"MIK" (space) message & send to 7575

جنگ آپ اپنی فاتح ہوتی ہے !

کیا ہے جو اب بھی پہلے جیسا ہے؟ کون سی چیز ہے جس نے تبدیل ہونے کی قسم نہیں کھا رکھی؟ بہت کچھ ہے کہ مکمل طور پر بدل چکا ہے اور دوسرا بہت کچھ ایسا ہے جو تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ اللہ نے جسے نظر عطا کی ہے وہ دیکھ سکتا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی دو طرح کی زندگی پہلی سی نہیں رہی۔ ہر انسان بہت حد تک بدل چکا ہے اور اِس کے نتیجے میں ماحول بھی تبدیل ہوا ہے۔ یہ دو طرفہ ٹریفک ہے۔ ماحول فرد پر اثر انداز ہوتا ہے اور پھر فرد کے اثرات بھی قبول کرتا ہے۔ 
یہ سب تو ٹھیک ہے مگر اب بھی بہت کچھ ہے کہ ذرّہ بھر تبدیل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ بہت سے خطوں میں ازلی نوعیت کی دشمنی رکھنے والوں نے بھی ایک دوسرے کو خوش دِلی سے قبول کرلیا ہے یا کم از کم دنیا کو تو یہی تاثر دے رہے ہیں کہ اب اُن میں وہ پہلی سے کُتّے بِلّی والی دشمنی نہیں۔ رقابت کی فصیلیں گِراکر دوستی کی بنیاد ڈالی جارہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دِلوں میں گزرے ہوئے زمانوں کا بہت کچھ باقی ہو مگر وقت کے تقاضوں کو نبھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے بہت سی اقوام ایک دوسرے کو قبول کر رہی ہیں۔ رقابت اور مخاصمت کے ادوار کو ذہنوں سے مِٹانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے تاکہ اکیسویں صدی میں گیارہویں صدی کے ماحول کو پھر سَر اٹھانے سے روکا جاسکے۔ ایسے میں برصغیر کو بھی تبدیل تو ہونا ہی چاہیے مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہو رہا۔ 
پاکستان اور بھارت جنوبی ایشیا کے اکھاڑے کے بڑے پہلوان ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ بھارت بہت بڑا پہلوان ہے جس کے آگے سبھی چھوٹے ہیں مگر پاکستان کسی حد تک منہ دے لیتا ہے۔ یہی اِس خطے کا سب سے عجیب معاملہ ہے۔ بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا جانتے ہیں کہ بھارت کے خلاف جانا اُن کے بس کی بات نہیں۔ بھوٹان اور مالدیپ تو خیر کسی گنتی ہی میں نہیں۔ ایسے میں صرف پاکستان ہے جو پُھولوں کی سیج پر کانٹے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس کانٹے کو نکالنے کی ہر بھارتی کوشش اب تک بھرپور کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئی۔ نئی دہلی کے پالیسی میکرز بھول گئے ہیں کہ اس دنیا میں سب کچھ صرف میٹھا یا صرف کھٹّا نہیں۔ کھٹّا میٹھا چلتا رہتا ہے۔ دوسرے بہت سے ذائقے بھی ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ 
پاکستان اور بھارت تین جنگیں لڑچکے ہیں۔ چوتھی کے لیے دونوں طرف سے کچھ لوگ بے تاب دکھائی دیتے ہیں مگر اُنہیں ذرا بھی اندازہ نہیں کہ چوتھی جنگ ہوئی تو پانچویں جنگ کی گنجائش نہیں ہوگی! آخری جنگ 1971ء میں ہوئی تھی۔ تب جنگی ساز و سامان کی ٹیکنالوجی گھٹنوں کے بل چل رہی تھی، اب کھڑی ہی نہیں ہوگئی بلکہ دوڑ رہی ہے۔ جدت طرازی نے ہر شعبے کی طرح اسلحہ سازی کے شعبے کو بھی حیرت انگیز بنادیا ہے۔ آج کا فوجی محض فوجی نہیں ہوتا بلکہ بہت سے معاملات میں وہ منصوبہ ساز بھی ہوتا ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں میں عام سپاہی کے لیے ہتھیار چلانا کافی سمجھ لیا جاتا تھا۔ اب فوجی کو بہت سے معاملات کی تربیت دینا لازم ہے تاکہ وہ دشمن سے بہتر ڈھنگ سے نمٹنے کے لیے وہ سب کچھ کر گزرے جو لازم ہے۔ 
جنگی جنون کو پروان چڑھانے والے بھارت میں بھی ہیں اور پاکستان میں بھی۔ پاکستان میں یہ معاملہ شعور کی حدود میں ہے۔ بھارت میں بہت سے انتہا پسند گروپ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور چھوٹی موٹی جنگ ہوجائے۔ اُنہیں اِس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ اب اگر کوئی جنگ ہوئی تو اُسے محدود رکھنا ممکن نہ ہوگا۔ دونوں ممالک کے پاس جدید ترین اسلحہ موجود ہے۔ مہارت بھی برابر کی ہے۔ اب اگر، خدا ناخواستہ، کوئی جنگ ہوتی ہے تو وہ دیکھتے ہی دیکھتے غیر روایتی ہتھیاروں کے استعمال کی طرف مُڑ جائے گی۔ بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان جدید ترین وار مشین رکھتا ہے۔ ہتھیاروں اور دیگر ساز و سامان کی تعداد کا فرق ضرور ہے مگر آج کی جنگ میں کوئی بہت چھوٹا ہوکر بھی بہت چھوٹا نہیں ہوتا۔ 
امریکی کانگریس نے پاکستان کو 8 ایف سولہ طیاروں سمیت 69 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے دفاعی پیکج کی منظوری دی ہے تو بھارت میں صفِ ماتم بچھ گئی ہے۔ اوباما انتظامیہ کے اس فیصلے پر بھارت کی وزارت خارجہ نے نئی دہلی میں متعین امریکی سفیر کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا۔ امریکی سفیر کو وہی پرانی راگنی سُنائی گئی کہ پاکستان کو جنگی طیارے فراہم کرنے سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔ بھارت کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ یہ فیصلہ منسوخ کیا جائے اور فوجی امداد کا پیکج بھی روکا جائے۔ یہ بہت عجیب بات ہے کہ پاکستان سے دس گنا عسکری قوت کے حامل ملک کو چند طیاروں کی فراہمی کے نتیجے میں طاقت کا توازن بگڑتا ہوا دکھائی دینے لگتا ہے۔ 
امریکی کانگریس نے پاکستان کو ایف سولہ طیارے فراہم کرنے کی 
منظوری ایک اہم مرحلے پر دی ہے۔ خطے میں بہت کچھ تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان، چین اور روس بہت تیزی سے قریب آرہے ہیں۔ ایسے میں امریکہ اور یورپ کے لیے خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔ اضافی پریشانی اِس بات سے ہے کہ ترکی، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کا جھکاؤ بھی پاکستان کی طرف ہے۔ تھوڑی توجہ سے پڑھنے اور سوچنے پر کوئی بھی محسوس کرسکتا ہے کہ جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، وسطی ایشیا اور اُس سے بلند خطہ سبھی ایک لڑی میں پروئے جانے کے منتظر ہیں۔ ایسے میں امریکہ اور یورپ کو بھی ترجیحات کا نئے سِرے سے تعین کرنا ہے۔ امریکہ جنوبی ایشیا میں صرف بھارت کو خوش رکھ کر اپنی مرضی کے کام نہیں کراسکتا۔ چین پر نظر رکھنے اور اسٹریٹجک دباؤ بڑھانے کے لیے اُس نے افغانستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کو خوب استعمال کیا ہے۔ مگر ایسا کب تک جاری رکھا جاسکتا ہے؟ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں امریکہ اور اس کے ساتھ ساتھ یورپ کو بھی تبدیل ہونا ہے اور یہی سبب ہے کہ جن ممالک کو وہ ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے ایک طرف ڈال دیا کرتا تھا اُنہیں اہمیت دینے کا مرحلہ آچکا ہے۔ ہماری جمہوری اور غیر جمہوری ہر دو طرح کی حکومتیں اب تک امریکہ کی حاشیہ بردار رہی ہیں۔ اُن کے سامنے کوئی آپشن بھی نہیں تھا۔ اب چین نے کھل کر سامنے آنے کی ٹھانی ہے اور روس بھی کچھ کر دکھانے کو پَر تول رہا ہے تو پاکستان کے لیے چند مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور ترکی کا بھی اب یورپ یا امریکہ کی طرف پہلا سا جھکاؤ نہیں رہا۔ یہ بات امریکہ اور یورپ دونوں محض محسوس نہیں کرتے بلکہ سمجھتے بھی ہیں۔ 
چین، عرب دنیا، وسطِ ایشیا اور روس کے ملاپ سے اگر کوئی بلاک معرض وجود میں آتا ہے تو ''نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن‘‘ والی صورت حال صرف بھارت کے لیے نمودار ہوگی۔ اُسے طے کرنا پڑے گا کہ علاقائی زمینی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے مل کر رہنا ہے یا امریکہ اور یورپ ہی سے لَو لگائے رہنا ہے! زمینی حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے بھارتی قیادت اب تک یہی سمجھ رہی ہے کہ پاکستان کو ڈرا دھمکاکر کنٹرول کرلیا جائے گا۔ بھارت میں جنگی جنون کو پروان چڑھانے والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان کو تباہ کرکے وہ محفوظ رہیں گے۔ آج کی غیر روایتی جنگ کیسی قیامت ڈھا سکتی ہے اِس کا اُنہیں کچھ اندازہ نہیں جو مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لینے کے لیے طبلِ جنگ بجاتے رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر معاملہ حقیقی زور آزمائی تک پہنچتا ہے تو یہ بات سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ کسی بھی جنگ میں حقیقی فاتح خود جنگ ہوتی ہے! ہر دور میں جنگ جیتنے والے بھی ہارے ہوئے ہی ثابت ہوتے رہے ہیں۔ جنگ کسی ایک فریق کے لیے تباہی نہیں لاتی۔ بزرگ شاعر غالب عرفانؔ نے اس کیفیت کو یُوں بیان کیا ہے ؎ 
کوئی بھی نہ بچ سکا جشنِ فتح کے لیے 
شہر کی فصیل پر طبلِ جنگ رہ گیا! 
وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے بھارت کے بزرجمہروں کو سوچنا ہے کہ جنگ کا آپشن استعمال کیا جائے۔ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ جشنِ فتح منانے کے لیے صرف طبلِ جنگ رہ جائے؟ بھارتی میڈیا کو بھی اس معاملے میں احساسِ ذمہ داری اور شعور کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ایسا کرنا ہی خطے کے مفاد میں ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں