"MIK" (space) message & send to 7575

یہی تو ہم بھی کہتے آئے ہیں

حقائق کو نظر انداز کرنا یا اُن سے نظریں چُرانا کسی کے لیے ناممکن نہیں ہوتا۔ کوئی بھی انسان جب چاہے ایسا کرسکتا ہے مگر اِس کے نتائج بھی اُسی کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ حقائق کو نظر انداز کرنے یا بالائے طاق رکھنے کی ایک حد ضرور ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ سکتا ہے مگر کب تک؟ انتہائی نادان انسان کو بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اُسے کسی بھی حقیقت کے خلاف کس حد تک جانا ہے۔ ہم زندگی بھر اپنے ضمیر کی آواز کو دباتے رہتے ہیں مگر ہمیں خوب اندازہ ہوتا ہے کہ اِس کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا۔ ضمیر کی آواز کو دبانے کے نتیجے میں انسان کا باطن شکست و ریخت سے دوچار ہوتا ہے۔ اور یوں پورے کا پورا انفرادی نظامِ ہستی گُھٹ کر، مٹ کر رہ جاتا ہے۔ 
کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے پولینڈ کے دورے کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو میں جو کچھ کہا ہے وہ شدید حبس کو ختم کرنے کے لیے چلنے والے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے کم نہیں۔ پوپ نے لگی لپٹی ایک طرف رکھتے ہوئے صاف صاف کہا کہ دہشت گردی اور تشدد کا اسلام سے کسی بھی طور موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ انتہا پسند گروہ ہر مذہب میں ہوتے ہیں یعنی انتہا پسندوں کی موجودگی کی بنیاد پر صرف اسلامی دنیا کو مطعون کرنا درست نہیں کیونکہ عیسائیوں میں بھی انتہا پسند گروہ ہیں۔ مزید یہ کہ اگر انتہا پسند مذہبی گروہوں کی بات ہوگی تو انتہا پسند عیسائی گروہوں کا بھی ذکر چھیڑنا ہوگا۔ پوپ نے ایک اہم بات یہ کہی کہ دہشت گردی کا ارتکاب اُسی وقت کیا جاتا ہے جب کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ مگر اس سے بڑھ کر کام کی بات یہ تھی کہ یورپ (اپنے نظریات، رجحانات، پالیسیوں اور حکمت ہائِ عملی کے ذریعے) نوجوانوں کو دہشت گردی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ 
کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا نے عالمی حالات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں جنگ کا ماحول ہے مگر اس کے لیے مذہب کسی بھی طور ذمہ دار نہیں۔ جنگیں مفادات کے تصادم، وسائل کی بندر بانٹ اور شدید نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر ہوتی آئی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ اس پورے معاملے میں مذہب تو ایک طرف کھڑا صرف تماشا دیکھتا رہا ہے۔ فرانس میں ایک پادری کے قتل کی پشت پر مذہبی منافرت سے انکار کرتے ہوئے پوپ نے کہا کہ ہم دنیا اگر جنگ پر تُلی ہے تو اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ امن کو خیرباد کہہ چکی ہے۔ 
مغرب نے ایک زمانے سے یہ پروپیگنڈا کر رکھا ہے کہ دنیا بھر میں اگر دہشت گردی کوئی کر رہا ہے تو وہ صرف مسلمان ہے۔ یہ تاثر عام کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی رہی ہے کہ کسی اور مذہب کے پیروکار کا تشدد اور دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ دنیا میں مسلمان اگر خود کش حملوں اور دہشت گردی پر تُلے ہوئے ہیں تو کیوں؟ پروپیگنڈا یک طرفہ ہے۔ جو ہو رہا ہے وہ پیش کیا جارہا ہے اور وہ بھی نمک مرچ لگاکر مگر یہ بتانے سے گریز کیا جارہا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے۔ دہشت گردی کا بہانہ تراش کر کئی مسلم ممالک کا دھڑن تختہ کردیا گیا ہے، معاشرت اور معیشت دونوں کو تاراج کیا جاچکا ہے۔ افغانستان، عراق اور لیبیا اس معاملے میں واضح ترین مثال ہیں۔ ان سے قبل صومالیہ کی مِٹّی پلید کی گئی۔ 
ڈاکٹر ذاکر نائیک پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ دہشت گردی پر اکسا رہے ہیں اور اُن سے متاثر ہونے والے نوجوان دہشت گردی اور خود کش حملوں کی طرف جارہے ہیں۔ اِس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر نائیک کا کہنا ہے کہ ان کے ٹی وی نیٹ ورک پر اُن کی تقاریر سننے والوں کی تعداد اٹھارہ کروڑ سے زائد ہے۔ فیس بک پر ان کا پیج پسند کرنے والوں کی تعداد ایک کروڑ چالیس لاکھ تک ہے۔ اگر انہوں نے واقعی دہشت گردی پر اکسایا ہوتا تو اِن میں سے کم از کم دس بارہ لاکھ نوجوان تو دہشت بن ہی چکے ہوتے! 
ایک بار ڈاکٹر ذاکر نائیک سے اسامہ بن لادن کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ دہشت گرد ہے یا نہیں تو اُنہوں نے سوال پوچھنے والے ہندو کو یہ کہتے ہوئے لاجواب کردیا کہ جو کچھ اسامہ بن لادن نے کیا ہے وہی کچھ یورپ اور امریکا کی تاریخ کے مختلف ادوار میں بہت سوں نے کیا ہے۔ تب انہیں بھی دہشت گرد قرار دیا گیا تھا مگر آج انہیں ہیرو کا درجہ مل چکا ہے! 
صد شکر کہ جو بات ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہی اور اسلام دشمنوں سے ہضم نہ ہوئی وہی بات اب کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا نے کہہ دی ہے اور ایسے دو ٹوک انداز سے کہی ہے کہ وہ سب چپ ہیں جو ایسی بات کسی مسلم اسکالر کے منہ سے سُن کر بھڑک اٹھتے ہیں، پھٹ پڑتے ہیں۔ پوپ کہتے ہیں کہ دہشت گردی اُسی وقت کی جاتی ہے جب کوئی اور راستہ نہیں بچتا۔ یعنی یہ کہ اگر کسی انسانی گروہ کو مستقل بنیاد پر ظلم اور زیادتی کا نشانہ بنایا جارہا ہو تو پہلے وہ مختلف پُرامن طریقوں سے معاملات درست کرنے کی کوشش کرے گا مگر جب امن پسندی سے دال گلتی دکھائی نہ دیتی ہو تو مجبور ہوکر دہشت گردی کی راہ پر چل پڑے گا۔ اسلامی دنیا کے ذمہ داران ایک مدت سے مغربی دنیا سمیت پوری عالمی برادری کو یہی تو سمجھاتے آئے ہیں۔ کئی بار اسلام کا کیس پیش کرتے ہوئے مجبوریاں بیان کی گئی ہیں مگر کوئی سُننے کو تیار نہیں۔ اب پوپ نے کہا ہے تو سب نے سن لیا ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے کوئی اور راستہ نہ ہونے کا جواز بیان کرکے پوپ نے اُس حقیقت کی نشاندہی کردی ہے جس کی طرف اسلامی دنیا کے اسکالرز اور خطیب عشروں سے اشارا کر رہے ہیں۔ یورپ اور امریکا نے مل کر اسلامی دنیا کو نشانے پر لے رکھا ہے۔ تیل کی دولت کا بہانہ تراش کر اسلامی دنیا کو زیادہ سے زیادہ کمزور کرنا لبرل دنیا کا وتیرہ ہے۔ سبب یہ ہے کہ لبرل ازم کے خلاف اگر کوئی ٹھوس آواز بلند ہوسکتی ہے تو وہ اسلامی دنیا ہی کی آواز ہے۔ جدت طرازی کے سِحر میں ڈوبے ہوئے اہلِ مغرب لبرل ازم کے نام پر مادر پدر آزادی کو ہر حال میں یقینی بنائے رکھنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ مذہب کو انہوں نے محض برائے نام اپنایا ہوا ہے۔ اور مذہبی اداروں کو بھی اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ 
مسلم اسکالرز، قائدین اور مصنفین ایک زمانے سے اِس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ مسلمانوں کو دہشت گردی کی طرف دھکیلا جارہا ہے یعنی وہ جب دیکھتے ہیں کہ صرف اُنہیں کچلا جارہا ہے تو مجبور ہوکر انتہا پسندی اور دہشت گردی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ 
اب تو پوپ فرانسس نے بھی کہہ دیا ہے کہ جب کسی کو پُرامن رہتے ہوئے بقاء کا راستہ دکھائی نہ دے رہا ہو تو وہ کچھ بھی کرنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔ اور اِس سے ایک قدم آگے جاکر پوپ نے یہ کہتے ہوئے یورپ کو مطعون کیا ہے کہ اُس کی پالیسیاں نوجوانوں کو دہشت گردی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ اِس جملے کے دو تین مفاہیم ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ (ممکنہ طور پر امریکی دباؤ کے تحت) یورپ ایسی پالیسیاں اپنائے ہوئے ہے جن سے اسلامی دنیا میں خرابیاں بڑھ رہی ہیں یعنی وہاں نوجوان انتہا پسندی اور دہشت گردی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ دوسرا ممکنہ مفہوم یہ ہے کہ یورپ میں سب کچھ اپنی حد سے گزر چکا ہے۔ جدت کے نام پر شرم و حیا کو مکمل طور پر بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ جھوٹ، چوری، ڈکیتی وغیرہ پر تو قابو پایا جاچکا ہے۔ لوگ اِن بُرائیوں سے کنارا کش ہیں مگر شرم و حیا، خاندانی ماحول، تزکیۂ نفس وغیرہ کو دیس نکالا دیا جاچکا ہے۔ یورپ کے نوجوانوں میں شدید نفسیاتی الجھنیں اور ہیجان پنپ رہا ہے جس کا اظہار انفرادی سطح پر اُس وقت ہوتا ہے جب کوئی مغلوب الجذبات ہوکر درجنوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ 
پولینڈ میں کرسچین یوتھ کانگریس سے خطاب میں پوپ فرانسس نے نوجوانوں کو انتہائی کھوکھلا لائف اسٹائل اپنانے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ ساتھ ہی انہوں نے تارکین وطن سے اچھا سلوک روا رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ پوپ نے حقیقت بیانی سے کام لیتے ہوئے اسلامی اور عیسائی دنیا کے درمیان پُل تعمیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُن کے خیالات کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں