"MIK" (space) message & send to 7575

پھر وہی پاؤں، وہی خارِ مغیلاں ہوں گے؟

ایک بار پھر غلط موقع کا انتخاب۔ ایک بار پھر وہی غلطی جس نے مقبولیت کے چاند میں داغ بڑھادیئے تھے۔ اور ایک بار پھر وہی ضد کہ ضرورت ہو نہ ہو، احتجاج تو کرنا ہے۔ یعنی بقول غالب ؔ ؎ 
خط لکھیں گے، گرچہ مطلب کچھ نہ ہو 
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے! 
ہم بات کر رہے ہیں پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی۔ وہ بھی کمال کے آدمی ہیں۔ جو کچھ کرکٹ میں بہت محنت سے کمایا تھا اُسے انسانیت کی خدمت انجام دیتے ہوئے اپ گریڈ کیا مگر اس پوری اپ گریڈنگ کو انہوں نے نہایت آسانی اور تیزی سے سیاست کے خار زاروں میں خاک کا ڈھیر بنا ڈالا۔ 
عمران خان کے قماش کے بارے میں تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ تو ہر دور میں بہت نفیس رہے ہیں مگر ہم آج تک سمجھ نہیں پائے کہ عمران خان کے ارد گرد رہنے والے کس قماش کے ہیں۔ عمران خان نے سیاست کے میدان میں بیس سال مکمل کرلیے ہیں۔ دو عشرے کم نہیں ہوتے۔ آج کل کوئی بھی کرکٹر دس سال بھی چل نہیں پاتا۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو بیس سال دو کیریئرز کی مدت ہے۔ اتنی مدت میں اُنہیں بہت کچھ سیکھ لینا چاہیے تھا مگر ایسا لگتا ہے کہ وہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ سیاست کے حوالے سے طفلِ مکتب بھی بنیں یا نہ بنیں! وہ قدم قدم پر کچھ نہ کچھ ایسا کہہ اور کر رہے ہیں کہ ان کے حقیقی چاہنے والے (جو اب کم ہوتے جارہے ہیں) حیرت اور افسوس کے ساتھ (اپنے) سَر پیٹنے پر مجبور ہیں۔ 
عمران خان نے 2014ء میں جو دھرنا دیا تھا وہ منصوبہ بندی اور اس پر عمل کے حوالے سے ایسا ناقص تھا کہ عام آدمی بھی جان گیا کہ ''آرڈر پر مال تیار کیا جارہا ہے!‘‘ خدا جانے وہ کون سے مشیر ہیں جو اُنہیں آرڈر پر مال تیار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اب پھر تحریکِ احتساب کے نام پر وہی غلطی دہرائی جارہی ہے۔ 
موقع اِس لیے غلط ہے کہ ایک طرف ملک کو سفارت کاری کے میدان میں گوناگوں الجھنوں کے باعث بیرونی دباؤ کا سامنا ہے، ایک طرف بھارت آنکھیں دِکھاتے ہوئے ہٹ دھرمی پر تُلا ہوا ہے اور دوسری طرف افغانستان سے بھی معاملات الجھے ہوئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال نے پاکستان پر دباؤ بڑھادیا ہے۔ پاک چین راہداری منصوبہ جب سے شروع ہوا ہے، بھارت اور ایران کی طرف سے ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے جو ہماری پریشانی میں اضافہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ ایران اور بھارت دونوں ہی کو اندازہ ہے کہ اگر اس عظیم منصوبے سے انہیں باہر رکھا گیا تو پاکستان نہ صرف یہ کہ معاشی اعتبار سے بہت مضبوط ہوجائے گا بلکہ ڈٹ کر بات کرنے کی پوزیشن میں بھی آجائے گا۔ پاک ترک دوستی بھی بہت سے ممالک کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ ایرانی پاسپورٹ پر بلوچستان آنے کے بعد بھارتی جاسوس کُل بُھوشن یادو کی گرفتاری نے ایران کے لیے شرمندگی کا سامان کیا ہے۔ ایسے میں وہ بھی کوئی ایسا موقع چاہتا ہے جس کی مدد سے پاکستان کا سَر جُھکا سکے۔ اِس ایک گرفتاری نے پاک ایران تعلقات کو بھی کسی حد تک سَرد مہری کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا ہے۔ 
یہ تو ہوئی باہر کی بات۔ اور اندر کا معاملہ یہ ہے کہ ملک بھر میں مون سون جوبن پر ہے۔ پہلے پنجاب میں بارش اور سیلابی ریلوں نے تباہی مچائی۔ اب سندھ اور بلوچستان کی باری ہے۔ لوگ پریشان ہیں۔ ایک طرف بارش سے ہونے والی تباہی اور دوسری طرف سیلاب کا خطرہ۔ کھڑی فصلیں شدید متاثر ہوئی ہیں۔ ایسے میں لوگ اپنا پیٹ دیکھیں یا سیاسی مُوشِگافیوں کا حق ادا کریں؟ عمران خان پاناما لیکس کے حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ منوانے نکلے ہیں۔ لوگ حیران و پریشان ہیں کہ عمران خان کی طرف سے تحریکِ احتساب کی کال کا کیا جواب دیں۔ 
ایک بار پھر ایسا لگتا ہے کہ پردے کے پیچھے بیٹھے ہوئے کچھ لوگ حکومت کا ناک میں دم کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ مزید مفلوج ہو اور ڈھنگ سے کچھ کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔ یہ کوشش پہلے بھی کی گئی تھی مگر حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی ناکوں چنے چابنے پڑے تھے! حکومت کو ناکوں چنے چابنے پر مجبور کرنے کے مقصد کا حصول پہلے بھی عمران خان ہی نے ممکن بنایا تھا اور ایک بار پھر نگاہِ انتخاب اُنہی پر ٹھہری ہے۔ اور کیوں نہ ٹھہرے؟ عمران خان نے بارہا ثابت کیا ہے کہ وہ زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے کچھ بھی کرسکتے ہیں! دو سال قبل بھی انہوں نے یہی کیا تھا۔ لوگ حیران تھے کہ خیبر پختونخوا میں حکومت ملی ہے تو یہ اسلام آباد میں کیا کر رہے ہیں! اگر وہ خیبر پختونخوا میں گڈ گورننس پر توجہ دیتے تو آئندہ انتخابات میں خیبر پختونخوا کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی اپنی پوزیشن بہت بہتر بنالیتے۔ 
2014ء میں چار ماہ سے زائد مدت کے دھرنے کی مدد سے وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون کا رنگ تبدیل کرکے عمران خان نے کیا حاصل کیا یہ تو ہم نہیں جانتے مگر ہاں اتنا ضرور یاد ہیے کہ ع 
اِس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی 
اس میں حیرت کا پہلو تھا نہ افسوس کا۔ سیاست میں جب بھی کسی کی فرمائش پر کچھ کیا جاتا ہے تو آخر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ کوئلے کی دلالی میں ہاتھ تو کالے ہوتے ہی ہیں۔ ع 
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں 
دھرنا جیسے تیسے ختم ہوا۔ حکومت کو جو نقصان پہنچنا تھا وہ پہنچ گیا۔ اُس کا ناک میں دم کرنا مقصود تھا سو وہ ہوگیا۔ مگر اِس کے بعد عمران خان کے لیے کرنے کے لیے عجیب صورت حال پیدا ہوئی۔ سیاست سے پہلے کی نیک نامی بھی ہاتھ سے گئی! کیفیت کچھ ایسی تھی کہ ع 
پھرتے ہیں میرؔ خوار، کوئی پوچھتا نہیں! 
شیخ رشید کے مشوروں پر عمل کرکے عمران خان کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی عمران خان کے ساتھ مل کر اپنی دکان چمکائی مگر خیر، اُنہیں زیادہ نقصان اس لیے نہیں پہنچا کہ اُن کا تو خاصا بڑا نیٹ ورک ہے اور مریدین کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ اسلام آباد میں کم و بیش چار ماہ تک جو دھما چوکڑی مچائی گئی اُس کا حاصل یہ تھا کہ عمران خان اپنی مقبولیت کو داغ لگا بیٹھے۔ شیخ رشید کا کچھ نہ گیا کہ اُن کے پاس کھونے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں! جو کچھ بھی نقصان ہونا تھا وہ عمران خان کا ہوا۔ ان کے بارے میں لوگ جو کچھ بھی پُرامید ہوکر سوچتے تھے وہ سب کچھ سوچنا ترک کردیا گیا۔ 
اور پھر رہی سہی کسر دوسری شادی نے پوری کردی۔ عوام کو اندازہ نہ تھا کہ اپنے سیاسی کیریئر کے ایک نازک موڑ پر عمران خان ایسی غلطی کریں گے۔ ریحام خان سے اُن کا ازدواجی تعلق کچھ ایسا تھا کہ اُن کے چاہنے والوں سے بھی ہضم نہ ہوسکا۔ سبھی جانتے تھے کہ عمران خان ون مین شو کے قائل ہیں۔ ریحان خان تھوڑی بہت حیثیت ضرور رکھتی تھیں اور شاندار سیاسی کیریئر کے حوالے سے اُن کے بھی کچھ عزائم تھے۔ یہ بھلا عمران خان سے کیونکر گوارا یا ہضم ہوتا؟ اس کا وہی نتیجہ نکلا جو نکلنا چاہیے تھا۔ دس گیارہ ماہ کے بعد ریحام خان نے ازدواجی زندگی کو خیرباد کہتے ہوئے اپنی راہ لی اور عمران خان ایک بار پھر اپنی سوچ، مزاج اور ارادوں کے ساتھ تنہا رہ گئے۔ 
کچھ دن پہلے پی ٹی آئی چیئرمین کے حوالے سے پھر یہ خبر آئی کہ وہ گھر بسانا چاہتے ہیں۔ کارکن ایک بار پھر حیران ہوئے کہ اگر گھر بسانے کا ارادہ ہے تو تحریکِ احتساب کا ڈول کیوں ڈالا جارہا ہے! پچھلی بار تو یہ ہوا تھا کہ عمران خان نے دھرنا ناکام ہونے پر گھر بسایا تھا۔ اب کے نئی بات یہ تھی کہ تحریکِ احتساب سے پہلے ہی شادی کی بات پھیلائی تاکہ کارکن اور چاہنے والے ذہنی طور پر تیار رہیں! 
قوم حیران ہے کہ ایک طرف تو حکومت کو ٹف ٹائم دینا ہے اور دوسری طرف گھر میں بھی ٹف ٹائم کا اہتمام کرنا ہے۔ جب تحریکِ احتساب چلانا ہی ٹھہرا تو شادی کو بیچ میں کیوں لایا جارہا ہے؟ مگر صاحب، کپتان ایسے ہی واقع ہوئے ہیں۔ وہ سیاسی پچ پر بھی اچانک کوئی ایسی ڈلیوری کراتے ہیں کہ مخالفین بیٹ تھامے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ تحریکِ احتساب کا ڈول ڈالا جاچکا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ قوم کے لیے زیادہ پریشانیاں پیدا نہ ہوں۔ ماحول کچھ ایسا ہے کہ بقول مومنؔ ؎ 
پھر ''بہار‘‘ آئی، وہی دشت نوردی ہوگی 
پھر وہی پاؤں، وہی خارِ مُغیلاں ہوں گے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں