"MIK" (space) message & send to 7575

… پسِ آئینہ کوئی اور ہے!

نواز شریف صحت کے محاذ پر سنبھلے ہی ہیں کہ چوہدری نثار علی خان کی مہربانی سے کارزارِ سیاست میں ایک نیا محاذ کھل گیا ہے۔ چوہدری نثار کی مہربانی سے پہلے بھی بہت کچھ ہوتا رہا ہے مگر اب کے پیپلز پارٹی کو کچھ زیادہ موقع مل گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ پورے ملک میں ہو رہا ہے وہ چوہدری نثار کی ذات میں غیر معمولی حد تک جمع ہوگیا ہے۔ آپ سوچیں گے پورے ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ آپ نے ملک بھر میں کسی کو اپنا کام ڈھنگ سے کرتے دیکھا ہے؟ نہیں نا؟ اور ہر شخص اپنا کام چھوڑ کر کوئی دوسرا ہی کام کر رہا ہے یا ایسا کرنے کے لیے بے تاب ہے؟ یہی بات ہے نا؟ ہمیں یقین ہے کہ آپ کا اثبات میں ہوگا۔ چوہدری نثار علی خان بھی خود کو پاکستانی ثابت کر رہے ہیں۔ 
ملک میں کہیں بد امنی ہے اور کہیں جرائم کے گراف کی بلندی۔ ایسے میں ملک کے وزیر داخلہ کو کیا کرنا چاہیے؟ ظاہر ہے، معاملات درست کرنے پر خاطر خواہ توجہ دینا چاہیے۔ مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ اِس کے برعکس ہے۔ ایک طرف مخالفین منتخب حکومت کو قومی ایکشن پلان کے حوالے سے سُست روی پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور دوسری طرف چوہدری نثار علی خان وزیر داخلہ کی حیثیت سے امن کی بحالی اور جرائم کے خاتمے پر توجہ دینے کے بجائے ڈاکٹر عاصم حسین اور ایان علی کی بات کرکے پینڈورا بکس کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں! 
کوئٹہ کے سول ہسپتال میں بم دھماکا ہوا تو ملک ہل گیا۔ مگر وزیر داخلہ کی بات کیجیے تو کہنا پڑے گا کہ ککھ نہ ہلیا! وزیر اعظم اور آرمی چیف نے کوئٹہ پہنچ کر زخمیوں کی عیادت کی اور جاں بحق ہونے والے وکلاء اور دیگر افراد کے پس ماندگان کو دلاسا دیا۔ میڈیا والے ہی نہیں بلکہ عوام بھی ڈھونڈتے ہی رہ گئے مگر وزیر داخلہ کہیں دکھائی نہ دیئے۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف کا آنا بہت اچھی بات سہی مگر یہ موقع تو وزیر داخلہ کا تھا۔ اُن کا کوئٹہ میں رُونما ہونا اِس بات کی دلیل ہوتا کہ وہ امن و امان کے حوالے سے سنجیدہ ہیں اور کچھ کر دکھانا چاہتے ہیں۔ 
پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر مولا بخش چانڈیو کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نے آستین میں سانپ پال رکھے ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ڈاکٹر عاصم حسین اور ایان علی کے حوالے سے جو کچھ چوہدری نثار کہہ رہے ہیں وہ بہت حد تک ذاتی نوعیت کی باتیں ہیں اور سابق صدر آصف زرداری کی ذات پر حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔ چوہدری نثار کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے حکومت یعنی ن لیگ سے صلح کی شرط یہ تھی کہ ڈاکٹر عاصم حسین اور ایان علی پر سے مقدمات ختم کرکے اُنہیں بری کرایا جائے! 
سوال یہ نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی کیا چاہتی تھی یا کیا چاہتی ہے۔ عوام تو یہ جاننے کے لیے بے تاب ہیں کہ ملک بھر میں امن کی بحالی اور جرائم کے خاتمے کے حوالے سے وزیر داخلہ کے پاس کون سا منصوبہ ہے، کون سا روڈ میپ ہے یعنی وہ کیا چاہتے ہیں اور کچھ چاہتے بھی ہیں یا نہیں؟ 
صورتِ حال ایسی عجیب ہے کہ ہر شخص مشکوک دکھائی دیتا ہے۔ جس کی کارکردگی کا ذرا غور سے جائزہ لیجیے وہ آرڈر پر مال تیار کرتا ہوا ملتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیے چوہدری اعتزاز احسن اور ن لیگ کے لیے چوہدری نثار علی خان بہت حد تک ''پرسنا نان گراٹا‘‘ کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ دونوں جماعتوں کی قیادت سے اب تک طے نہیں ہو پایا کہ اعتزاز احسن اور چوہدری نثار کس کا کہا مانتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ اعتزاز اپنی پارٹی سے الگ، کسی اور ہی فضاء میں سانس لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ پارٹی کی مرکزی پالیسی خواہ کچھ ہو، اعتزاز احسن کی پالیسی سمجھ میں نہیں آتی۔ بے نظیر بھٹو کے آخری دور میں تو اعتزاز احسن ان کی گڈ بک میں شامل نہیں تھے۔ 2007 ء میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا صدر منتخب ہونے کے بعد جب بینظیر بھٹو نے مبارک باد دینے میں ذرا تاخیر کی تو اعتزاز احسن نے خاصے تلخ لہجے میں میڈیا کی معرفت شِکوہ کیا تھا۔ 
یہی حال چوہدری نثار کا ہے۔ نواز شریف کے لیے اس مرتبہ وزارتِ عظمیٰ ابتداء ہی سے خاصی دشوار گزار گھاٹی ثابت ہوتی آئی ہے۔ ایسے میں چوہدری نثار کا اُن کی کابینہ میں رہنا اور اپنی مرضی کے مطابق کام کرنا اور بھی عجیب لگتا ہے۔ متعدد مواقع پر وزیر اعظم اُن کے وارداتی اندازِ کار سے خاصے بے مزا ہوئے ہیں۔ اُن کے جاں نثار اور مخالفین دونوں ہی سمجھ نہیں پائے ہیں کہ آخری ایسی کیا مجبوری ہے کہ چوہدری نثار کو وزیر داخلہ جیسے اہم منصب پر فائز رکھا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے مجبوری میں اور بہت سے لوگوں کو بھی گلے لگا رکھا ہے مگر ایسے لوگوں کو کس حد تک دور رکھنا ہے یہ بھی تو اہمیت رکھتا ہے۔ وزیر اعظم نے پوری وسعتِ قلب سے قبول نہ کی جانے والی شخصیت کو وزارتِ داخلہ دے رکھی ہے۔ اور اُس وزارت کو بھی خاصے متنازع انداز سے چلایا جارہا ہے۔ ؎ 
یہ کیسی عجب داستاں ہو گئی ہے 
چُھپاتے چُھپاتے بیاں ہو گئی ہے! 
چوہدری نثار اب تک ذاتی نوعیت کی لڑائی لڑنے میں مصروف دکھائی دیئے ہیں۔ کابینہ کی مجموعی فضا خواہ کچھ ہو، چوہدری نثار اپنے لیے ایک الگ دنیا بسانے اور اُسی میں زندگی بسر کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ 
عوام مجبور ہیں کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا محسوس کریں، تشویش میں مبتلا ہوں۔ وہ چوہدری نثار کے لب ہائے شیریں سے اُن اقدامات کے بارے میں کچھ نہ کچھ سُننا چاہتے ہیں جو امن کی بحالی اور جرائم کے سدِ باب کے لیے کیے جارہے ہیں یا کیے جانے والے ہیں۔ مگر وہ تو جب لب کُشا ہوتے ہیں، کوئی اور ہی کہانی سُنا رہے ہوتے ہیں! 
پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان معاملات خواہ کچھ ہوں، عوام کو اپنے مسائل سے غرض ہے۔ ایک طرف تو وہ بنیادی مسائل کا حل چاہتے ہیں یعنی پانی، بجلی، گیس کی فراہمی یقینی بنائے جانے کے خواہش مند ہیں اور دوسری طرف اُنہیں صحت اور تعلیم کے ساتھ ساتھ پُرامن ماحول بھی چاہیے۔ کراچی میں جرائم پیشہ اور دہشت گرد عناصر کو ختم کرنے کے لیے اپنا جانے والا امتیازی طریقِ کار بہت سے مثبت اثرات کے ساتھ ساتھ منفی اثرات بھی مرتب کر رہا ہے۔ رینجرز کو صرف کراچی کی حد تک آپریشن کے اختیارات دے کر دِلوں میں فاصلے بڑھانے کی راہ مزید ہموار کی گئی ہے۔ معاملات صرف کراچی کی حد تک خراب نہیں۔ سندھ کے دیگر اور بالخصوص اندرونی علاقوں میں بھی عوام جرائم پیشہ عناصر اور کرپشن سے عاجز آئے ہوئے ہیں۔ اُنہیں بنیادی سہولتیں بھی ڈھنگ سے میسّر نہیں۔ 
ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اُسے دیکھتے ہوئے ''سب اچھا ہے‘‘ کا راگ الاپا نہیں جاسکتا۔ ایک طرف عمران خان اِس بات پر تُلے ہوئے ہیں کہ حکومت کو بہتر انداز سے چلنے ہی نہ دیا جائے اور دوسری طرف حکومت کی اپنی صفوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو خرابیوں کو مزید مستحکم اور نتیجہ خیز بنانے پر کمر بستہ ہیں۔ ع 
جیسے دُہری دھار کا خنجر چلے! 
پیپلز پارٹی نے حکومت کو گِرانے کی کسی کوشش میں اب تک تو فعال کردار ادا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جب عملاً معاملات اِس حد تک درست ہیں تو پھر کون سی اصلاح کی بات ہو رہی ہے؟ لوگ حیران ہیں کہ چوہدری نثار پر داخلی سلامتی سے متعلق کچھ کہنے کے بجائے ڈاکٹر عاصم حسین اور ایان علی کے بارے میں کچھ کہنے کا جُنون کیوں سوار ہوا؟ اِن دونوں کے معاملات سے وزیر داخلہ کا کیا تعلق؟ اگر ڈاکٹر عاصم کے ہسپتال میں دہشت گردوں کے مبینہ علاج کا معاملہ ہے بھی تو بات اب عدالت تک جاچکی ہے۔ اور کیا پیپلز پارٹی کی قیادت اب اِتنی گئی گزری ہوگئی ہے کہ اِن دونوں کی بریت کے نام پر ڈیل کرے! سوا تین سال کے دوران کئی موقع پر حکومت اِتنی vulnerable ہوگئی تھی کہ پیپلز پارٹی چاہتی تو اپنی مرضی کی ڈیل کرکے تھوڑے بہت اضافی مزے بٹور سکتی تھی۔ 
جمہوریت کی بقاء اِس میں ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں اپنی صفوں سے ایسے لوگوں کو نکال باہر کریں جو بظاہر پارٹی میں ہوتے ہوئے بھی کسی اور کو دِل دے بیٹھے ہیں۔ ڈور ہِلائے جانے پر ہلتے ہیں اور آرڈر ملتے ہی مال تیار کرنے لگتے ہیں! وہ کیفیت ختم ہونی چاہیے جسے بیان کرنے کے لیے سلیم کوثر کے مطلع کا سہارا لینا پڑے ؎ 
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے 
سرِآئینہ مِرا عکس ہے، پسِ آئینہ کوئی اور ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں