"MIK" (space) message & send to 7575

پہلے دل تو پیدا کیجیے!

 ویسے تو خیر یہ پورا دور ہی عجیب الوضع اور عجیب الخلقت ہے مگر اِس عہدِ ستم ظریف کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ کسی ایک مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کیجیے تو اُس کی کوکھ سے مزید مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی مسائل کی پیدائش جاری رہتی ہے، معاملات مزید الجھتے جاتے ہیں۔ نئے مسائل کے لیے نئے حل تجویز کیے جاتے ہیں۔ اور جس تجویز پر بھی عمل کیا جاتا ہے اُس کی کوکھ سے مزید مسائل برآمد ہوتے ہیں۔ مگر خیر، اِس دور پر کیا موقوف ہے؟ دنیا کا کارخانہ تو اِسی طور چلتا آیا ہے اور چل رہا ہے۔ 
انسان کو کس طور چلنا پھرنا چاہیے، کیا کھانا پینا چاہیے اور سونے جاگنے کے معمولات کس طور انجام دیئے جانے چاہئیں یہ سب ماہرین کے پسندیدہ تختہ ہائِ مشق ہیں۔ ہم عہدِ عتیق کے لوگوں کی بدنصیبی پر روتے ہیں کہ اُنہیں معلوم ہی نہ تھا کہ زندگی کس طور بسر کرنی چاہیے۔ ماہرین تو اُس زمانے میں تھے نہیں جو اُنہیں بتاتے کہ کب کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے! 
جدید طبی تحقیق کی روشنی میں بتایا گیا ہے کہ گھر میں یا دفتر میں جو لوگ زیادہ دیر بیٹھے رہتے ہیں اُن کے پیروں میں دورانِ خون شدید متاثر ہوتا ہے۔ خون کی گردش میں خلل واقع ہونے سے دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کا ایک ''کام چلاؤ‘‘ حل تو یہ ہے کہ آپ جہاں بھی بیٹھے ہوئے ہوں وہاں پاؤں کے انگوٹھے اور پاؤں ہلاتے رہیے۔ اور جب تھوڑی بہت گنجائش پیدا ہو تو چل پھر لیجیے۔ ہر دو ڈھائی گھنٹے بعد پندرہ بیس منٹ کی چہل قدمی لازم ہے تاکہ پورے جسم کا دورانِ خون درست رہے۔ 
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ بیٹھے رہنے سے معمر افراد میں دل کے دورے کا خطرہ خاصا بڑھ جاتا ہے اور وہ قبل از وقت دل کے جان لیوا دورے کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ پڑے پڑے پتھر ضرور بھاری ہو جاتا ہے مگر انسان کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ اگر کام نہ کرے اور پڑا رہے تو سمجھ لیجیے گیا کام سے! زندگی تحرّک اور تحریک کا نام ہے۔ کائی صرف رُکے ہوئے پانی پر جمتی ہے۔ یعنی اگر موت کو ٹالنا ہے تو متحرک رہیے۔ 
ہم جب بھی صحت کے حوالے سے تازہ ترین تحقیق کے نتائج اور محققین کے مشورے پڑھتے ہیں، سہم اُٹھتے ہیں اور ہماری تشویش کا گراف بلند ہو جاتا ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ جدید ترین تحقیق کے مطابق دیئے گئے مشوروں پر عمل کیجیے تو وہی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جسے بہت آسان الفاظ میں ماروں گھٹنا پُھوٹے آنکھ کہا جاتا ہے! کمر کا درد دور کرنے کی کوشش کیجیے تو درد کہیں جاتا واتا نہیں ہے، صرف جگہ بدلتا ہے یعنی پیٹ میں گھس جاتا ہے یا پھر ٹانگوں میں آ بیٹھتا ہے! اگر وزن کم کرنے کی ٹھانیے اور ماہرین کے مشوروں کی روشنی میں کھانا پینا کم کرکے ورزش کا دورانیہ بڑھائیے تو جسم میں پتا نہیں کیا کیا بڑھنے اور پھیلنے لگتا ہے اور پھر اُسے گھٹانے کی کوشش کیجیے تو پیچیدگیاں ختم ہونے کے بجائے صرف مقام بدلتی جاتی ہیں! درد خوشی سے اِدھر اُدھر ہوتا رہتا ہے کہ ع 
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں! 
جدید خطوط پر تحقیق کرنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ کچھ بتائیں گے تب ہی ہم کچھ سیکھ اور کر پائیں گے۔ ایسا نہیں ہے۔ جو کچھ تحقیق کی روشنی میں ثابت کیا جارہا ہے وہ ہم بہت پہلے ثابت کرچکے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بیماریوں سے بچنے کے لیے بہت دیر تک بیٹھے مت رہیے بلکہ متحرّک رہیے۔ دور کیوں جائیے، ہمارے اپنے یعنی بقلم خود ٹائپ کے ذاتی حلقۂ احباب میں بھی ایسے لوگ ہیں جو ماہرین کے اِس مشورے پر اِس (مشورے) کی پیدائش سے بہت پہلے سے عمل پیرا ہیں۔ مرزا تنقید بیگ اور اُن کے قبیل کے دیگر افراد نے یہ سب بہت پہلے جان لیا تھا یا بھانپ گئے تھے کہ بیٹھے رہنے سے بہت سی خرابیاں جسم اور مزاج کی جڑ میں بیٹھ جاتی ہیں! ہم نے جب بھی مرزا کے دفتر میں قدم رکھا ہے، اُنہیں اُن کی نشست پر نہیں پایا۔ کبھی وہ کینٹین میں پائے گئے ہیں اور کبھی ٹیریس سے برآمد ہوئے ہیں! کبھی کبھی تو یہ بھی ہوا ہے کہ ہم اُن سے ملنے پہنچے اور ''تلاش گم شدہ‘‘ کی مہم شروع کرواکے آدھا پونا گھنٹہ انتظار کیا تب کہیں جاکر دفتر کے چپڑاسی کو اُن کا سُراغ مل پایا! ہم نے جب بھی مرزا سے نشست پر نہ ہونے کا سبب پوچھا تو اُنہوں نے یہی کہا کہ زیادہ دیر بیٹھے رہنے سے بے چینی پیدا ہوتی ہے اور جسم و جاں میں اضمحلال انگڑائیاں لینے لگتا ہے! اِس کے جواب میں ہم نے ہمیشہ یہی عرض کیا ہے کہ جناب! یہ سب کچھ تو آپ ہی کے بقول زیادہ دیر بیٹھے رہنے سے ہوتا ہے ... مگر واقعہ، بلکہ مستقل نوعیت کا واقعہ یہ ہے کہ آپ تو کبھی اپنی نشست پر بیٹھے پائے ہی نہیں گئے! اِس کے جواب میں مرزا نے ہمیشہ یہی فرمایا ہے کہ گربہ کشتن روزِ اوّل یعنی پہلے مرحلے ہی میں معاملے کو ٹھنڈا کردو! 
ہماری حسرت ہی رہی ہے کہ کبھی مرزا کسی کام کے حوالے سے بھی گربہ کشن روزِ اوّل والی کیفیت پیدا کرکے دکھائیں! اُن کا گربہ کشتن روزِ اوّل والا رویّہ صرف آرام تک محدود رہنے کی قسم کھاکر آیا ہوا معلوم ہوتا ہے! 
ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں اُس میں سب کچھ خلط ملط ہوچکا ہے۔ ہر طرف وحشت ہے، بے حواسی ہے، بے قراری ہے۔ اور آپ نے بھی سُنا تو ہوگا کہ ؎ 
وحشت میں ہر اِک نقشہ اُلٹا نظر آتا ہے 
مجنوں نظر آتی ہے، لیلٰی نظر آتا ہے! 
اب تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آرام کو زندگی کی سب سے بڑی اور ابدی حقیقت کی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے اُس کے آگے سرِ تسلیم خم کیا جاچکا ہے اور کام وام کو طاقِ نسیاں کی نذر کردیا گیا ہے یا پھر کسی اور زمانے کے کھاتے میں ڈال کر کھاتا بند کردیا گیا ہے! اور جب کام کا معاملہ داخلِ دفتر کیا جاچکا ہے تو کیسا کام، کہاں کا کام؟ 
دنیا بھر میں اُصول یہ ہے کہ اگر کام زیادہ کیا جائے تو طبیعت میں اضمحلال پیدا ہوتا ہے جسے دور کرنے کے لیے آرام ناگزیر ہے۔ یہاں عالم یہ ہے کہ پہلے تو کام سے یکسر گریز کے ذریعے جسم و جاں کو اضمحلال اور وحشت کی نذر ہونے دیا جاتا ہے اور پھر جب معاملات ہاتھ سے جاتے دکھائی دینے لگتے ہیں تو بحالی و تقویتِ جسم و جاں کی خاطر کام کو مکمل طور پر خیرباد کہتے ہوئے آرام کا دورانیہ بڑھا دیا جاتا ہے! 
69 سال کسی بھی قوم کی زندگی میں کچھ بھی معنی نہیں رکھتے۔ اقوام کی تشکیل و تہذیب صدیوں کے عمل کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ ہم نے مملکتِ خدادادِ پاکستان کے قیام کے بعد سے اب تک یعنی 69 برس میں اور کچھ جانا ہو یا نہ جانا ہو، اِتنا ضرور جان لیا ہے کہ کام نہ کرکے یا بہت ہی کم کام کرکے بھی زندگی بہر حال بسر کی جاسکتی ہے! اور جب کام کے بغیر زندگی بسر ہو ہی جاتی ہے تو جسم و جاں کو کام کا روگ لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے خوب کہا ہے ؎ 
بُری اور بھلی سب گزر جائے گی 
یہ کشتی یونہی پار اُتر جائے گی 
اور صاحب! یہ ماہرین ہلنے جلنے کا مشورہ اِس لیے دے رہے ہیں کہ ہم امراضِ قلب سے بچے رہیں۔ ہم نے بہت سوں کو دل کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی پریشان ہوتے دیکھا ہے۔ اگر سینے کے پنجرے میں بند گوشت کے لوتھڑے کی بات کیجیے تو ٹھیک ہے ورنہ اب دل ہے کہاں؟ سیمابؔ اکبر آبادی نے خوب کہا ہے ؎ 
دُعا دِل سے جو نکلے کارگر ہو 
یہاں دِل ہی نہیں، دِل سے دُعا کیا! 
بہت دیر بیٹھے رہنے سے دِل کو یقیناً امراض لاحق ہوتے ہوں گے مگر جناب! پہلے کہیں سے دِل تو پیدا کیجیے! ؎ 
کہیں سے پیدا کرو اُس جوان کو یارو! 
وہ کہہ رہے ہیں عدمؔ کی بڑی ضرورت ہے!! 
سینے کے اندر گوشت کا پھیلتا سُکڑتا لوتھڑا اپنا کام کر بھی رہا ہو یعنی خون کی متوازن پمپنگ ممکن بنا رہا ہو تب بھی کیا حاصل اگر وہ دوسروں کا درد نہ رکھتا ہو اور دِل قرار دیئے جانے کے شرف سے ہمکنار نہ ہو! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں