اکیسویں صدی میں بہت سے انوکھے واقعات ہوچکے ہیں۔ آج ان میں ایک واقعہ اور جُڑ گیا۔ آج ہم اپنی شادی کی اکیسویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے زندگی کا ایک بڑا حصہ گزر گیا اور کچھ اندازہ ہی نہیں ہوسکا کہ ہم زندگی کی پچھلی گلی میں کیا چھوڑ آئے ہیں۔
آج بہت کچھ یاد آرہا ہے۔ بہت سے لوگوں کو یاد بھی نہیں کہ جب موبائل فون نہیں تھے تب وہ اپنا وقت کس طور گزارا کرتے تھے۔ اِسی طور ہمیں بھی یاد نہیں آتا کہ جب شادی نہیں ہوئی تھی تب زندگی کیسی تھی۔ کبھی کبھی بہت کوشش کرنے پر ذرا سا یاد آتا ہے کہ ہم بے فکری کے زمانے سے بھی گزرے تھے۔
ہم نے ازدواجی زندگی کے بارے میں بہت سی ایسی ویسی، دل دہلا دینے والی باتیں سُن اور پڑھ رکھی تھیں۔ لوگ ڈراتے تھے کہ
بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا!
لوگ ڈراتے تھے کہ میاں! شادی کر تو رہے ہو مگر یاد رکھنا پھر کسی کام کے نہ رہوگئے۔ یہ بات بھی غلط ثابت ہوچکی ہے کہ انسان شادی کے بعد کسی کام کا نہیں رہتا۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ ازدواجی زندگی شروع کرنے کے بعد انسان (یعنی شوہر) صرف کام پر جانے کے قابل رہ جاتا ہے گویا شادی ہوئی تو سمجھ لیجیے بندہ گیا کام سے۔ یقیناً ایسا نہیں ہے اور ہم اس کی روشن مثال ہیں۔ دیکھ لیجیے، ہم آج بھی سوچنے کے قابل ہیں اور کالم لکھ رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جب کبھی ہم نے مرزا تنقید بیگ کے سامنے یہ بات کہی ہے تو ان کا جواب کچھ یوں آیا ہے: ''تمہاری کالم نگاری ہی تو اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ تم سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہو! اور ہمارا خیال ہے کہ تمہاری اس بے دماغی پر ازدواجی زندگی کو خواہ مخواہ بدنام کیا جارہا ہے!‘‘
جن کی شادیاں ہوچکی تھیں ان کا انجام دکھاکر بھی ہمیں ڈرانے کی کوشش کی گئی۔ مگر ہم نہ مانے۔ کیوں بھلا؟ یُوں کہ ہم نے سُن رکھا تھا کہ جو ڈر گیا وہ مرگیا۔ (یہ اور بات ہے کہ جو نہیں ڈرا وہ بھی مر ہی گیا!)
یاروں نے جب دیکھا کہ شادی شدہ لوگوں کے انجام سے بھی ہم خوفزدہ ہونے کو تیار نہیں تو انہوں نے ہمارے شادی کے فیصلے کو یہ کہتے ہوئے degrade کرنے کی کوشش کی کہ تم نے طے کر ہی لیا ہے کہ جو گناہ اب تک سرزد ہوئے ہیں ان کی سزا اِسی دنیا میں ملنی چاہیے! احباب کی کسی بات کا ہم پر کوئی اثر نہ ہوا تو اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ ہمیں صحافت کی دنیا میں قدم رکھے ہوئے تب تک دس برس ہوچکے تھے۔ کہتے ہیں کہ صحافیوں کے جسم پر گینڈے کی کھال ہوتی ہے یعنی اِدھر اُدھر کی باتوں کا ان پر کچھ خاص اثر نہیں ہوتا۔ ہمیں شادی کے فیصلے پر قائم دیکھ کر بہت سوں نے کہا کہ گینڈے کی کھال والی بات پر اب ہمیں یقین آچکا ہے!
آں جہانی کشور کمار کا وہ گیت تو آپ نے بھی سُنا ہوگا جس میں زندگی کو انگور کے دانے سے مماثل قرار دیا گیا ہے جو کھٹّا میٹھا ہوتا ہے۔ ازدواجی زندگی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ انگور کا دانہ کھٹاس اور مٹھاس میں متوازن ہوتا ہے جبکہ ازدواجی زندگی میں کبھی بالکل کھٹاس در آتی ہے یعنی دور دور تک کچھ بھی میٹھا دکھائی نہیں دیتا اور کبھی ایسی مٹھاس پائی جاتی ہے کہ انسان کھٹاس کو ترسنے لگتا ہے۔ گویا ہمیں شادی کے بعد معلوم ہوا کہ انتہا پسندی کیا ہوتی ہے! بنیاد پرستی ہم میں نہیں رہی۔ جب کوئی بنیاد ہی نہیں بچی تو پرستی اکیلی کیا کرتی؟
ویسے حسن جہانگیر نے بھی سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ اُس زمانے میں حسن جہانگیر کا گانا ''شادی نہ کرنا یارو، پچھتاؤگے ساری لائف‘‘ سپر ہٹ ہوا تھا۔ یہ گانا بھی ہم پر اثر انداز نہ ہوسکا کیونکہ ہم نے شادی نہ کرنے والوں کو زیادہ پچھتاتے دیکھا تھا! جو شادی شدہ افراد شادی کے بعد کی زندگی کو ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا
سمجھتے ہیں انہیں شاید اندازہ نہیں کہ جو لوگ گھر نہیں بساتے اُن کے حصے میں خواب یا افسانہ بھی نہیں آتا!
کہتے ہیں شادی کا لڈو جو کھائے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔ اطہرؔ نفیس مرحوم نے کہا تھا ؎
اطہرؔ! تم نے بھی عشق کیا، کچھ تم ہی کیا حال ہوا
کوئی نیا احساس ملا؟ یا سب جیسا احوال ہوا؟
ہماری شادی ہوچکی تو احباب نے ہم سے بھی اِسی نوعیت کے سوالات کئے۔ ہم چپ رہے، ہم ہنس دیئے۔ سبب؟ سیدھی سی بات ہے۔ ہمیں اندازہ تھا کہ یہ استفسار سراسر چھیڑ خانی ہے، زخموں پر نمک چھڑکنے کی مد میں ہے!
مرزا تنقید بیگ کو ہماری خوش و خرم گھریلو زندگی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ جب بھی وہ اپنے گھریلو دکھڑوں سے مزیّن راگ الاپتے ہیں، ہم جھٹ اپنی ہنستی مسکراتی زندگی کا تذکرہ کرکے انہیں نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس پر انہوں نے ہمیں نیچا دکھانے کی کوشش میں اکثر تان اس بات پر توڑی ہے کہ ہم ایک کامیاب اداکار ہیں! ان کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ ہم اکیس سال سے محض اداکاری کر رہے ہیں یعنی خوش و خرم دکھائی دے کر دنیا (یعنی رشتہ داروں اور احباب) کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ ہم نے جواب میں اکثر یہی کہا ہے کہ اگر ہم اتنی طویل مدت تک خوش و خرم دکھائی دینے کی اتنی کامیاب اداکاری کرسکتے ہیں تو پھر ہمیں اس کامیاب اداکاری ہی پر مبارک باد دی جانی چاہیے۔
تمسخر برطرف، حقیقت یہ ہے کہ ہم نے شادی سے پہلے بھی بھرپور زندگی بسر کی تھی اور اب بھی بھرپور زندگی ہی بسر کر رہے ہیں۔ ہماری گاڑی کے لیے سعیدہ بانو (اہلیہ) اور صباحت عرف ثوبیہ (بیٹی) نے پہیوں کا کردار عمدگی سے ادا کیا ہے۔ ان دونوں کے دم سے گھر کی ساری رونق اور وہ سکون ہے جس کا نتیجہ آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں یعنی ہم محض نوکری کرنے ہی کے نہیں بلکہ کالم نگاری کے قابل بھی ہیں اور لکھتے ہی چلے جارہے ہیں۔
ایک اچھی ازدواجی زندگی کیا ہوتی ہے؟ یہی کہ کوئی بھی بلا ضرورت جھگڑا فساد نہ ہو اور سب کچھ ہنسی خوشی چلتا رہے۔ ہماری زندگی کم و بیش ایسی ہی ہے۔ مرزا تنقید بیگ جیسے دل جلے خواہ کچھ کہتے رہیں مگر ذرا توجہ نہیں دیتے۔ جو تھوڑا بہت میسر ہے اس پر راضی بہ رضا رہنا چاہیے۔ یہی خوش و خرم گھریلو زندگی کا راز ہے۔
شادی کے بعد زندگی بہت حد تک بدل گئی۔ اور اب اکیس سال گزرنے پر تو گویا ایک نئی زندگی بسر ہو رہی ہے مگر خیر، سودا برا نہیں۔ خسارہ خال خال ہے اور منافع کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ ہم نے گھر والوں کی فرمائشوں اور ضرورتوں کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی مرضی کا ماحول بھی تراش رکھا ہے۔ عمر کی نصف صدی بھی گزر چکی ہو اور گھریلو زندگی شروع کئے بھی زمانے بیت چکے ہوں تو بنیادی وسائل کی فراوانی کے جلو میں، کسی بھی الجھی ہوئی بیماری کے بغیر یعنی تقریباً مکمل اور کسی حد تک قابل رشک صحت کے ساتھ جینا رب العالمین کا عظیم احسان نہیں تو اور کیا ہے؟ اب اس سے بڑھ کر کس کامیابی کی خواہش کیجیے؟
جس طور اہل خانہ کو محض دو انگلیوں پر شمار کیا جاسکتا ہے بالکل اسی طرح ہمارے احباب بھی بہت آسانی سے دس انگلیوں پر گِنے جاسکتے ہیں! اللہ کے کرم کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ احباب خواہ چند ہوں مگر محبت کرنے والے اور حسد نہ کرنے والے ہوں۔ صد شکر کہ اس معاملے میں بھی ملول یا مایوس ہونے کا ہمارے پاس کوئی جواز نہیں!
قصہ مختصر، اس کالم کے لکھنے کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ شادی کا لڈو کھانے سے گریزاں لوگوں کی ہمت بڑھائی جائے۔ ایسے تمام لوگوں کو ہم اپنے تجربے کی بنیاد پر یقین دلاتے ہیں کہ یہ لڈو بے فکر ہوکر، پورے ذوق و شوق اور جوش و خروش سے کھالیں، کوئی پچھتاوا نہیں ہوگا۔ (اگر پچھتاوا ہو تو اللہ انہیں قوتِ برداشت عطا فرمائے کیونکہ ہم نے بھی اس میدان میں اپنی ذمہ داری پر قدم رکھا تھا!)