دنیا بھر میں پروازوں کا سلسلہ جاری ہے مگر ساتھ ہی ساتھ خوف بھی خاصی بلندی پر پرواز کر رہا ہے۔ فضائی سفر میں زیادہ سے زیادہ سکیورٹی یقینی بنانا تمام متعلقہ اداروں ہی کا نہیں بلکہ طیارے کے عملے کا بھی فرض ہے۔ نائن الیون کے بعد صورتِ حال بہت پیچیدہ ہوچکی ہے۔ شدید خوف نے سب کے ذہن کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
کاک پٹ کریو (پائلٹ اور فلائٹ انجینئر وغیرہ) سے ہٹ کر جو عملہ مسافروں سے ڈیلنگ کا فریضہ انجام دیتا ہے اُسے کیبن کریو کہا جاتا ہے۔ کیبن کریو کو اب مسافروں سے ڈیلنگ کے معاملے میں لامحدود اختیارات سے نوازا جاچکا ہے۔ وہ کسی بھی مسافر سے ذرا سی بھی پریشانی محسوس ہونے پر اُسے طیارے سے اتار سکتے ہیں۔ اور اگر پرواز کے دوران اُنہیں کسی مسافر سے کوئی الجھن محسوس ہو تو لینڈنگ کے بعد اُس کے خلاف کارروائی بھی کروا سکتے ہیں۔
طیارے کو حادثہ پیش آنے کی صورت میں مکمل تباہی واقع ہوتی ہے اور عام طور پر طیارے میں سوار کوئی بھی فرد بچ نہیں پاتا اِس لیے ہر ایئر لائن چاہتی ہے کہ اُس کا ہر طیارہ مکمل طور پر محفوظ رہے۔ تکنیکی معاملات کو درست رکھنے کے ساتھ ساتھ بعد مسافروں کے حوالے سے غیر معمولی حد تک محتاط رہنے کو بھی دیگر اُمور پر ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ معاملہ، جو پہلے ہی بہت عجیب تھا، اب خاصی مضحکہ خیز صورت اختیار کرگیا ہے۔
اگر کوئی شراب کے نشے میں دُھت ہوکر طیارے میں سوار ہو گیا ہو یا ہو رہا ہو تو اُسے روکنا متعلقہ عملے کا فرض ہے اور ایسا کرنا ذرا بھی تعجب کی بات نہیں۔ کوئی بدمست ہوکر غل غپاڑا کرے تو ظاہر ہے کہ طیارے میں کوئی بھی اُسے برداشت نہیں کرے گا۔ اور کرنا چاہیے بھی نہیں۔
اِسی طرح اگر کوئی بے حد گرم اور بھڑکیلے مزاج کا ہو اور بات بات پر بھڑک اٹھتا ہو تو اُسے طیارے میں سوار ہونے سے روکنا یا پھر طیارے سے اتارنا کیبن کریو کا محض فرض نہیں، استحقاق بھی ہے۔ ایسی کسی بھی کارروائی پر کوئی اعتراض نہیں کیا جانا چاہیے۔
یہ تو ہوا کیبن کریو کی صوابدید کا معاملہ۔ مسافروں کی شکایت پر بھی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ مسافروں کی شکایت پر بھی کارروائی کی جاسکتی ہے مگر جواز ٹھوس ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے ایئر لائنز نے عجیب پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ اگر کسی مسافر کو اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے فرد کے حوالے سے معمولی سے بھی ''تحفظات‘‘ ہوں تو بلا جھجھک کیبن کریو کو طلب کرکے ''کارروائی‘‘ کرواسکتا ہے! اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ جب انسان طیارے میں سفر کر رہا ہوتا ہے تب اُس کے مزاج میں نزاکت کا گراف کس قدر بلند ہو جاتا ہے! معمولی سی الجھن بھی بحران دکھائی دیتی ہے۔
اب آپ ہی بتائیے کہ اگر کسی کے کپڑوں سے کوئی عجیب سی بُو آرہی ہو تو کیا اِس بنیاد پر اُسے آف لوڈ کردینا چاہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ ایئر لائنز نے جو قواعد اپنا رکھے ہیں ان کے تحت کوئی بھی مسافر اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے فرد سے کوئی عجیب بُو آنے پر اُس کے خلاف شکایت کرسکتا ہے۔ کیبن کریو صرف یہ دیکھتا ہے کہ وہ بُو کسی بیماری کا معذوری کا نتیجہ تو نہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو متعلقہ فرد کو آسانی سے آف لوڈ کیا جاسکتا ہے۔
ایک ایرانی نژاد امریکی وکیل کو طیارے سے محض اس لیے اتار دیا گیا کہ کچھ دیر قبل وہ ایک کیبن کریو ممبر سے ٹکراتے ٹکراتے بچا تھا! جی ہاں، ایسا ہی ہوا تھا۔ معاملہ یوں تھا کہ وکیل صاحب شیشوں سے بنے گھومنے والے دروازے سے نکل رہے تھے کہ سامنے ایک خاتون آگئیں۔ تقریباً تصادم کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ خیر گزری کہ تصادم نہ ہوا۔ مگر وکیل صاحب کے لیے کچھ زیادہ خیر نہ گزری۔ جن خاتون سے وہ ٹکراتے ٹکراتے بچے تھے وہ اُسی طیارے کی ایئر ہوسٹس تھیں جس میں وکیل صاحب سفر کرنے والے تھے!
چند ماہ قبل امریکا میں ایک مشہور ماڈل کو محض اس لیے طیارے سے اتار دیا گیا کہ اس نے ٹوائلیٹ استعمال کرنے کے بعد پانی سے ہاتھ دھونے کے بجائے ہینڈ واش لوشن استعمال کرلیا تھا اور یہ بات کیبن کریو کی ایک رکن کو بہت بُری لگی تھی!
امریکا اور یورپ میں پروازوں کا حال بُرا ہے۔ ہم تکنیکی معاملات کی نہیں، خالص انسانی امور کی بات کر رہے ہیں۔ طیاروں کے اندر ''معاشرتی‘‘ ماحول بُری طرح متاثر ہوچکا ہے۔ نائن الیون کے بعد کیبن کریو کو آخری لائن آف ڈیفینس کا درجہ مل چکا ہے۔ یعنی دہشت گردی یا کوئی اور گڑبڑ روکنے میں اُن کا کردار حتمی نوعیت کا ہے۔ ذرا سا شک ہونے پر کسی بھی مسافر کو طیارے پر سوار ہونے سے روکنا یا آف لوڈ کرنا کیبن کریو کی صوابدید کا معاملہ ہے۔ اگر کوئی مسافر کیبن کریو میں سے کسی کو گھور لے تب بھی کھلبلی سی مچ جاتی ہے۔ شمالی آئر لینڈ میں ایک مسافر کو محض اس لیے اتار دیا گیا کہ اُس نے طیارے میں سفر کے دوران تین بار لباس تبدیل کیا تھا۔ اُسے متعلقہ عملے نے ''ممکنہ ٹائم بم‘‘ قرار دیا تھا! چار ماہ قبل امریکا میں ایک عرب نژاد مسافر کو محض اس لیے طیارے سے اتار دیا گیا کہ اُس نے ٹیک آف سے قبل اپنے چچا کو بغداد فون کرکے گفتگو کی اور دو تین مرتبہ ''انشاء اللہ‘‘ کہا!
کئی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی پرواز کے دوران کوئی شخص عربی کی کوئی کتاب یا اخبار پڑھتا ہوا پایا گیا اور پھر جہاز کا عملہ شدید تشویش میں مبتلا پایا گیا! ایسے کئی مسافروں کو آف لوڈ کرنے کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔ اور تازہ ترین حد یہ ہے کہ چار پانچ دن قبل امریکا میں ایک پرواز کے دوران ایک مسلم مسافر کو چھینک آئی تو اُس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ بس، اتنا کافی تھا۔ زبان سے لفظ اللہ ادا ہونے پر ایک مسافر نے کیبن کریو کی توجہ دلائی اور متعلقہ مسلم مسافر کو الگ لے جاکر سوال جواب کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ اُس نے سمجھایا بھی کہ چھینک آنے پر اُس نے اللہ کا شکر ادا کیا تھا مگر جن کے دلوں میں نائن الیون کے سے واقعات کا خوف بیٹھ چکا ہے وہ کہاں آسانی سے سمجھنے اور ماننے والے تھے! خاصی حُجّت کے بعد اُس مسلم مسافر کو اُس کی سیٹ پر بیٹھنے دیا گیا۔
فضائی سفر کو محفوظ ترین قرار دیا جاتا ہے۔ جدید ترین آلات اور ٹیکنالوجیز کی مدد سے سیکیورٹی کا معیار قابلِ رشک اور ناقابل یقین حد تک بلند کیا جاچکا ہے۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ان جانے خوف کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر فلائٹ کریو اِس محفوظ ترین اور سُہانے سفر کو جہنّم کی گلیوں کے پھیرے لگانے کے مماثل بنانے پر تُلا ہوا ہے! مانا کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں مگر اب ایسا بھی نہیں ہے کہ کسی کا چھینکنا یا محض گھورنا کسی موت کا سبب بن جائے! ایسی کیفیت کے لیے حبابؔ ترمذی نے کہا ہے ؎
حبابؔ! ایسی بھی کیا بے اعتمادی
ڈبو دے گی ہمیں موجِ نَفَس کیا!