشت بھی کرتے ہیں۔ بہت سے احباب کا خیال ہے کہ اس کا تعلق مستقل مزاجی اور وفاداری بشرطِ استواری سے کہیں زیادہ ''ڈھٹائی‘‘ سے ہے! کوئی کوئی تو یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ ع 
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج! 
سچی بات تو یہ ہے کہ مرزا کے بہت سے خیالات بظاہر ناقابل برداشت ہوتے ہوئے بھی ہمیں اس لیے قابل قبول لگتے ہیں کہ اُن میں صداقت اور حقیقت پسندی کا تناسب اچھا خاصا ہوتا ہے! مرزا کی باتوں سے مایوسی اور جھنجھلاہٹ ضرور جھلکتی ہے مگر کیا کیجیے کہ وہ حقیقت پسند ہیں اور جو کچھ ذہن میں ابھر رہا ہو اُسے زبان پر لانے سے کتراتے نہیں۔ یہی سبب ہے کہ بہت سے لوگ چند دن کی دوستی کے بعد اُن سے پنڈ چھڑالیتے ہیں مگر ہم کھمبے کی طرح کھڑے اور گڑے اُن کا ساتھ دیتے رہتے ہیں! 
کل مرزا سے اُن کے گھر پر ملاقات ہوئی تو سوچا کچھ پکوڑے وکوڑے چلیں گے، کچھ حلوہ وغیرہ کھانے کو ملے گا۔ مگر وہاں تو کچھ اور ہی نقشہ تھا۔ ملک بھر میں بارش اور اُس کے نتیجے میں سیلاب سے ہونے والی تباہی سے متعلق ٹی وی رپورٹس دیکھ کر مرزا گویا بھرے بیٹھے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی اُن کی باچھیں کِھل گئیں۔ ہم خوش گمانی میں مبتلا ہوگئے کہ وہ اچھے موڈ میں ہیں اور چند ہی لمحوں میں چھوٹی موٹی دعوت ہوجائے گی۔ ہمیں کیا پتا تھا کہ ہمیں دیکھ کر ان کی طبیعت اُسی طرح فرحاں و شاداں ہوگئی تھی جس طرح پرندوں کو دیکھ کر چڑی مار کی طبیعت ہشاش بشاش ہوجایا کرتی ہے۔ ہمیں دیکھ کر بھابی نے بھی سُکون کا سانس لیا۔ ظاہر ہے وہ بہت دیر سے طرح طرح کے تبصرے بھگت رہی ہوں گی۔ ہماری آمد بھابی کے لیے ویسی ہی تھی جیسی پانچ روزہ ٹیسٹ میچ میں آرام کے دن کی ہوتی ہے! 
خیر، مرزا کو ہم نے مبارک باد دی کہ اللہ نے مایوس اور گنہگار قوم کی سُن لی۔ ملک بھر پر ابر ہائے رحمت برس رہے ہیں اور زندگی کا سامان کر رہے ہیں۔ مرزا نے ہمیں یُوں گھور کر دیکھا جیسے ہم کسی اور ''گولے‘‘ سے آئے ہوں! ہماری بات ختم ہونے سے پہلے ہی اُنہوں نے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر تعینات بھارتی فوجیوں کی طرح بلا اشتعال فائرنگ شروع کردی۔ ''اللہ کی رحمت تو تب سمجھیے جب ہمیں رحمت کو برتنے کا سلیقہ ہو۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ اپنی بدعملی سے اچھی خاصی رحمت کو بھی زحمت میں تبدیل کرلیا گیا ہے۔‘‘ 
ہم نے لقمہ دیا کہ بارش کو ہم ترس رہے تھے۔ اللہ نے بارش دی ہے تو اللہ کا شکر ہی ادا کرنا چاہیے نا۔ مرزا نے ہاں میں سَر ہلاتے ہوئے کہا۔ ''بے شک۔ اللہ کی رحمت برسی ہے تو اُس کا شکر ادا کرنا ہی چاہیے۔ مگر یہ رحمت کوئی غیر متوقع تو ہے نہیں کہ حیران ہوں۔ ہم تو پریشانی کی منزل میں ہیں۔ اُدھر بادل برسے ہیں اور اِدھر الجھنیں برس گئی ہیں۔ قدم قدم پر مسائل نے پہلے کیچڑ کی شکل اختیار کی اور اب دلدل میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ جن لمحات کو لوگ اللہ کا کرم گردانتے ہوئے شکر بجا لاتے ہیں اور پُرامید ہوکر عمل کی طرف بڑھتے ہیں اُن لمحات نے ہمارے لیے عذاب کی شکل اختیار کرلی ہے۔ دنیا بھر میں بارش ہوتی ہے تو ڈیم بھرے جاتے ہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ اگلے بارانِ رحمت تک پانی کی کمی محسوس نہ ہو۔ یہاں حالت یہ ہے کہ بارش ہوتی ہے تو چار چھ ماہ کے لیے پانی کا ذخیرہ کرنے سے پہلے یہ سوچ کر ہلکان ہونا پڑتا ہے کہ اب اِس برسے ہوئے پانی سے نمٹیں کیسے! ہم بارش والے خطے میں رہتے ہیں۔ زرعی نظام بھی بارانی ہے یعنی بارش ہو تو فصلیں تیار ہوں گی ورنہ حالات کو رونا پڑے گا۔ پھر بھی کسی کو خیال نہیں آتا کہ ہر سال بارش سے پیدا ہونے والی پیچیدہ صورت حال سے نمٹنے سے کی کوئی صورت نکالی جائے۔‘‘ 
ہم نے دیکھا کہ بولتے بولتے مرزا کا سانس پُھول گیا ہے تو موقع غنیمت جانتے ہوئے ایک اور لقمہ دیا کہ پورے ملک میں گرمی کی شدید لہر کا زور ٹوٹ گیا ہے۔ بارانِ رحمت نے ماحول بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہر لب پر ع 
آئے موسم رنگیلے سُہانے 
اور ایسے ہی دوسرے بہت سے گیتوں کے مُکھڑے مچل رہے ہیں۔ ایسے میں صرف کیچڑ، دلدل اور سیلاب کی باتیں کرکے دل کو کیا جلائیے! مرزا نے ہماری بات غور سے سُنی۔ ہم اِس خوش فہمی میں مبتلا ہوئے کہ شاید وہ ہم سے متفق ہونے کی منزل میں ہیں۔ ہم کب جانتے تھے کہ وہ تو جوابی دلائل کا زہر تیار کر رہے تھے جو باتوں کے انجکشن سے انہوں نے ہمارے کانوں کی رگوں میں اتارنا شروع کیا۔ ''میاں! رنگیلے اور سُہانے موسم اُن کے لیے ہوتے ہیں جو موسم کا حق ادا کرنے کا سلیقہ بھی رکھتے ہوں اور سکت بھی۔ جو قومیں قدرتی وسائل کی قدر کرتی ہیں اُن کے لیے ہر موسم رنگیلا اور سُہانا ہوتا ہے! ہم جیسی قدر ناشناس اقوام کے لیے تو سُہانا موسم بھی سوہانِ روح ہو جاتا ہے۔ بارش اور سیلاب سے نمٹنے کی تیاریاں ادھوری رہ جانے پر چترال کا جو حال ہوا ہے اُسے دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ اِسے پُرفضاء خطہ سمجھیں یا پُرفنا! پشاور میں بھی تباہی ہوئی ہے۔ اور پنجاب میں تو خیر کئی مقامات پر سیلاب نے ہستی کا نظام تہس نہس کردیا ہے۔ بہت سے بے عقلے یہ کہتے بھی پائے گئے ہیں کہ ہر سال قدرت ہمیں آزماتی ہے۔ ہم کہاں اور آزمائش کہاں؟ آزمائش تو نصیب والوں کی ہوتی ہے۔ جن کا کردار بلند اور اعمال صالح ہوں اُنہیں اللہ آزماتا ہے۔ ہم جیسوں کے لیے ہر مصیبت اور پریشانی دراصل گناہوں اور برے اعمال کی سزا ہی ہوتی ہے۔ مصائب کو آزمائش سمجھ کر ہم اپنا دل بہلاتے ہیں، اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں! بارشیں آج بھی ان کے لیے البیلی ہوتی ہیں جو اُنہیں برتنے کا ہنر جانتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرنے کا ظرف رکھتے ہیں۔ ہم جیسے لوگ سال بھر بارش کا انتظار ضرور کرتے ہیں مگر اس کے استقبال کی تیاری برائے نام بھی نہیں کرتے۔ ہر طرح پر حکومت بارش اور سیلاب سے نمٹنے کے انتظام کی خاطر مختص رقوم چٹ کر جاتی ہے اور خمیازہ ہم سب کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اور ہمیں خمیازہ اس لیے بھگتنا پڑتا ہے کہ ہم انی خاموشی اور بے حِسی سے حکمرانوں کی بے عملی کو ممکن بناتے رہتے ہیں۔‘‘ 
ہم سوچتے ہی رہ گئے کہ سُہانے موسم میں مرزا یا بھابی سے پکوڑوں اور جلیبی وغیرہ کی فرمائش کریں یا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ بارش کا حق کس طور ادا کیا جائے! ایک بار پھر مرزا نے اپنی کڑوی باتوں سے ہمیں مات دے دی۔ مگر خیر، ہمارا موڈ ذرا بھی خراب نہ ہوا۔ کیوں ہوتا؟ سچی بات سُن کر انسان کو بے مزا ہوکر بھی بے مزا نہیں ہونا چاہیے۔ حقیقت پسندی اور اعلیٰ ظرفی کا یہی تقاضا ہے۔ کاش وہ زمانہ پلٹ آئے کہ جب بارش ہوتی تھی تو کیچڑ اور سیلاب کا غم لاحق نہ ہوتا تھا بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے باہر نکل کر رنگیلے اور سُہانے موسم سے محظوظ ہونے کا جی چاہتا تھا! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں