ویسے تو خیر دنیا بھر میں نئے آئیڈیاز پر کام ہوتا رہتا ہے مگر بعض افراد اور معاشرے ایسے انوکھے آئیڈیاز متعارف کراتے ہیں کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے۔ فلمی دنیا میں نئے آئیڈیاز کی غیر معمولی قدر ہے اور ٹی وی چینلز پر بھی۔ ان دونوں دنیاؤں میں جدت اور نُدرت کا بازار گرم رہتا ہے۔ قدم قدم پر نئی بات متعارف کرانے کے نام پر اوٹ پٹانگ حرکتیں جاری رہتی ہیں۔ بہت سے لوگ اِس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ٹی وی اور فلم کی دنیا شاید نئے آئیڈیاز کے نام پر لوگوں کو سکتے میں رکھنے کے لیے معرض وجود میں لائی گئی ہے!
اس میں تو خیر کوئی شک نہیں کہ نیا آئیڈیا متعارف کرانے میں شوبز کا جواب نہیں۔ یہی حال فیشن ڈیزائننگ کی دنیا کا ہے۔ فیشن کے نام پر جو اوٹ پٹانگ ملبوسات اور متعلقہ اشیا اس وقت مارکیٹ میں پائی جاتی ہیں وہ فیشن ڈیزائننگ کا تو کم اور evil designing کا زیادہ پتا دیتی ہیں!
اب ایسا لگتا ہے کہ جدت متعارف کرانے والوں کا دائرہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ماضی میں چند ممالک نے نئے آئیڈیاز متعارف کرا کے اپنی انفرادیت منوانے کی بھرپور کوشش کی تھی اور کچھ مدت تک تو کامیاب بھی رہے تھے۔ اب پھر چند ممالک اپنے خیالات کی انفرادیت منوانے کے لیے بے تاب ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ فرانس فیشن کے نام پر عجیب الوضع ملبوسات اور دوسری بہت سی اشیا مارکیٹ میں پھینک کر دنیا بھر میں فیشن کے متوالوں کو دیکھ دیکھ کر اپنی تفریح کا سامان کیا کرتا تھا۔ اب چند ایسے ممالک بھی مارکیٹ میں ہیں جن کے حوالے سے جِدّت کا زیادہ سوچا ہی نہیں جا سکتا۔ لاطینی امریکا کے ملک وینزویلا ہی مثال لیجیے۔ وینزویلا نے ایک انوکھا آئیڈیا متعارف کرا کے کچھ ایسا کرنے کی کوشش کی ہے کہ دنیا دیکھے تو دیکھتی رہ جائے اور سُنے تو انگشت بہ دنداں ہو اور جگر تھام لے۔ ملک میں توانائی کا بحران جب شدت اختیار کر گیا تو حکومت نے سوچا کچھ ایسا کیا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، بلکہ لاٹھی مزید مضبوط ہو جائے۔ توانائی کے بحران کو حل کرنے کا ایسا آئیڈیا رو بہ عمل لایا گیا ہے کہ عوام کی چاندی ہو گئی ہے۔ عوام کو زیادہ سے زیادہ سکھ دینے کی خاطر وینزویلا میں دو دن کا ہفتہ متعارف کرایا گیا! تمام سرکاری اور بہت سے نجی دفاتر ہفتے میں صرف دو دن کھلے رکھنے کا اہتمام کیا گیا اور پانچ دن کے آرام کو ''سِکّہ رائج الوقت‘‘ بنایا گیا! چند افسران کو اختیار دیا گیا کہ اگر وہ شدید ضرورت محسوس کریں تو ہفتے میں مزید دو دن چند گھنٹوں کے لیے دفتر آ سکتے ہیں۔
وینزویلا کے نائب صدر ایرستوبولو استوریز کہتے ہیں کہ ملک میں بجلی کا بحران خطرناک شکل اختیار کر گیا تو حکومت شدید پریشانی سے دوچار ہوئی۔ توانائی کی شدید قلِّت کے باعث پورے ملک کو توانائی کی بچت کا عملی سبق دینے کے لیے حکومت نے کام کی مقدار گھٹانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس اقدام کی غایت یہ تھی کہ توانائی کی زیادہ سے زیادہ بچت ممکن ہو اور گھریلو استعمال کے لیے ضرورت کے مطابق بجلی فراہم کی جا سکے۔
آپ سوچیں گے یہ کیا بات ہوئی کہ توانائی کا بحران ختم کرنے کے نام پر ملک بھر کے لوگ مزے کرنے لگے۔ غریب ممالک کے بھی اپنے طریقے اور چونچلے ہوا کرتے ہیں۔ حالات بہتر بنانے کے لیے زیادہ توانائی پیدا کرکے زیادہ کام کرنے کے بجائے دفاتر اور فیکٹریاں ہی ہفتے میں پانچ دن بند رکھنے کا اہتمام کیا گیا۔ اگر مزے کرنے کی یہی سبیل ہے کہ ہر معاشرے کے لوگ توانائی کے بحران کی دعا کرنے لگیں گے!
ناانصافی کا ارتکاب ہو رہا ہو تو کوئی بھی جذباتی اور مشتعل ہو سکتا ہے۔ آپ کی طرح ہمیں بھی اب تک ہفتے میں کم از کم 6 دن کام کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے میں ہم، آپ مشتعل اور کسی حد تک مایوس ہوں تو اِس میں حیرت کی کیا بات ہے! ہمارے اور آپ کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ وینزویلا بہت دور ہے۔ اگر کسی پڑوسی ملک میں کام گھٹانے کا نظام لایا گیا ہوتا تو بوریا بستر لپیٹ کر اُس طرف کو نکل لینا چنداں دشوار نہ تھا! کام سے بچنے کے لیے وینزویلا جیسے دور افتادہ ملک کی راہ لینا بجائے خود ایک کام ہے۔
وینزویلا وہی ملک ہے جس کے صدر ہوگو شاویز نے امریکا کو للکارنے میں ذرا بھی باک محسوس نہیں کیا تھا۔ کہاں امریکا اور کہاں وینزویلا؟ مگر پھر بھی شاویز نے چاہا کہ واحد سپر پاور کی زیادتیوں کے آگے بند باندھا جائے۔ ایران نے کسی حد تک ان کا ساتھ دیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب لاطینی امریکا اور دیگر خطوں کے ممالک کے درمیان اتحاد کے قیام کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دی۔ پھر امریکا اور یورپ نے متحرک ہو کر پس ماندہ ممالک کے اتحاد کے تمام امکانات کمزور کر دیے۔ پہلے تو وینزویلا نے امریکا اور دیگر بڑی طاقتوں سے ٹکرانے کی کوشش کی اور اب وہ قدرت کے نظام سے متصادم ہو رہا ہے۔ قدرت نے ہفتے میں ایک دن آرام کا رکھا ہے مگر وینزویلا کی حکومت نے ہفتے میں پانچ دن کے آرام کا نظام متعارف کرا کے کام کی دنیا میں ''انقلاب‘‘ برپا کر دیا ہے۔
ویسے ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ کام کی مقدار گھٹانے کا ایسا شاندار ''آفیشل‘‘ طریقہ ہم سے پہلے وینزویلا کی قیادت کو کیسے سُوجھ گیا؟ کام سے بچنے، زیادہ کام اپنے سَر نہ لینے اور سَر پر آن پڑے تب بھی کام نہ کرنا تو ہمارا وتیرہ رہا ہے۔ ہم نے بارہا اہل جہاں کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ کام کے بغیر یہ بھی دنیا چلائی جا سکتی ہے! مگر صاحب ؎
کون سنتا ہے فغانِ درویش
اور وہ بھی بزبانِ درویش!
ہم نے چیخ چیخ کر آسمان سَر پر اٹھا لیا کہ زیادہ کام کرنا صحت کے لیے ٹھیک نہیں‘ اور یہ کہ زیادہ کام کرنے سے ذہن کوئی نئی بات سوچنے کے قابل رہا ہی نہیں مگر ہماری بات کوئی کیوں دھیان دینے لگا؟ اب وینزویلا نے کام کی مقدار ''معقول‘‘ حد تک گھٹا کر ایک نیا ''ورکنگ ورلڈ‘‘ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے تو سبھی متوجہ ہوئے ہیں، وینزویلن قیادت کو خوب سراہا جا رہا ہے۔
دنیا مانے یا نہ مانے مگر ''خوشگوار‘‘ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں خاصا کم کام کرکے بھی سب کچھ قابل قبول ڈھنگ سے چلایا جاتا رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب بھی ہم دنیا بھر میں رات دن کام کرکے زندگی کا معیار بلند کرنے والوں کے بارے میں سنتے ہیں تو حیرت بھی ہوتی ہے اور اُن پر ترس بھی آتا ہے! جب زیادہ کام سے واضح گریز کے ذریعے بھی خاصی پُرسکون زندگی بسر کی جا سکتی ہے تو پھر دل و دماغ کو زیادہ رگڑا دینے کی کیا ضرورت ہے؟
وینزویلا کے سرکاری دفاتر میں دو دن کا ہفتہ متعارف کرائے جانے پر دنیا بھر میں حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ہمیں اس بات پر حیرت ہے کہ ہمارے ہاں سرکاری دفاتر میں بغیر کام کا ہفتہ کب کا متعارف کرایا جا چکا ہے مگر دنیا والے ذرا بھی متوجہ نہیں ہوئے! یہ تو معاملہ ہی اُلٹا ہو گیا۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
ہم آہ بھی بھرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
اور یہاں حال یہ ہے کہ وہ آہ بھی بھریں تو ہر طرف زندہ باد اور مبارک مبارک کا شور مچ جاتا ہے اور ہم اگر ''قتل‘‘ بھی کر بیٹھیں تو ذرا سا بھی چرچا نہیں ہوتا! وینزویلا کے 2-day week اور ہمارے workless week میں فرق اگر ہے تو بس اتنا کہ وہاں باضابطہ، سرکاری طور پر اعلان کی زحمت گوارا کی گئی ہے جبکہ ہمارے ہاں سب کچھ ''سینہ گزٹ‘‘ کی طرز پر غیر اعلانیہ انداز سے جاری ہے! دنیا بھر میں کام پر اِتنا زور دیا جا رہا ہے کہ وہ وقت دور نہیں لگتا جب لوگ کام سے تنگ آ جائیں گے اور جب وہ پاکستان جیسے معاشروں پر نظر دوڑائیں گے تو اپنی ''حماقت‘‘ کا پوری شدت سے احساس ہو گا اور کام کو سات سلام کرکے وہ ہماری ہی صف میں آ کھڑے ہوں گے! دُنیا کو اگر آنکھیں ملی ہیں تو دیکھے کہ ہم کام نہ کرکے بھی کس ''شان‘‘ اور ''مزے‘‘ سے زندہ ہیں! وینزویلا کی قیادت عجلت کا شکار ہو گئی اور لوگوں کو دو دن کام کرنے کا پابند کر دیا۔ ایک آدھ وفد پاکستان بھیجا ہوتا اور ہم سے کچھ سیکھا ہوتا تو ہفتے میں دو دن کا تکلّف کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہ ہوتی!