"MIK" (space) message & send to 7575

’’تھیم‘‘ کا کمال

ہمارے معاشرے میں ایک عام ٹرینڈ رہا ہے کہ جس کے گھر میں شادی ہوتی ہے وہ پورے محلے بلکہ علاقے کا ناک میں دم کیے رہتا ہے۔ بعض گھرانے تو شادی کے وقت میلۂ مویشیاں و اسپاں کا منظر پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے! شادی کی رسموں کے نام پر روزانہ ایک دنگل ہوتا ہے جسے دیکھنے کا کوئی ٹکٹ نہیں ہوتا! ع 
پیو کہ مفت لگا دی ہے خونِ دل کی کشید 
شہنائی کسی ایک گھر میں بجتی ہے اور بینڈ پورے علاقے کا بج جاتا ہے! بس کچھ ایسی ہی کیفیت ترقی یافتہ معاشروں نے بھی پیدا کر رکھی ہے۔ وہ ترقی کیا کرگئے ہیں ہماری جان کو ہٹلر ہوگئے ہیں۔ خود بھی چین سے نہیں بیٹھتے اور ہمیں بھی سکون کا سانس نہیں لیتے۔ کسی نے ایسی کیفیت یوں بیان کی ہے ؎ 
چین سے سو رہا تھا میں اوڑھے کفن مزار میں 
یاں بھی ستانے آ گئے کس نے پتا بتا دیا! 
بیشتر مغربی معاشرے نئے ٹرینڈز متعارف کراکے ہمارے لیے الجھن کا سامان کرتے رہتے ہیں۔ وہ پورے معاملے کو جھیل جاتے ہیں، ہم کہاں جائیں؟ یہاں تو یاروں نے ہر نئی بات کو سوچے سمجھے بغیر اپنانے کا ٹرینڈ اپنا رکھا ہے اور یوں قدم قدم پر ایک نیا میلہ سجتا ہے۔ جو کچھ بھی مارکیٹ میں آتا ہے اُسے گلے لگاکر جی کا روگ بنانا معمولات کا حصہ بن چکا ہے۔ 
ترقی یافتہ معاشروں میں ایسا بہت کچھ ہے جو ان کے اپنے حالات اور ماحول کے مطابق ہے۔ ہم اگر ترقی یافتہ دنیا کی ہر ریت اپنائیں گے تو ریت کا ڈھیر ہوجائیں گے۔ مگر یہ بات یہاں کون سمجھتا ہے۔ جو کچھ وہاں بنتا ہے وہ یہاں ضرور آزمایا جاتا ہے اور اس بہانے ایک نئی آزمائش سے گزرا جاتا ہے! معاملہ یہ ہے کہ آزمائش صرف متعلقہ فرد تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کی زد میں قرب و جوار کے سبھی افراد آتے ہیں! 
اب تھیم پارک ہی کو لیجیے۔ ترقی یافتہ دنیا میں ایسے پارک عام ہیں جو خاص تصور کے تحت بنائے جاتے ہیں۔ مثلاً ڈائنوسار پارک جس میں ہر طرف ڈائنوسار کے ماڈل دکھائی دیتے ہیں تاکہ بچے ان میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لیں اور کروڑوں سال قبل معدوم ہوجانے والے جانوروں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی خواہش محسوس کریں۔ 
ہمارے ہاں تھیم پارک الگ سے بنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ معاشرہ مجموعی طور پر تھیم پارک ہی کا منظر پیش کر رہا ہے! کبھی کبھی تو عجائب گھر بھی، جو دراصل تھیم پارکس کی ابتدائی شکل ہیں، غیر ضروری سے لگتے ہیں۔ عجائب گھر بنیادی طور پر ان چیزوں کے لیے بنائے جاتے تھے جو معاشرے میں عام نہ ہوں اور لوگ دیکھ کر حیران رہ جائیں۔ بعد میں عجائب گھر گزرے ہوئے زمانوں کی چیزوں کے لیے مختص ہوکر رہ گئے۔ اب ہمارا معاملہ یہ ہے کہ جو کچھ عجائب گھروں میں رکھا ہے ویسا ہی بہت کچھ معاشرے میں بھی پایا جاتا ہے! ایسے میں عجائب گھر برقرار رکھنے کی کیا ضرورت باقی رہتی ہے؟ 
بات ہو رہی تھی تھیم پارکس کی۔ جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ایک ریستوران کھولا گیا ہے جس میں ویٹریس کے طور پر وہی لڑکیاں رکھی جاتی ہیں جو انتہائی وزن دار ہوں! ریستوران کے مالک کا کہنا ہے کہ معاشرے میں یہ تصور عام ہے کہ موٹی لڑکیاں خوش شکل نہیں ہوتی اور دبلی پتلی لڑکیاں پرکشش ہوتی ہیں۔ اس ریستوران میں اوور ویٹ لڑکیوں کو جاب دے کر یہ تاثر یا تصور زائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ غیر معمولی جسامت اور وزن والی لڑکیاں عام طور پر زیادہ خوش مزاج ہوتی ہیں۔ ریستوران میں آنے والے ان کی خوش مزاجی کی بدولت اچھا تاثر لے کر جاتے ہیں۔ 
ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ ویٹریس کی جاب اوور ویٹ لڑکیوں کو دینے سے عوام کی سوچ پر کس طور اثر انداز ہوا جاسکتا ہے۔ یہ تجربہ ہمارے ہاں بہت پہلے ہوچکا ہے۔ ہم نے اوور ویٹ لڑکیوں والا ''تھیم پارک‘‘ خاصی بلندی پر متعارف کرایا تھا۔ ہم سرکاری کھاتے کے طیاروں میں کام کرنے والی ''خوش خوراک‘‘ و ''فربہ اندام‘‘ فضائی میزبانوں کی بات کر رہے ہیں! بیس پچیس ہزار فٹ کی بلندی پر اوور ویٹ میزبان متعارف کرانے کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ بیشتر مسافر کھانے پینے کی کوئی اضافی چیز طلب کرنے کا سوچتے تھے اور پھر کچھ اور سوچ کر چپکے بیٹھے رہتے تھے! 
تھیم یعنی کسی خاص خیال کے تحت کوئی چیز بنانے یا ماحول یقینی بنانے کا آئیڈیا ترقی دنیا کو بہت بعد میں سُوجھا ہے۔ ہمارے ہاں اس نوعیت کے اتنے تجربے ہوئے ہیں کہ اب تو کچھ یاد بھی نہیں ع 
ہم کو کس کے غم نے مارا، یہ کہانی پھر سہی! 
ترقی یافتہ دنیا عوام کو سہولت فراہم کرنے کے نام پر ہڈ حرام بنانے پر تُلی ہوئی ہے۔ کام کی جگہ یعنی دفتر، فیکٹری، دکان یا کہیں اور، لوگوں کو اتنی سہولتیں دی جاتی ہیں کہ معاشی سرگرمیاں مشاغل کا سماں پیش کر رہی ہیں۔ ہر ترقی یافتہ ملک اپنے محنت کشوں کو زیادہ سے زیادہ آرام کرنے کے درپے ہے۔ یہ آئیڈیا بھی ہمارے ہاں پامال ہوچکا ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں؟ ہمارے ہاں سرکاری دفاتر کس کام کے لیے بنائے گئے ہیں؟ذرا ہمارے سرکاری دفاتر کا جائزہ لیں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ اُسی کیفیت سے دوچار ہوں گے جسے غالبؔ نے یوں بیان کیا ہے ع 
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے 
یہ تو ہوئی دفاتر میں ''تھیم‘‘ یعنی آرام و سہولت کا تصور متعارف کرانے کی بات۔ اب آئیے، ذرا کھانے پینے کے معاملات کی طرف۔ موٹی لڑکیوں کو ویٹریس کی جاب دے کر جاپانی ریستوران کا مالک سمجھ رہا ہے کہ اس نے کوئی تیر مارا ہے یا کوئی انوکھا کارنامہ انجام دیا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ وہ ذرا پاکستان آئے اور ایک دن ہمارے ریستورانوں میں گزارے تو شرمندہ ہوکر وطن واپس جائے گا۔ ہمارے بہت سے ریستوران کوئی نہ کوئی تھیم ضرور رکھتے ہیں۔ بعض ریستورانوں میں بیشتر ڈشیں خاصی پھیکی، قدرے غیر نمکدار اور بہت حد تک نامانوس سی ہوتی ہیں۔ 
ہر معاملے میں تھیم کا سہارا لینا سودمند ثابت نہیں ہوتا۔ میڈیا ہی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ معلومات فراہم کرنے کا مشن اب لوگوں کی بچی کھچی معلومات کو بھی ٹھکانے لگانے پر منتج ہو رہا ہے! بہت سے اہلِ قلم اخبار میں فکاہیہ کالم لکھنے کے نام پر کچھ ایسا لکھ جاتے ہیں کہ قارئین کے آنسو نکل آتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ''تھیم بیسڈ رائٹنگ‘‘ کے معاملے میں ہم اب تک ناکامی سے دوچار ہیں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں