ایک ذرا سی عمر میں ہم کئی زمانے گزارتے ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ اُن زمانوں سے گزرتے ہیں۔ قدم قدم پر کوئی نہ کوئی نئی بات دکھائی دیتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا منظر بدل جاتا ہے۔ گویا ؎
وہ یُوں گئے کہ ہاتھ سے جاتا رہا یہ دل
میں دیکھ ہی رہا تھا کہ منظر بدل گیا
معاملات کچھ کے کچھ ہوجاتے ہیں۔ ہر دور کی یہی خاصیت ہے کہ وہ خود بدل کر ہمیں بھی بدلتا ہے مگر لطف یہ ہے کہ ہمیں تبدیلی کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب وہ مکمل طور پر واقع ہوچکی ہوتی ہے۔
گزرے ہوئے زمانے گزر ضرور گئے ہیں مگر گئے کہاں ہیں، وہ تو ہمارے حافظوں میں محفوظ ہیں۔ ایک ایک پل اور ایک ایک دن یاد رکھنا تو خیر ممکن نہیں مگر بہت سے نمایاں اور قابل ذکر واقعات یاد رہ جاتے ہیں اور یادوں کا حصہ بن کر مرتے دم تک ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔
آج کیا ہے جو ہمیں میسر نہیں؟ کون سی سہولت ہے جو ہمارے سامنے نہیں اور جس سے ہم مستفید نہیں ہوسکتے؟ مگر مسئلہ یہ ہے کہ بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی ایسا لگتا ہے کہ کچھ بھی نہیں۔ ؎
یہ کیا ہے کہ سب کچھ ہے مگر کچھ بھی نہیں ہے
پہلے تو کبھی جی کو یہ آزار نہیں تھا!
دنیا کا تو کام ہی بدلنا ہے۔ ہر دور میں دنیا بدلتی ہی آئی ہے مگر تین چار عشروں کے دوران رونما ہونے والی تبدیلیوں اور ابھی سو سال پہلے تک رونما ہونے والی تبدیلیوں میں ایک واضح فرق ہے جسے ہم اکثر نظر انداز کردیتے ہیں۔ سو، دو سو یا تین چار سو سال پہلے کوئی نئی چیز سامنے آتی تھی تو وہ چیز بھی برقرار رہتی تھی جس کے نعم البدل کے طور پر نئی چیز کو لایا گیا ہوتا تھا۔ یعنی دو زمانے ساتھ ساتھ دیکھے جاسکتے تھے۔ نیا زمانہ پُرانے زمانے کو ہڑپ نہیں کر جاتا تھا۔ سب کچھ ساتھ چلتا رہتا تھا۔
اب تبدیلی کا معاملہ خطرناک شکل اختیار کرچکا ہے۔ بہت کچھ ہے جو ہماری زندگی کا حصہ ہے اور دوسرا بہت کچھ ہے جو ایسا گیا ہے کہ اب واپس آنے کا نام نہیں لے گا۔ ایجادات کا زمانہ تھا تو بہت کچھ متروک ہوکر بھی زندگی کا حصہ رہتا تھا۔ لوگ کسی نہ کسی شکل میں اُس سے مستفید ہوتے رہتے تھے، گزرے ہوئے زمانے سے کچھ نہ کچھ تعلق استوار رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اب ایجادات کا معاملہ تمام ہوا۔ اختراع ہی اب سِکّہ رائج الوقت ہے۔ موجود اشیاء میں کچھ نہ کچھ نیا پن لاکر اُس کا نیا ورژن متعارف کرایا جاتا ہے اور پُرانا ورژن از کار رفتہ قرار دے کر ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیا جاتا ہے۔
سب کچھ اتنی تیزی سے بدلتا جارہا ہے کہ اب ماہرین اور بہت سی باتوں کے ساتھ ساتھ نَفسی اور حِسّی ساخت پر تبدیلی کے اثرات سے متعلق تحقیق میں بھی مصروف رہتے ہیں۔ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں اُتنی ہی تیزی سے بدلتی ہوئی نَفسی اور حِسّی ساخت کی پیچیدگیوں پر بھی غور کرنا لازم ہوگیا ہے کہ اِس کا بلا واسطہ اثر انسان کے مزاج پر مرتب ہوتا ہے اور پھر وہ بہت کچھ ایسا بھی کر گزرتا ہے جس کی اُس کے دل میں خواہش ہوتی ہے نہ ارادہ۔ انسان پر ایسی بے بسی پہلے تو کبھی مسلّط نہ ہوئی تھی۔
ماہرین نے مطالعے کے حوالے سے تازہ ترین تحقیق کی بنیاد پر بتایا ہے کہ جو لوگ باقاعدگی سے ناول پڑھتے ہیں اُن میں ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور وہ ڈھنگ سے معاشرتی تعلقات کو نبھا پاتے ہیں۔ کینیڈا کے پروفیسر اوٹلے کہتے ہیں کہ ناول پڑھنے کی عادت نے کئی نسلوں کو بہتر زندگی بسر کرنے کی خواہش اور ارادے سے سرفراز کیا۔ ناول اور طویل افسانوں کی مدد سے لاکھوں، بلکہ کروڑوں انسانوں نے اپنا مزاج تبدیل کیا یعنی بہتر بنایا۔
ناولوں سے متعلق تحقیق کی ٹرین محض ہمدردی کے اسٹیشن پر نہیں رُکتی۔ پروفیسر اوٹلے کہتے ہیں کہ جو لوگ باقاعدگی سے ناول پڑھتے ہیں اور مصنّف کے مزاج کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں اُن کے ذہن میں وسعت آتی جاتی ہے۔ معاملہ محض دوسروں کے جذبات سمجھنے تک محدود نہیں رہتا بلکہ ناول پڑھنے کے شوقین رفتہ رفتہ اپنے بیشتر معاملات میں غور و فکر کے عادی ہوتے جاتے ہیں اور جب بھی کوئی بحرانی کیفیت نمودار ہوتی ہے تو وہ اچھی طرح سوچ سمجھ کر کوئی فیصلہ کرتے ہیں اور اُس پر قائم بھی رہتے ہیں۔
ہمارے ہاں بھی کسی زمانے میں ناول پڑھنے کا جُنون پایا جاتا تھا۔ 1950 ء سے 1990 ء تک متعدد مصنفین نے ناول نگاری کے شعبے میں اپنا آپ منوایا۔ جب تک فلمیں دیکھنا انتہائی آسان نہیں ہوا تھا تب تک ناول ہی فلم کی کمی پوری کرتا تھا۔ ہمارے ہاں بیشتر ناول اِس انداز سے لکھے جاتے تھے کہ قاری محسوس کرتا تھا وہ کوئی فلم دیکھ رہا ہے۔ یہ خاص تکنیک تھی کا بنیادی مقصد کم شرح خواندگی رکھنے والے معاشرے میں لوگوں کو مطالعے کی عادت سے جُڑا ہوا رکھنا تھا۔ 1950 ء سے 1980ء تک جاسوسی ناولوں کی غیر معمولی طلب اِس لیے تھی کہ اِن ناولوں کو پڑھتے وقت قاری خود کو کسی اور دنیا میں محسوس کرتا تھا۔ بعض کردار پڑھنے والوں کے مزاج سے ایسے ہم آہنگ تھے کہ وہ اُن کی نَفسی و حِسّی ساخت کا حصہ بن کر رہ گئے تھے۔ بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے لکھے جانے والوں میں اس بات کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا کہ پڑھتے وقت ذرا بھی بیگانگی محسوس نہ ہو، قاری اپنے آپ کو حقیقت کی دنیا سے کچھ دیر کے لیے الگ کرے اور ایک ایسی دنیا میں چلا جائے جہاں اُسے سوچنے کی گنجائش بھی مل رہی ہو اور کسی خواہش کی تکمیل سے کوئی روکنے والا بھی نہ ہو۔
نسیم حجازی، ابن صفی، ایم اسلم، اے حمید اور دوسرے بہت سے ناول نگاروں نے لفظوں کی کاری گری سے ایک ایسی دنیا تشکیل دی جس میں سب کچھ حقیقت کی دنیا سے بہت مختلف تھا۔ قاری جب اِن کے ناول پڑھتے تھے تو کچھ دیر کے لیے حقیقت کی دنیا کی تلخیوں کو مٹانے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ مصنفین قاری کو حقیقت سے گریز سکھاتے تھے۔ معاملات خواہشات کی یعنی مثالی دنیا کا تھا۔ یہ لوگ قاری کو نئے انداز سے سوچنے کی تحریک دیتے تھے۔ ناول میں سب کچھ اِتنی تفصیل سے بیان کیا جاتا تھا کہ قاری کے ذہن میں وسعت پیدا ہوتی تھی اور وہ معاشرے کے مزاج سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتا تھا۔ دوسروں کا نقطہ نظر سمجھنے میں ناول غیر معمولی معاونت کرتے تھے کیونکہ مصنفین ہر نکتے کو پوری شرح و بسط سے بیان کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جو شخص ناول پڑھ رہا ہے وہ ہر بات کو تفصیل سے جاننا چاہتا ہے۔ کہانی کے ہر موڑ کو پوری ممکنہ تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ ناول پڑھنے والوں کا مزاج خاصا مختلف ہوتا تھا۔ وہ اپنے اور دوسروں کے بیشتر معاملات پر غور کرنے کے عادی ہوجاتے تھے۔
کچھ ناول نگار ایسے بھی تھے جو قاری کو ایک خیالی دنیا میں لے جانے پر یقین رکھتے تھے جس میں ہر طرف سب اچھا ہوا کرتا تھا۔ اِس خیالی دنیا میں حقیقی دنیا کا کوئی بھی مسئلہ نہیں پایا جاتا تھا۔ خیالی دنیا والے ناول پڑھنے سے لوگوں کے مزاج میں خوش فہمی کا گراف خاصا بلند ہوجاتا تھا۔ وہ ہر وقت کسی نہ کسی خوش فہمی میں مبتلا رہتے تھے۔ مگر خیر، اِس نوعیت کے ناول نگار ہمارے ہاں کبھی احترام کی نظر سے نہیں دیکھے گئے۔
آج کی دنیا بہت تیز ہے۔ ایسے میں ڈھائی تین سو صفحات کا ناول پڑھنا ہم میں سے بیشتر کے لیے ممکن نہیں رہا۔ اور پھر یہ بات بھی ہے کہ ہم خود تیزی کی نذر ہوچکے ہیں۔ ہم بھی تو چاہتے ہیں کہ کوئی بھی تحریر کم سے کم مدت میں پڑھنا ممکن ہو۔ 1970 ء کے عشرے میں ہمارے ہاں ڈائجسٹ عام ہوئے تو لوگ کو ''اختصار بینی‘‘ کی عادت سی پڑگئی۔ وہ چاہتے تھے کہ کہانی آٹھ دس صفحات میں ختم ہوجائے۔ ایسے میں اُن لکھنے والوں کو مقبولیت حاصل ہوئی جو کسی بھی کہانی کو چند صفحات میں لپیٹ دیں۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسانی مزاج کی باریکیاں بیان کرنے کی عادت مصنفین کے مزاج سے رخصت ہوئی۔ اچھے مصنف کے لیے وسیع مطالعہ لازم ہے۔ مگر جب کہانی چند صفحات میں ختم کرنی ہو تو خاص مطالعے کی کوئی خاص ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یُوں ناول نگاری اور ناول بینی رخصت ہوئی۔ اور ہمارے مزاج کی پیچیدگیاں نہ صرف یہ کہ ختم نہ ہوئیں بلکہ بڑھتی گئیں۔ ناول لکھنے اور پڑھنے کا زمانہ تو اب بس ہمارے حافظوں ہی میں رہ گیا ہے!