کوئی مانے یا نہ مانے، اکیسویں صدی کی چند نمایاں ترین حقیقتوں میں ایک یہ بھی ہے کہ پاکستانی انتہائی منفرد ہوتے ہیں یعنی انفرادیت کے معاملے میں بھی انتہا پسند ہوتے ہیں۔ جب کچھ کرنے پر آتے ہیں تو ایسا کر جاتے ہیں کہ دنیا انگشت بہ دنداں رہ جاتی ہے۔ اور اگر کچھ نہ کرنے پر بضد ہوں تو ... خیر، چھوڑیے۔ اِس طرح تو داستان بہت طُول پکڑے گی!
پاکستانی معاشرے میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اُسے دیکھتے ہوئے بہت سے لوگ غیر ضروری عجلت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی بھی رائے قائم کرلیتے ہیں۔ بہت سے ہم وطنوں کا بھی خیال ہے کہ پاکستان میں دماغ کی موت واقع ہوچکی ہے! دماغ کی موت؟ جی ہاں، دماغ کی موت! توضیح یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں اب دماغ کو زحمت دینے کا رواج مٹتا جارہا ہے۔ اِس میں کوئی شک بھی نہیں کہ کچھ لوگ اللہ کے بخشے ہوئے دماغ کو ''ڈبّا پیک‘‘ حالت میں واپس لے جانا چاہتے ہیں تاکہ رب کے حضور پیش ہوکر بتائیں کہ اُنہوں نے دماغ کو امانت سمجھ کر اُس کی حفاظت کی یعنی امانت میں خیانت نہیں کی! ع
اِس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!
ہم نہیں جانتے کہ جب کوئی انسان (اور بالخصوص پاکستانی) دماغ کو ڈبّا پیک حالت میں اللہ کے حضور پیش کرے گا تو اُدھر سے کیا جواب آئے گا۔ ویسے یہ طُرفہ تماشا ہی تو ہے کہ اللہ نے جو چیز استعمال کرنے کے لیے دی ہے اُسے استعمال کرنے سے یوں گریز کیا جارہا ہے جیسے استفادہ کرنا گناہِ عظیم کہلائے گا!
اب ہم اُن شعبوں کا نام نہیں گِنوانا چاہتے جن میں دماغ کو زحمتِ کار دینے سے گریز کیا جاتا رہا اور کیا جارہا ہے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں آپ کا بہت سی باتوں سے ایمان اٹھ جائے گا، سارا لطف جاتا رہے گا! ہاں، اتنا ضرور ہے کہ ہماری قلمی مشقّت کو بے دماغی کا نتیجہ ہرگز نہ سمجھیے گا کہ یہی ایک کام ہم دماغ کی مدد سے کرتے ہیں!
بات ہو رہی ہے دماغ کی۔ بہت سوں نے یہ بے ڈھنگا اندازہ قائم کر رکھا ہے کہ پاکستان میں یا پاکستانیوں میں دماغ نہیں پایا جاتا۔ ہمارے لیے یہ رائے سوہانِ روح تھی۔ ہم بھی خیر سے نہ صرف پاکستانی بلکہ محبِ وطن قسم کے پاکستانی واقع ہوئے ہیں۔ کوئی ہمارے معاشرے اور اجتماعی مزاج پر کیچڑ اُچھالے، یہ ہم سے برداشت ہوا ہے نہ ہوگا۔ ہم وطن کے لیے کچھ کریں یا نہ کریں یہ ہمارا اور وطن کا معاملہ ہے مگر جب کوئی غیر ہمیں کچھ نہ کرنے کا طعنہ دیتا ہے تو تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ (فی زمانہ یہ بھی پاکستانی ہونے کی ایک بڑی نشانی ہے!)
اطِبّاء کے ہاں دیسی جڑی بُوٹیوں سے تیار کردہ خمیرہ کا ذکر بہت ملتا ہے اور عوام بھی اِسے کارگر قرار دیتے نہیں تھکتے۔ اور سب سے مشہور خمیرہ ہے خمیرہ گاؤ زبان۔ خدا جانے یہ نام کیسے پڑا؟ خمیرہ گاؤ زبان میں لاکھ ڈھونڈیے، گائے ملے گی نہ گائے کی زبان۔ خیر، اور بہت سی چیزوں اور مقامات کے نام اِسی قسم کے ہیں۔ مثلاً گلاب جامن میں گلاب ہے نہ جامن۔ اچھے خاصے کڑک اور دندان شکن حلوے کو ''سوہن حلوہ‘‘ کہا جاتا ہے! کراچی میں گرو مندر کا علاقہ مشہور ہے مگر وہاں گرو کا پتا ملتا ہے نہ مندر کا۔ اِسی طور ممبئی میں چرچ گیٹ ایک مشہور علاقہ ہے۔ حالت یہ ہے کہ لاکھ ڈھونڈنے پر چرچ تو کجا، گیٹ بھی ہاتھ نہیں آتا! ممبئی میں بغیر پانی کا دھوبی تلاؤ موجود ہے۔ اِسی طور کراچی میں رتن تلاؤ جائیے تو وہاں بھی پانی نام کو نہ ملے گا۔ اور سب سے زیادہ حیرت اِس بات پر ہے کہ جب کراچی میں قدم قدم پر مچّھر ہیں تو محض ایک بستی کو مچّھر کالونی کس خوشی میں کہا جارہا ہے!
بات ہو رہی ہے خمیرہ گاؤ زبان کی۔ یہ خمیرہ بھی مفید ہوگا مگر لگتا یہ ہے کہ پاکستان میں بھر میں اس وقت سب سے زیادہ مشہور اور سب سے زیادہ کھایا جانے والا خمیرہ ہے ''خمیرہ کھاؤ دماغ‘‘ جس کی ڈیمانڈ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ جو لوگ پاکستان اور پاکستانیوں میں دماغ نہ ہونے کا دعویٰ کرتے اور طعنہ مارتے تھکتے نہیں وہ آنکھیں اچھی طرح کھول کر دیکھیں کہ یہاں دماغ اِس قدر ہے کہ دن رات کھانے پر بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا!
آج کل پاکستان بھر میں مقبول ترین مشغلہ ہے دماغ کھانا۔ اور ایسا اِس لیے ہے کہ اِس کے لیے ہلنا جلنا نہیں پڑتا، کچھ خاص کرنا نہیں پڑتا۔ بس، بیٹھے بیٹھے زبان ہلاتے رہیے۔ وقت بھی کٹ جائے گا اور دل سے بہت سی ان کہی باتوں کا بوجھ بھی اُتر جائے گا! گویا ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ جب سے الیکٹرانک میڈیا کے چمن میں بہار آئی ہے، لوگ رات دن باتوں کے گُل کِھلانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ جسے دیکھیے وہ کچھ نہ کچھ کہنا اور بہت کچھ چاہتا ہے۔ لوگ اپنے بارے میں کم اور عجیب و غریب قسم کی سیلیبرٹیز کے بارے میں زیادہ جاننا چاہتے ہیں۔ اور جاننا اِس لیے چاہتے ہیں کہ کہنے یا بتیانے کے لیے کچھ تو ہو! جن لڑکیوں کی اپنی شادی نہیں ہو پارہی اُنہیں میرا کی شادی نہ ہو پانے کا غم کھائے جارہا ہے! کرائے کے گھر میں بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے میں کامیاب ہونے والے غریب اربوں روپے کی کرپشن کرنے والوں کے اللّوں تللّوں کے بارے میں جاننے کے آرزومند ہیں!
سمجھائے کون؟ سبھی ایک رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ بہت سوں کو اب دماغ کھانے کی ایسی عادت پڑچکی ہے کہ کوئی اور ڈش مزا ہی نہیں دیتی! ذرا سی فرصت نصیب ہوتے ہی لوگ ایک دوسرے کا دماغ کھانے کا گیم شروع کردیتے ہیں۔ ''خمیرہ کھاؤ دماغ‘‘ کے لیے لازمی چیز ہے گھر میں ٹی وی سیٹ کا ہونا۔ ڈیڑھ دو گھنٹہ کرنٹ افیئر کے ٹاک شو دیکھیے اور بس، کمر کَس کے میدان میں آجائیے۔ اگر تین چار اینکرز کی باتیں سُن کر آپ نے تھوڑا سا ''ہوم ورک‘‘ کرلیا ہے تو سمجھ لیجیے اب کوئی نہیں جو آپ کے مُنہ ... معاف کیجیے گا، آپ کے مقابل آئے! ''خمیرہ کھاؤ دماغ‘‘ نے لوگوں پر اپنا سِحر اِس طرح طاری کردیا ہے کہ اب یہ خمیرہ کھائے بغیر نیند نہیں آتی اور کھانا بھی ہضم نہیں ہوتا۔
ہم نے ''خمیرہ کھاؤ دماغ‘‘ کے ایسے شوقین بھی دیکھے ہیں جو اِس بڑی بڑی شیشیاں ہر وقت پاس رکھتے ہیں۔ یعنی موقع ملتے ہی مدمقابل کا دماغ پہلے چاٹنا اور پھر کھانا شروع کردیتے ہیں! اور خود بھی بچ نہیں پاتے کیونکہ فریقِ ثانی بھی تو اِسی معاشرے سے ہوتا ہے، کیا وہ کوئی کسر چھوڑنا گوارا کرے گا!
یاد رہے کہ یہ دو طرفہ ٹریفک ہے۔ یعنی دوسروں کا دماغ کھاتے رہنے ہی کو زندگی کا مقصد نہ سمجھیے بلکہ اپنا دماغ بھی دوسروں کو کھانے دیجیے۔ اِس کے لیے لازم ہے کہ صرف اپنی نہ ہانکی جائے بلکہ دوسروں کی بھی سُنی جائے۔ اگر کوئی صرف اپنا منجن بیچے یعنی بلا تکان بول کر دوسروں کا دماغ چاٹے تو اِسے سفّاکی اور سنگ دِلی کہا جائے گا۔ ع
کچھ اپنے دِل پر بھی زخم کھاؤ، مِرے لہو کی بہار کب تک؟
میڈیا کے ''یونانی‘‘ دوا خانے کا تیار کردہ ''خمیرہ کھاؤ دماغ‘‘ کھا کھاکر پاکستانیوں کا حال عجب ہوگیا ہے، چال غضب ہوگئی ہے۔ ابھی بہت دور تک تو کوئی ایسا دوا خانہ دکھائی نہیں دیتا جو کوئی نیا، کام کا خمیرہ متعارف کراکے اِس قوم کا غدودانِ معدہ کی حالتِ خانہ جنگی ختم کرے!