دنیا بھر کے آجر اِس فکر میں مبتلا رہتے ہیں کہ اجیروں یعنی ملازمین کی کارکردگی کی مقدار و معیار میں اضافہ کیسے کریں۔ ملازمین اپنے حصے کا یعنی طے شدہ کام بھی مشکل سے کرتے ہیں۔ ایسے میں ان سے زیادہ کام لینے کا تصور دیوانے کا خواب معلوم ہوتا ہے۔ اور کارکردگی کا معیار بلند کرنا تو خیر اُس سے بھی بہت آگے کی منزل ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ملازمین سے زیادہ اور اچھا کام لینے کے لیے بہت سے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ امریکہ کی ایک کمپنی نے اپنے ملازمین کو زیادہ کام کرنے اور کام کا معیار بلند کرنے کی تحریک دینے کے لیے بظاہر انوکھا طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس کمپنی نے پالیسی میٹرز میں شامل کیا ہے کہ ملازمین کے آرام اور سکون کا پورا خیال رکھا جائے تاکہ وہ بہتر انداز سے کام کرنے کے قابل ہوسکیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے طے کیا گیا ہے کہ جو ملازمین اپنی نیند پوری کریں گے اور تازہ دم ہوکر ڈیوٹی کے لیے پہنچیں گے اُنہیں خصوصی الاؤنس دیا جائے گا۔
کمپنی کے ڈائریکٹرز کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ماہرین سے مشاورت کے بعد کیا گیا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ملازمین جب کم از کم مطلوبہ نیند پوری کرنے کے بعد تازہ دم ہوکر ڈیوٹی پر آئیں گے تو بیدار مغز کے ساتھ کام کریں گے اور ان کے کام میں معیار کی بلندی صاف جھلکے گی۔
ملازمین کو نیند پوری کرنے کے پیسے دینے والی امریکی کمپنی کے ڈائریکٹرز پر ماہرین نے خدا جانے کون سا منتر پُھونکا کہ وہ اس حماقت بدوش مشورے کو تسلیم اور لاگو کرنے پر راضی ہوگئے۔ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ نیند سے کام کا کیا تعلق ہے۔ اگر واقعی کوئی تعلق ہوتا تو پاکستان جیسے ممالک تو صفحۂ ہستی سے مٹ گئے ہوتے!
پاکستان خیر سے اُن گِنے چُنے ممالک میں ہے جہاں لوگ کچھ نہ کرکے بھی بہت کچھ کر رہے ہیں۔ یعنی ہر چیز، ہر معاملے کا پورا مزا لیا جارہا ہے اور زندگی ہے کہ گزر بھی رہی ہے اور سب خوش بھی ہیں۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ دنیا بھر میں آجر ملازمین کے سُکون و راحت کا خیال رکھتے ہیں تاکہ وہ بہتر انداز سے کام کریں اور یہاں یہ عالم ہے کہ ملازمین کے مزے دیکھ کر آجربھی سوچتے رہ جاتے ہیں کہ بہت بڑے پیمانے پر کمانے کے بعد بھی اُن کی زندگی یُوں سُکون کیوں نہیں گزر رہی!
ہم بھی ملازم ہیں اور کئی آجروں کو شرفِ آجری بخش چکے ہیں۔ ہم نے تو آجروں کو ہمیشہ پریشان دیکھا ہے۔ بہت کچھ کمانے کے بعد بھی اُن کی زندگی میں وہ راحت دکھائی نہیں دیتی جو ہم جیسوں کے شب و روز کا خاصہ رہی ہے اور ہے۔ہم چونکہ زندگی بھر اجیر رہے ہیں اِس لیے ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ زیادہ سے زیادہ سُکون کے ساتھ کام کرنے کے منفرد اور مُجرّب طریقے کیا ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں جتنے بھی اجیر ہیں اُن کی ڈیوٹی ٹائمنگز کا بڑا حصہ ڈیوٹی کو زیادہ سے زیادہ راحت بخش بنانے کے بارے میں سوچنے پر صرف ہوتا ہے!
امریکی ماہرین کو اب خیال آیا ہے کہ ملازمین کو نیند پوری کرنے کے پیسے دیئے جائیں ... اور وہ بھی گھر پر! ایسا لگتا ہے کہ امریکی ماہرین پاکستان کا چکّر لگاچکے ہیں اور یہاں جو کچھ ہو رہا ہے اُسے دیکھ کر وہ بہت کچھ سیکھ گئے ہیں۔ گھر پر نیند پوری کرنے کا الاؤنس دینا امریکیوں اور باقی اہل جہاں کے لیے منفرد آئیڈیا ہوگا، ہمارے لیے تو یہ بالکل سامنے کی بات ہے۔ ہم (یعنی اجیر) یہ آئیڈیا بہت پہلے آزما چکے ہیں اور اِس کے منطقی نتیجے کے طور پر ہم میں سے بیشتر کی زندگی میں راوی چَین ہی چَین لکھتا ہے!
ایک زمانے سے بیشتر پاکستانیوں کا وتیرہ یہ ہے کہ گھر میں پوری نہ ہو پانے والی نیند ''ورک پلیس‘‘ پہنچنے کے بعد پوری کرتے ہیں اور ایسی عقیدت کے ساتھ کہ اب نیند کا پورا کرنا بھی ''ورک‘‘ کا حصہ بن چکا ہے! بیشتر پاکستانیوں کا ڈیوٹی کے دوران نیند سے بھرپور لگاؤ دیکھ کر ہمیں کسی کا یہ شعر یاد آجاتا ہے ؎
اب اِس سے بڑھ کے تِرا اعتبار کیا ہو گا
بنا لیا ہے تجھے اپنی زندگی ہم نے
حقیقتِ حال تو یہ ہے کہ اب اپنے ملازمین کو دیکھ کر بہت سے پاکستانی آجر بھی اُن سے پوچھنے پر مجبور ہیں کہ بھائی! ایسی غضب کی، پُرسُکون نیند کا راز ہمیں بھی بتاؤ کہ نیند کی گولیاں کھا کھاکر ہم نیند کی طرف تو نہیں البتہ ابدی نیند کی طرف ضرور بڑھ رہے ہیں!
دنیا بھر میں اس امر پر تحقیق جاری رہتی ہے کہ ڈیوٹی کے اوقات کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ کس طور بنایا جائے، ملازمین کو زیادہ سے زیادہ سُکون کس طور فراہم کیا جائے۔ یہ سب کچھ اِس لیے ضروری ہے کہ ملازمین کو ڈیوٹی کے دوران کوئی الجھن درپیش نہیں ہوگی تو کام کا معیار بلند ہوگا اور ادارے کی اجتماعی ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔ ہمیں یہ ساری باتیں سُن کر بہت ہنسی آتی ہے، بلکہ کبھی کبھی تو قہقہوں کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے ملازمت پیشہ افراد (یعنی بیشتر پاکستانیوں) نے ماہرین کی تحقیق اور اُس کے نتائج کا انتظار کیے بغیر ازخود نوٹس کے تحت ایسے بہت سے طریقے اپنالیے ہیں جن کے دم سے زندگی قابلِ رشک حد تک آرام سے گزر رہی ہے۔ ایک زمانے سے اہلِ پاکستان کا شعار یہ ہے کہ اپنے آرام و سکون کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہونے دی جائے، نوکری وغیرہ بھی نہیں! یہ شعار اپنانے سے بیشتر پاکستانیوں کی زندگی میں ''انقلابی‘‘ تبدیلی رونما ہوئی ہے، یہ کہ اپنی مرضی سے جیو اور کسی کی پروا مت کرو۔ یہی سبب ہے کہ اب آجر کی بھی پروا نہیں کی جاتی! ملازمت کا کیا ہے، آج نہیں تو کل مل ہی جائے گی۔ بس یہ ہے کہ سُکون ہاتھ سے نہ جائے!
قلب و ذہن کو سُکون سے ہم کنار رکھنے کے لیے بہت سے ماہرین مراقبہ بھی تجویز کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اِس سے خیالات بھی ترتیب میں رہتے ہیں اور انسان اپنے اعمال میں توازن پیدا کرنے میں کامیابی سے ہم کنار ہوتا ہے۔ اہلِ پاکستان نے اِس معاملے میں بھی پہل کی ہے اور ماہرین کو شرمندہ ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ ملازمت پیشہ افراد میں سے جو ڈیوٹی کے دوران سونے سے گریز کرتے ہیں وہ مراقبہ تو بہرحال کرتے ہی ہیں کہ جُھومتے ہوئے ڈیوٹی دینے کا اپنا مزا ہے! ڈیوٹی کے دوران مراقبہ! مگر ہمارے لیے اب یہ معاملہ گھر کی مرغی دال برابر جیسا ہوچکا ہے وگرنہ یہ ایسی فنکاری ہے کہ دنیا دیکھے تو دیکھتی رہ جائے، داد دینے کا بھی ہوش نہ رہے!
پاکستان میں ملازمت کو زیادہ سے زیادہ راحت بخش بنائے رکھنے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں جن پر عمل کرنے میں زیادہ محنت لگتی ہے نہ کسی کو زیادہ الجھن محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً ڈیوٹی پر دیر سے پہنچنا۔ یہ ایسا آزمودہ نسخہ ہے کہ ملازمت پیشہ افراد کی زندگی میں ''جشنِ بہاراں‘‘ کا سماں برقرار رکھتا ہے۔ ڈیوٹی کے اوقات میں کام سے بچتے ہوئے پُرسُکون رہنے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔ مگر اب کیا بیان کیجیے۔ آپ بھی تو پاکستانی ہیں۔ اور اگر ملازمت پیشہ ہیں تو سمجھ لیجیے آپ کے لیے یہ ساری باتیں ''ہاتھ کنگن‘‘ کو آرسی کیا جیسی ہیں!