"MIK" (space) message & send to 7575

آج ہے محفل دید کے قابل …

چین نے دوستی کی ہے تو نبھائی بھی ہے۔ ہاتھ تھاما ہے تو سخت نامساعد حالات میں بھی بے وفائی کا نہیں سوچا۔ اس میں کیا شک ہے کہ ریاستوں کے درمیان تعلقات محض جذبات کی بنیاد پر استوار نہیں ہوتے بلکہ ہر معاملہ حقیقت پسندی کا مظہر یا عکس ہوتا ہے۔ چین ہمارے ساتھ ہے تو اس کا یہ مطلب یقینی طور پر نہیں لیا جاسکتا کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے یا ہم سے کوئی الگ قسم کا لگاؤ ہے۔ پاکستان اگر کسی کے لیے اہم ہے تو محض اس بنیاد پر کہ اس کے مفادات مستحکم ہوتے ہوں۔ چین بھی ہم سے اپنے مفادات کو جُڑا ہوا دیکھ کر ہی ہمارا ہے۔ یہ سب کچھ درست مگر اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ چین نے مفادات کی سطح سے تھوڑا سا بلند ہوکر بھی ہمارے لیے کچھ نہ کچھ ضرور سوچا ہے۔ چین کے مفادات ہم سے جُڑے ہوئے ضرور ہیں مگر تمام مفادات یقیناً جُڑے ہوئے نہیں۔ 
ہم بھنور میں ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان اور پاکستان کے درمیانی علاقے کو میدان جنگ بنادیا گیا ہے۔ پندرہ سال سے یہ خطہ غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے۔ اس مدت کے دوران بارہا ایسے مواقع آئے کہ چین کے لیے فیصلے کی گھڑی آئی۔ اور چینی قیادت نے ہر بار پاکستان ہی کا ساتھ دیا۔ چین اصلاً لادین ریاست ہے۔ پاکستان نام کا ہی سہی، ہے تو اسلامی ملک۔ اس کے باوجود چین نے پاکستان کو مستحکم کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ امریکہ اور یورپ کی ناراضی مول لے کر بھی وہ پاکستان میں بہت کچھ کرنے پر آمادہ، بلکہ بضد ہے۔ 
گوادر پورٹ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے ۔ گہرے سمندر کی بندر گاہ تعمیر کرنے کی راہ میں کئی مشکلات حائل تھیں۔ بھارت نے بلوچستان میں اپنے ایجنٹس کے ذریعے پاکستان اور چین دونوں کے لیے شدید مشکلات پیدا کیں۔ چینی انجینئرز کے اغواء اور قتل کی وارداتیں ہوتی رہیں مگر گوادر پورٹ پر کام جاری رہا۔ گوادر پورٹ مکمل ہوئی اور اب شہر کو آباد کرنے کا مرحلہ باقی ہے تاکہ بندر گاہ کو مکمل طور پر آپریشنل بنایا جاسکے۔ 
چین جنوبی ایشیا میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ ایسا کرنا محض ضرورت نہیں بلکہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں اس کے لیے متعدد مشکلات پیدا کی گئی ہیں۔ ایک طرف تائیوان اور جنوبی کوریا ہیں اور دوسری طرف جاپان۔ ان تمام ممالک کی آبادی ایک ہی نسل کے لوگوں پر مشتمل ہے مگر امریکہ اور یورپ نے مل کر دِلوں میں خلیج پیدا کردی ہے۔ دن بہ دن وسیع تر ہوتی ہوئی یہ خلیج اب معاملات کو اس مقام تک لے جانے پر تُلی ہوئی ہے جہاں کوئی بڑا دھماکا سب کچھ مٹی میں ملا سکتا ہے۔ 
چین کے لیے ناگزیر ہے کہ پاکستان کی مدد سے جنوبی ایشیا میں اپنے لیے زیادہ leverage پیدا کرے۔ سوال توسیع پسندی سے کہیں زیادہ اس خطے سے مغربی طاقتوں کو دور رکھنے کا ہے۔ امریکہ اور یورپ ہم سے بہت دور واقع ہیں مگر اپنی ٹیکنالوجی کی مدد سے اور پالیسیوں کے تحت سارے کھیل یہیں کھیل رہی ہیں۔ ایک طرف مغربی طاقتیں ہیں اور دوسری طرف بھارت جو اپنی طاقت منوانے کے لیے اُتاؤلا ہوا جارہا ہے۔ چین کی مجموعی کوشش یہ ہے کہ پورے خطے کو ایک لڑی میں پروکر سب کے لیے قابل قبول اور مستحکم ٹریڈنگ زون میں تبدیل کردیا جائے۔ پاکستان محل وقوع کے اعتبار سے چین اور مغرب دونوں کے لیے بہت اہم ہے۔ اس حقیقت سے بھارت اور ایران دونوں بخوبی واقف ہیں۔ روس بھی چین کا ہم خیال ہوکر جنوبی ایشیا کو مستحکم کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ وسط ایشیا میں روس اپنی بات آسانی سے منواسکتا ہے۔ ایسے میں اگر پاکستان سے تعلقات بہتر ہوں تو روس کے لیے گرم پانیوں تک رسائی مشکل نہ رہے گی اور یوں اس کے لیے عالمی تجارت زیادہ سستی اور آسان ہوجائے گی۔ ساتھ ہی ساتھ جنوبی ایشیا کے متعدد ممالک سے عوامی سطح کا رابطہ بھی روس کے لیے زیادہ آسان ہوجائے گا۔ اور اس پورے معاملے میں ترکی مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ 
حالات نے بھارت کو شدید الجھن سے دوچار کردیا ہے۔ ایران بھی شش و پنج میں مبتلا ہے مگر خیر، اس کا معاملہ بہت پیچیدہ نہیں۔ بھارت کے لیے دو خطرات ابھر کر سامنے آئے ہیں اور دونوں ہی خاصے بڑے اور مستحکم ہیں۔ پہلا خطرہ تو معاشی مفادات کو لاحق ہے۔ پاکستان، چین، ترکی اور روس وسط ایشیا کی ریاستوں کو ساتھ ملاکر جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ بھارت کے معاشی مفادات کے ساتھ ساتھ نفسیاتی برتری کے لیے کھلا چیلنج ہے۔ بھارتی قیادت کو بھی صورت حال کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ اب تک چھوٹے پڑوسیوں کو دباتی، دبوچتی آئی ہے۔ بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کے ساتھ بھارتی قیادت نے جو کچھ کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ لے دے کر ایک پاکستان ہے جو بھارت کو کسی حد تک منہ دینے کی پوزیشن میں ہے۔ بھارتی قیادت کو یہ خوف بھی لاحق ہے کہ اگر کوئی بڑا علاقائی اتحاد اس کے بغیر پنپ گیا تو جن پڑوسیوں کا وہ اب تک استحصال کرتی آئی ہے وہی اس سے جواب طلب کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے! 
پاکستان سے کشیدہ تعلقات کے حامل افغانستان اور ایران کو ساتھ لے کر اب بھارت نے اپنا سفر شروع کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان، چین اور روس کے درمیان تیزی سے پنپتے ہوئے دوستانہ اور معاشی تعلقات نے بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی نہیں بلکہ گھنٹا بجادیا ہے۔ اور اس سے پہلے کہ بینڈ بھی بج جائے، نئی دہلی چاہتا ہے کہ اسلام، بیجنگ، انقرہ اور ماسکو کے درمیان تیزی سے پنپتے ہوئے تعلقات کی راہ میں جیسے تیسے کوئی دیوار کھڑی کی جائے۔ پاکستان، چین اور ترکی کو تھوڑا سا پریشان کرنے کی غرض سے بھارت، افغانستان اور ایران ایک میز پر آئے ہیں۔ 
بھارت نے ایران کو چاہ بہار کی بندر گاہ کی اپ گریڈیشن کے لیے 50 کروڑ ڈالر دیئے ہیں۔ ایرانی قیادت بھی خطے کی بدلتی ہوئی صورتِ حال سے بھرپور طور پر مستفید ہونے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے والی ذہنیت کی حامل بھارتی قیادت ایران پر جان و دل نچھاور کرنے کے لیے بے تاب ہوئی جارہی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم اور ایران و افغانستان کے صدور کی ملاقات خاصی پُر رونق تھی۔ ہمیں ایک فلمی مصرع یاد آگیا۔ ع 
آج ہے محفل دید کے قابل، شمع بھی ہے پروانہ بھی 
یہ کھیل کوئی ایسا مشکل بھی نہیں کہ سمجھ میں نہ آئے۔ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا عمل ایک زمانے سے جاری ہے۔ اب صرف طریقہ تبدیل ہوا ہے۔ بلوچستان میں شورش کو دبانا پاکستانی فورسز کے لیے ممکن ہوا ہے تو اب ایران اور افغانستان کے ساتھ مل کر نئی سازش کا ڈول ڈالا جارہا ہے۔ ابھی تو ایسی سازشوں کے مزید کئی ڈول ڈالے جائیں گے۔ چاہ بہار کی بندر گاہ سے بھارت کا کیا مفاد وابستہ ہوسکتا ہے؟ تجارت کے لیے بھارت کے پاس بندر گاہوں کی کیا کمی ہے؟ ہزاروں میل پر محیط ساحل میسر ہے جس پر انتہائی فعال بندر گاہیں واقع ہیں۔ پاکستان اگر نیپال سے دوستی ذرا سی مستحکم کرتا ہے تو بھارتی قیادت واویلا مچانے لگتی ہے۔ اب پاکستان پر اُڑ کر افغانستان اور ایران میں ڈیرا ڈالنے کی کوشش کس کھاتے میں رکھی جائے گی؟ بھارت یہ سب کچھ اپنے طور پر بھی کرسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ عالمی طاقتوں کے اشارے پر پاکستان اور چین کو پریشان کرنا مقصود ہو۔ مغرب بھی تو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے اور ترکی و روس کے جنوبی ایشیا میں فعال ہونے سے پریشان ہے۔ یہ خطہ مضبوط ہوگیا تو مغرب کی دال کیسے گلے گی؟ ہوسکتا ہے کہ بھارت کو ٹاسک دیا گیا ہو کہ پاکستان سے کشیدہ تعلقات رکھنے والے ممالک سے دوستی، مفاہمت اور اشتراکِ عمل کی پینگیں بڑھاؤ تاکہ معاملات میں تھوڑی بہت تو گڑبڑ پیدا ہو۔ 
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے کئی طاقتیں پریشان ہیں۔ بھارت اور ایران زیادہ پریشان ہیں۔ بھارت خود کو پاکستان اور چین کے درمیان sandwiched محسوس کر رہا ہے۔ ایران اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ پاک چین راہداری منصوبہ اور ترکی و روس کا پاکستان اور چین کی طرف بڑھتا ہوا جھکاؤ خطے میں اس کی gravity پر بری طرح اثر انداز ہوگا۔ بھارت، افغانستان اور ایران نے ع 
آ ملے ہیں سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک 
والی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے! ایسے میں اسلام آباد کو یاد رکھنا چاہیے کہ ع 
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں