قیامت کا ایک دن مقرّر اور معیّن ہے۔ یہ ہمارے لیے ایمان کا معاملہ ہے مگر ایمان کی تو یہ ہے کہ ہم جب بھی محسوس کریں تب قیامت برپا ہو رہتی ہے۔ ویسے تو خیر فی زمانہ ہر سانس ایک قیامت سے کم نہیں مگر ماحول پر نظر دوڑائیے تو دور و نزدیک ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی قیامت جلوہ افروز دکھائی دیتی ہے۔ آپ غلط مطلب نہ لیں۔ ہم حُسن کے جلووں کی بات نہیں کر رہے۔ بیوٹی کلچر نے ''ولچر‘‘ (گِدھ) بن کر ہمارے ہاں حُسن والوں کے جلووں کی بوٹیاں نوچ لی ہیں یعنی جو تھوڑا بہت حُسن تھا وہ بھی طرح طرح کی کریمز اور لوشنز کی نذر ہو گیا ہے! جو بیوٹی کلچر حُسن کو قیامت کا انداز بخشنے کا دعویٰ کرتا ہے اُسی نے حُسن اور اہلِ حُسن پر ایسی قیامت ڈھائی ہے کہ اُنہیں بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے! اچھے خاصے چہرے تجربہ گاہ کی سی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ حُسن کی حفاظت کے نام پر جو کچھ استعمال کیا جا رہا ہے وہ حُسن کو تیزی سے چلتا کر دیتا ہے اور جب چہروں کے چراغوں میں روشنی نہیں رہتی تب بھی بیوٹی کلچر کا جھنڈا لہرانے والوں کے وعدے اور دعوے ختم نہیں ہوتے۔ چراغ بُجھا ہوا ہو تو اُسے روشن کرنے کا دعویٰ سمجھ میں آتا ہے مگر شکست و ریخت سے دوچار چراغوں کو بھی کسی نہ کسی طور جلانے کی بات ایسی ہے کہ کم ہی لوگ ہضم کر پاتے ہیں! خیر، بات ہو رہی تھی قیامت کی جو اکیسویں صدی قدم قدم پر ڈھا رہی ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ اب تو ہر سانس قیامت کی سی ہے۔ گویا بقول خواجہ میر درد ؔ ؎
آتی جاتی سانس کا عالم نہ پوچھ
جیسے دُہری دھار کا خنجر چلے!
یہ کیفیت آپ نے (اگر شادی شدہ ہیں تو) بہت سے مواقع پر محسوس کی ہو گی۔ گھریلو زندگی کی راہ میں ایسے بہت سے موڑ آتے رہتے ہیں جہاں کوئی نہ کوئی چھوٹی یا بڑی قیامت آپ کی منتظر رہتی ہے۔ ایسی ہی ایک قیامت کو شادی شدہ افراد ''شاپنگ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ قیامت کبھی سال میں ایک آدھ مرتبہ ٹوٹا کرتی تھی، اب یہ ماہانہ ایونٹ کا درجہ اختیار کر گئی ہے۔
معلوم تاریخ کے ہر دور میں خواتین خریداری کے رجحان کی حامل رہی ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ بوجھ (تاریخ کے ہر دور میں) شوہروں ہی نے برداشت کیا ہے۔ جس طور کسی بھی چیز کو حتمی طور پر صرف کرنے والا ultimate consumer کہلاتا ہے‘ بالکل اُسی طور خریداری کے معاملے میں end loader یعنی سارا بوجھ برداشت کرنے والا شوہر ہی تو ہوتا ہے! تاریخ کے اِس تسلسل کو آج کے مارکیٹنگ ایکسپرٹس نے ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے کہ قیامت بالائے قیامت کا سماں پیدا ہو گیا ہے۔ یعنی کسی بھی معاملے میں شاپنگ مال کا ایک آدھ پھیرا لگانے سے خواتین کی تشفّی نہیں ہوتی۔ اپنی تشفّی کے لیے وہ بار بار شاپنگ مالز کی ''سیر‘‘ فرماتی ہیں اور خوب سیر ہو کر شوہروں کی کمائی کو اِس طور ٹھکانے لگاتی ہیں کہ وہ بے چارے محنت سے کمائے ہوئے دھن کو یاد کرکے روتے رہتے ہیں۔
دنیا بھر میں شاپنگ مالز کو اس قدر پُرکشش بنایا جا رہا ہے کہ جو ایک بار کسی شاپنگ مال کی حدود میں قدم رکھ دے اُس کے لیے ناممکن ہے کہ خالی ہاتھ باہر جائے۔ مارکیٹنگ والوں کی تکنیکی کامیابی یہ ہے کہ انسان کو بہت کچھ ایسا بھی خریدنے پر مجبور کر دیتے ہیں جس کی اُسے چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ خواتین جب کسی شاپنگ مال میں قدم رکھتی ہیں تو
نگہ بلند، سخن نواز، جاں پُرسوز
کے مصداق بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ شوہروں کے پاس صرف ایک آپشن ہوتا ہے ... قدموں کے نشاں پہچان کر پیچھے پیچھے چلتے رہنے کا! شاپنگ مالز میں آپ کو یہ منظر قدم قدم پر ملے گا کہ خواتین ''مردانہ وار‘‘ بڑھتی جاتی ہیں اور شوہر کبھی دُم ہلانے کے سے انداز سے اور کبھی بکری کی طرح مِمیاتے ہوئے اُن کے پیچھے چلتے رہتے ہیں! بیگم صاحبہ کسی دُکان پر رک کر کچھ خریدتی ہیں اور شوہر ع
سرِ تسلیم خم ہے، جو مزاجِ یار میں آئے
کی تصویر بنے پے منٹ کرکے شاپر اٹھانے کو اُس گھڑی زندگی کا سب سے بڑا مقصد گردانتے ہوئے بیگم کی پیروی کرتے دکھائی دیتے ہیں!
باپ کا تو اب تک کچھ اتا پتا نہیں ملا مگر ہاں، یہ بات اب سب کی نظر میں پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ ضرورت کو ایجاد کی ماں کی حیثیت سے قبول کرکے صورت حال کا سب سے زیادہ فائدہ مارکیٹنگ والوں نے اٹھایا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسان اور بالخصوص خواتین کیا چاہتی ہیں۔ اور اِس سے بھی ایک قدم آگے جا کر وہی اب یہ طے کرتے ہیں کہ خواتین کو کیا چاہنا چاہیے! خواتین کی نفسیات پر خاصی وسیع تحقیق کے بعد (جس کی بظاہر چنداں ضرورت نہ تھی)، مارکیٹنگ کے ماہرین اِس نتیجے پر پہنچے کہ حقیقی کامیابی یہ ہے کہ خریداری کے عمل کو زیادہ سے زیادہ پُرکشش بنایا جائے۔ سو سوا سو سال کے عمل میں مارکیٹنگ کے ماہرین نے ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ اب خواتین کچھ خریدنے نکلتی ہیں تو جو کچھ خریدنا ہو اُس سے کہیں بڑھ کر وہ کچھ خرید لاتی ہیں جسے خریدنے کی خواہش ہوتی ہے نہ ضرورت! بیسویں صدی کے دوران مارکیٹنگ کے شعبے نے ایسی ترقی فرمائی کہ خواتین شاپنگ کے جال میں پھنس گئیں اور مردوں کی کمائی بے موت مر گئی!
شاپنگ مال کی چوکھٹ پر شوہر اپنی کمائی کو قربان کرتے ہی رہتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اب اس عمل کو انتہائی پُرکشش بنا دیا گیا ہے۔ شاپنگ مالز میں ایسا بہت کچھ متعارف کرا دیا گیا ہے کہ خواتین اور بچے دونوں ہی ایک ٹکٹ میں کئی مزے لیتے ہیں۔ بچوں کو سلائڈز، وڈیو گیمز اور سوئنگز مل جاتی ہیں۔ رہی سہی کسر اِس ''سہولت‘‘ نے پوری کر دی ہے کہ فیس پینٹنگ کے پیسے لیے جاتے ہیں نہ مہندی لگانے کے۔
شاپنگ مالز ویسے تو خیر خواتین کی دلچسپی کے آئٹمز ہی سے بھرے ہوتے ہیں مگر اب سامان سے ہٹ کر بھی ایسا بہت کچھ متعارف کرایا جارہا ہے کہ خواتین شاپنگ کے دوران ذرا بھی بیزاری (!) محسوس نہیں کرتیں۔ اُن کی نظر منزل پر رہتی ہے یعنی پیچھے پیچھے چلنے والے بکرے کو مکمل ذبح کرکے دم لیتی ہیں!
شاپنگ کا عمل جب فُل سوئنگ میں ہوتا ہے یعنی خواتین ایک منٹ میں چار دکانوں کی شرح سے آئٹمز کا جائزہ لے رہی ہوتی ہیں تب شوہر بے چارے بہت بیزاری محسوس کرتے ہیں کیونکہ برق رفتاری سے بڑھتے چلے جانے کے باعث اسٹیمنا کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے! ایسے میں بیگمات محض رسماً پوچھ لیا کرتی ہیں کہ آپ بور تو نہیں ہو رہے۔ اِس کے جواب عموماً شوہروں کے ہونٹوں پر خاصی فرماں بردارانہ ہنسی نمودار ہوتی ہے۔ اُن کی بے زبانی صاف کہہ رہی ہوتی ہے ؎
کچھ اِس ادا سے یار نے پوچھا مِرا مزاج
کہنا پڑا کہ شکر ہے پرودگار کا!
چین کے ایک شاپنگ مال کی انتظامیہ کو شاپنگ کے دوران بیزاری محسوس کرنے والے شوہروں کی دل بستگی کا کچھ خیال آیا ہے۔ بیجنگ کے پریٹیمپس مال میں شوہروں کی سہولت اور دلچسپی کے لیے پانچ منزلہ ''ٹنل سلائڈ‘‘ متعارف کرائی ہے! خواتین اِس سلائڈ سے دور رہتی ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ شاپنگ کرتی ہوئی بیویوں کے ساتھ پانچویں منزل تک پہنچنے والے شوہر سامان کے ساتھ ایک بورے میں بند ہوتے ہیں، ٹنل سلائڈ میں داخل ہوتے ہیں تو چکر کھاتے ہوئے محض 16 سیکنڈ میں خاک چاٹتے ہو جاتے ہیں یعنی گراؤنڈ فلور پر آجاتے ہیں۔ اِسے ''ڈریگن سلائڈ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ شوہروں کو یہ تجربہ بہت جانا پہچانا سا لگتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے، اُن کی جیب میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ تو بہت پہلے ہی شاپنگ نام کے ''ڈریگن‘‘ کے پیٹ میں جا گِرا ہوتا ہے! وہ خود اس بات پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ڈریگن سلائڈ کی مدد سے زمین پر آگئے، ''شاپنگ ڈریگن‘‘ کی نذر نہیں ہو گئے!
ہم انتباہ کیے دیتے ہیں۔ عید اب زیادہ دور نہیں۔ ایک منٹ میں چار پانچ دکانیں کھنگالنے کا موسم شروع ہونے کو ہے۔ آپ بھی شاپنگ ڈریگن سے ذرا بچ کے رہیے گا!