"MIK" (space) message & send to 7575

تم سلامت رہو ہزار برس

ہم جب بھی گھریلو معاملات اور میاں بیوی کے تعلقات سے متعلق کسی تازہ تحقیق کے نتائج پر مبنی خبریں پڑھتے ہیں، ہمارا دل بَلّیوں اچھلنے لگتا ہے۔ ایسی کوئی بھی خبر ہاتھ لگنے کا مطلب ہے ایک اچھا، چٹخارے دار اور رسیلا کالم۔ 
مرزا تنقید بیگ بھی گھریلو زندگی کے جھمیلوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کامیڈی پر مشتمل خبریں شوق سے پڑھتے ہیں۔ مگر ان کا معاملہ تو وہی ہے کہ گڑ شوق سے کھانا اور گلگلوں سے پرہیز۔ جب بھی ہم گھریلو زندگی کی الجھنوں سے متعلق کسی خبر کو بنیاد بناکر کالم لکھتے ہیں، مرزا فوراً ہم پر تنقید کے تیر برسانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ ان کا اعتراض اس بات پر ہے کہ ہم اپنے کالموں میں جب بھی گھریلو زندگی کی الجھنوں کا ذکر کرتے ہیں، تمام معاملات کا ذمہ دار بیویوں کو قرار دیتے ہیں۔ اور یہی سبب ہے کہ ان کے اعتراض کو بنیاد بناکر کئی بار ہمیں گھر کی چار دیواری میں کڑوی کسَیلی باتیں سُننا پڑی ہیں! مرزا کی تو وہی مثال ہے کہ دیوار پر شیرہ لگاکر ایک طرف ہٹ جاتے ہیں۔ 
اگر ہم گھریلو معاملات سے متعلق خبروں پر لکھے جانے والے کالموں میں تان بیگمات پر توڑتے ہیں تو اِس میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔ ہم اس معاملے میں یکسر مجبور ہیں۔ معاملہ از خود نوٹس کے مصداق گھوم پھر کر بیگمات تک پہنچ ہی جاتا ہے۔ اِسی کیفیت کو احمد فرازؔ نے خوب بیان کیا ہے ؎ 
میں اُس کا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں 
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے 
کچھ دنوں سے گھریلو زندگی کے بارے میں خاصی عجیب و غریب خبریں آرہی ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ ع 
روٹی تو کسی طور کما کھائے مُچھندر 
یعنی ماہرین اور محققین ہاتھ پر ہاتھ دھرے تو بیٹھ نہیں سکتے کہ گھر بھی چلانا ہے۔ ایسے میں لازم سا ہوگیا ہے کہ وہ عجیب و غریب موضوعات پر بھی دادِ تحقیق دیں اور اگر کوئی قابل توجہ موضوع نہ مل پارہا ہو تو موضوع گھڑنے سے گریز نہ کریں! 
اٹلی میں اس نکتے پر دادِ تحقیق دی گئی ہے کہ شوہر کے مرنے پر خواتین نسبتاً تادیر زندہ رہتی ہیں اور بعض کیسز میں نصف صدی بھی گزار جاتی ہیں۔ دوسری طرف (مردوں کے لیے) انتہائی تلخ اور سفّاک حقیقت یہ ہے کہ بیوی مر جائے تو مرد زیادہ دن زندہ نہیں رہ پاتا۔ محققین کو اس بات کی داد تو دینا ہی پڑے گی کہ بالکل سامنے کی بات کو بھی وہ اِتنے ٹھوس اور علمی انداز سے بیان کرتے ہیں کہ کچھ دیر کے لیے ذہن سمجھ ہی نہیں پاتا کہ داد دینے کا کون سا انداز اختیار کرے! سیف الدین سیفؔ کہتے ہیں ؎ 
سیفؔ! اندازِ بیاں بات بدل دیتا ہے 
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں! 
سماجی معاملات کے محققین کا بھی یہی معاملہ ہے۔ وہ پرانی شراب کو نئی بوتل میں اتنے اہتمام سے پیش کرتے ہیں کہ لوگوں کو خواہ مخواہ زیادہ اور الگ طرح کا سُرور آنے لگتا ہے! 
محققین نے بیواؤں کے زیادہ جینے اور رنڈووں کے جلد دنیا سے چلے جانے کا انکشاف فرمانے پر فائل بند نہیں کی بلکہ یہ معلوم کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے کہ یہ فرق کیوں ہے۔ 
ہزاروں خواتین و حضرات کے انٹرویو کرنے کے بعد چند ایک باتیں معلوم ہوپائیں۔ سیدھی سی بات ہے، خواتین بھلا کیوں بتائیں گی کہ وہ چل بسیں تو مرد زیادہ دیر اس دنیا میں کیوں نہیں رہ پاتے! ہزاروں انٹرویوز کے نچوڑ کی صورت میں ایک قابل غور بات یہ معلوم ہو پائی کہ شادی سے پہلے اور شادی کے بعد دونوں ہی زمانوں میں مرد بیشتر معاملات میں خواتین پر انحصار کرتے رہتے ہیں۔ روزانہ کھانا پکانے، گھر کی صفائی، کپڑوں کی دُھلائی اور دوسرے بہت سے امور میں عموماً خواتین خانہ ہی پر انحصار کیا جاتا ہے۔ گھر کے بیشتر کاموں کا مردوں کو چونکہ تجربہ ہی نہیں ہوتا اس لیے وہ معمولی سے معاملات میں بھی خواتین کی طرف دیکھتے رہنے کے عادی ہوتے جاتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ شرٹ کا بٹن ٹوٹ جائے تو مرد خود ٹانکنے کے بجائے ماں، بہن، بیٹی یا بیوی سے مدد کا طلب گار ہوتا ہے۔
مرزا کے پاس ہر بات کا جواب پایا جاتا ہے۔ جب ہم نے اُنہیں بیواؤں کے زیادہ جینے کے بارے میں کی جانے والی تحقیق کے بارے میں بتایا تو اُنہوں نے کچھ دیر توقّف کیا، پھر مسکرائے اور بولے : ''وہ لوگ پرلے درجے کے احمق ہیں جو خواتین کو احمق سمجھتے ہیں۔ خواتین میں محنت کرنے اور گھر کو جنّت بنانے کی جس قدر صلاحیت پائی جاتی ہے اُتنی ہی ذہانت بھی پائی جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اُن کی ذہانت میں چالاکی کا تناسب زیادہ ہوتا ہے! خواتین گھر کا تقریباً سارا ہی کام کاج تندہی سے کرتی ہیں۔ ایسا کرنے سے ایک طرف تو ان کی جسمانی صحت بھی برقرار رہتی ہے اور ذہنی صحت بھی بگڑنے سے محفوظ رہتی ہے۔ کہتے ہیں خالی ذہن شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔ جو لوگ فارغ بیٹھتے ہیں وہ کچھ نہ کچھ الٹا سیدھا سوچتے ہی رہتے ہیں۔ یہی حال اُن خواتین کا ہے جو گھر میں زیادہ دیر فارغ بیٹھی رہتی ہیں۔ خواتین اچھی طرح جانتی ہیں کہ فارغ بیٹھے رہنا خود اُن کے لیے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے!‘‘ 
ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ اس پوری کہانی میں چالاکی کہاں ہے۔ گھر کے تمام کام کاج دیانت اور محنت سے کرکے خواتین تو خود کو انتہائی قابلِ احترام بناتی ہیں۔ مرزا نے ہماری بات سکون اور توجہ سے سُنی اور جواب دیا : ''خواتین اپنی جسمانی و ذہنی صحت برقرار رکھنے کی خاطر جو کچھ کرتی ہیں اُسی سے مردوں کا بھی کام ہو جاتا ہے یعنی وہ کوئی کام نہ کرنے کی صورت میں خواتین کے محتاج ہوتے جاتے ہیں۔ یہی تو ہے اصل چالاکی، بلکہ چالاکی کا نچوڑ۔ خواتین جانتی ہیں کہ مرد چونکہ بیشتر معاملات میں اُن کے محتاج ہوتے ہیں اس لیے اُن (خواتین) کے انتقال کر جانے کی صورت میں اُن (مردوں) کی زندگی انتہائی دشوار ہوجاتی ہے۔ یعنی خواتین جب تک دُنیا میں رہتی ہیں بہت ہی ٹھسّے کے ساتھ مردوں پر حکمرانی کرتی ہیں اور دُنیا سے جاتے جاتے بھی مردوں کا ٹکٹ کٹوا دیتی ہیں تاکہ وہ اِس دُنیا میں زیادہ دن نہ رہے!‘‘ 
کالم لکھنا تو ایک بہانہ تھا۔ جب سے ہم نے یہ پڑھا ہے کہ گھر کے بیشتر کاموں میں خواتین کا محتاج ہونے کے باعث رنڈووں کی زندگی انتہائی دشوار ہوجاتی ہے تب سے ہم اپنی بیگم کے خلوص کے قائل ہوگئے ہیں۔ ہمیں گھر کے کام کرتے دیکھ کر احباب مذاق اڑاتے رہے ہیں۔ مرزا تو ہم پر طنز کے تیر برسانے کا بہانہ درکار ہوتا ہے۔ مگر اب ہم یہ سمجھ پائے ہیں کہ گھر کے متعدد کاموں میں ہم سے معاونت طلب کرنا دراصل بیگم کی طرف سے خلوص کا اظہار ہے۔ گھر کے بہت سے کاموں میں معاونت طلب کرکے بیگم ہمیں اس بات کا موقع فراہم کرتی ہیں کہ ''زمانۂ مابعد‘‘ میں بھی ہمارے ہاتھ پیر چلتے رہیں، زندہ رہنے کی لگن جواں رہے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں