"MIK" (space) message & send to 7575

حیوانات کو بخش دیا جائے

جدت اور ندرت کا بازار گرم ہے، مگر صرف مغرب میں۔ اہلِ مغرب نے قسم کھا رکھی ہے کہ کسی بھی معاملے کو تحقیق کی چُھری سے ذبح کیے بغیر سُکون سے نہیں بیٹھنا ہے۔ جن معاملات کے بارے میں ہم نے ابھی سوچنا بھی شروع نہیں کیا ان پر وہ دادِ تحقیق دیتے دیتے تھک چکے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اب اُن کے لیے اصل مسئلہ تحقیق نہیں بلکہ تحقیق کے لیے دلچسپ موضوعات کی تلاش کا ہے۔ مفید و غیر مفید کی بحث ایک طرف رہی۔ اب تو بس موضوع تگڑا ہونا چاہیے یعنی اُس کی ''ریٹنگ‘‘ اچھی آنی چاہیے! 
جب بہت کچھ کیا جاچکا ہو تو کرنے کو بہت کم رہ جاتا ہے۔ انسانوں پر تحقیق کرتے کرتے مغرب کے ماہرین اب حیوانات کی طرف مڑگئے ہیں یعنی جس عذاب اور پریشانی سے اُنہوں نے انسانوں کو دوچار کر رکھا ہے اس کا احساس حیوانات کو بھی دلانا چاہتے ہیں! اس ٹرینڈ سے اور تو کیا ہونا تھا، بس یہ ہے کہ افریقا اور امیزون کے جنگلوں میں بے چارے بے زبان جانوروں کا سکون غارت ہوکر رہ گیا ہے۔ انسانوں سے اپنا خاندانی نظام تو سنبھالا نہیں گیا۔ اب جنگلوں میں شیروں، بندروں، ہاتھیوں، گینڈوں اور ہرنوں وغیرہ کے ''خاندانی نظام‘‘ اور معاشرت پر تحقیق فرمائی جارہی ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ ایک ہی نسل کے جانور آپس میں درد کا رشتہ رکھتے ہیں یا نہیں، محققین کئی کئی ماہ جنگلوں میں رہتے ہیں، رات دن مووی بناتے رہتے ہیں۔ اِس صورتِ حال سے جانور بے چارے پریشان رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ہر معاملہ دو نمبر ہے۔ جہاں لکھا ہوتا ہے کہ کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے وہاں کیمرا نہیں ہوتا۔ مگر جنگل میں ایسا نہیں۔ وہاں کسی کے ہاتھ میں کیمرا ہے تو واقعی ہے اور مووی بھی بنائی جاتی ہے۔ بے چارے جانوروں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیمرے کی آنکھ سے کیسے بچیں۔ ع 
سمجھ میں کچھ نہیں آتا، سُکوں پانے کہاں جائیں؟ 
بات یہیں تک رہتی تو ٹھیک تھا۔ جنگلی جانور اب زیادہ پریشان ہیں کیونکہ ان پر تحقیق کرتے کرتے محققین اُن کا روپ دھارنے پر بھی تُل گئے ہیں۔ برطانوی سائنس دان ٹامس تھویٹس نے کچھ ایسا ہی کر دکھایا ہے۔ تھویٹس کو پتا نہیں کیا ہوا کہ اپنے آپ کو بکرا بنایا اور پہاڑی بکروں سے جا ملے۔ انہوں نے چار خصوصی ٹانگیں بنوائیں، بکرے کی کھال جیسا خول سِلوایا اور بکرے کا ماسک بھی تیار کرایا۔ تھویٹس نے بکرے کی ٹانگوں سے مشابہہ ٹانگوں میں اپنے ہاتھ پاؤں فٹ کیے، بکرے کی کھال جیسا خول پہنا اور ''بکرانہ‘‘ ماسک لگاکر الپس کی پہاڑیوں پر بکروں کے ایک ریوڑ میں تین دن گزارے۔ بکروں کے ساتھ انہوں نے گھاس چرنے کی اداکاری بھی کی اور بعض درختوں اور پودوں کے پَتّے بھی چبائے۔ 
تھویٹس نے بکروں کے ریوڑ میں جو تین دن گزارے اُن کے حوالے سے ایک کتاب (کس طرح میں نے انسان بننے کے کام سے چُھٹّی لی) بھی لکھی۔ تھویٹس کو اس تجربے پر آئی بی نوبیل انعام بھی دیا گیا ہے۔ تھویٹس کہتے ہیں کہ یہ تین دن محض شُغل میلے اور دل پشوری کے نہ تھے بلکہ وہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ہمیں جانوروں سے پیار کرنا چاہیے۔ 
ہم نہیں جانتے کہ تھویٹس نے ریوڑ میں تین دن گزار کر بکروں سے کیا سیکھا۔ اور اب تک یہ بھی واضح نہیں کہ بکروں نے کیا سیکھا! ویسے اگر بکروں کو زبان عطا کی گئی ہوتی تو وہ انسانوں کے سامنے گِڑگِڑاکر اتنا ضرور کہتے کہ ایسے تجربات کے ذریعے ہماری پُرسکون زندگی میں خلل ڈالنے سے گریز کیا جائے! انسانوں میں ایسی کون سی اچھی خصلت باقی بچی ہے کہ جانور اُنہیں دیکھ کر کچھ سیکھیں؟ ایمان داری کی بات یہ ہے کہ اب حیوانات سے اظہارِ ہمدردی کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اُن سے دور رہا جائے! 
دنیا بھر کے ماہرین کامیاب زندگی کے بارے میں تحقیق کا بازار گرم رکھے ہوئے ہیں۔ وہ جس ''پیس آف مائنڈ‘‘ کی بات کرتے ہیں وہ حیوانات میں بہ درجۂ اتم پایا جاتا ہے۔ نظم و ضبط
اور اعتدال پسندی جس قدر حیوانات میں ہے، انسانوں میں اُس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پیٹ بھر جانے پر وہ کبھی نہیں کھاتے یعنی ''اوور ایٹنگ ڈِزآرڈر‘‘ (بدہضمی) کو قریب پھٹکنے بھی نہیں دیتے! سونے کا اور جاگنے کے اوقات طے نہیں۔ جنگل میں آپ کو کہیں بھی ''کوئٹہ پشین ہوٹل‘‘ نہیں ملے گا جہاں جانور رات گئے تک بیٹھ کر ''جھونکا مار‘‘ انداز سے بتیاتے ہوئے پائے جائیں! 
غرض یہ کہ حیوانات کی دنیا میں ایسا بہت کچھ ہے جو ہم اپنائیں تو واقعی اشرف المخلوق ہوجائیں! مگر اے وائے ناکامی کہ ایسا نہیں ہوتا۔ جو لوگ جنگلوں میں اور درندوں اور سبزی خور حیوانات کے درمیان کئی کئی ماہ گزارتے ہیں وہ بھی انسانوں میں واپس آتے ہی پھر انسان بن جاتے ہیں! 
آج کے انسان کو اگر کسی ڈھنگ کے سانچے میں ڈھالنا ہے تو لازم ہے کہ اُسے حیوانی زندگی سے کما حقہ یعنی خاطر خواہ حد تک روشناس کرایا جائے۔ اس کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انسانوں کے گروہ جنگل میں حیوانات کے درمیان تین چار دن گزار آیا کریں۔ حیوانی معمولات دیکھ کر وہ جان سکیں گے کہ فطرت کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے زندگی بسر کرنا کیا ہوتا ہے۔ حیوانات ہمیں سکھا سکتے ہیں کہ جو کچھ بھی مل جائے اُسے صبر اور شکر کے ساتھ قبول کرنے کا کچھ الگ ہی مزا ہے۔ جنگل کا ماحول قناعت کا درس دیتا ہے۔ وہاں کوئی بھی درندہ محض دل پشوری کے لیے شکار نہیں کرتا۔ پیٹ بھرنے کے بعد شیر جب آرام کر رہا ہوتا ہے تب چھوٹے، کمزور اور معصوم جانور اُس کے پاس سے گزرنے میں ذرا خوف محسوس نہیں کرتے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پیٹ بھرنے کے بعد خوراک کا ڈھیر لگانے کا جنگل میں کوئی رواج نہیں۔ یہ تو انسان ہیں جو پیٹ بھرنے کے معاملے میں اپنے رب پر بھروسہ نہیں کرتے اور ضرورت سے کہیں زیادہ خوراک جمع کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ 
جنگل میں بسر کی جانے والی حیوانی زندگی اچھی طرح بتا اور سکھا سکتی ہے کہ پُرسکون کس طور رہنا چاہیے اور غیر ضروری شور و غوغا سے کس طرح اجتناب برتنا چاہیے۔ جنگل حیات سے متعلق بنائی جانے والی ڈاکیومینٹریز دکھاکر نئی نسل کو سمجھایا جاسکتا ہے کہ متوازن، معتدل اور پُرسکون زندگی کیا ہوتی ہے۔ اور یہ بھی طرح طرح کے الیکٹرانک گیجٹس کے بغیر جنگل کے جانور کس طرح اپنا دماغی توازن برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں! 
یہ تو ہوا حیوانات سے کچھ سیکھنے کا معاملہ۔ اور اگر جنگلی حیات یعنی جنگل کے ماحول کو تباہی سے دوچار کرنا مقصود ہو تو کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ انسانوں کے درمیان پلے ہوئے چند درندے اور چرند پرند وہاں بھیج دینا انتہائی کافی ہوگا! 
ٹامس تھویٹس نے اپنے اس تجربے کو انسان ہونے کے کام سے چُھٹّی قرار دیا ہے۔ یعنی تین دن کے لیے وہ انسان نہیں تھے! اِس میں کون سی نئی بات ہے؟ اب تو بیشتر انسان اپنے انسان ہونے کے شرف کو بوجھ ہی سمجھتے ہیں اور کسی نہ کسی طور، عارضی طور پر ہی سہی، اِس سے جان چُھڑانے کے درپے رہتے ہیں۔ اِس حوالے سے تازہ ترین مثال بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہے جو کشمیریوں کے حوالے سے سَفّاکی کے معاملے میں درندوں کو بھی پیچھے چھوڑنے پر تُلے ہوئے ہیں! بلا خوفِ ترید کہا جاسکتا ہے کہ مودی نے آجکل انسان ہونے کے کام سے چُھٹّی لے رکھی ہے! 
ٹامس تھویٹس نے تین دن کے تجربے کو خواہ کوئی نام دیا ہو، ہمیں جانوروں کو اُن کے مقام سے ہٹانے کی کوشش سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر ہم انسان ہونے کے کام یا منصب سے کچھ دن کی چُھٹّی چاہتے ہیں تو ویل اینڈ گُڈ۔ اِس پر جانوروں کو یقیناً کوئی اعتراض نہ ہوگا مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ حیوانات اپنی جبلّت یعنی حیوانیت کے دائرے ہی میں رہنا چاہتے ہیں۔ اپنی دنیا میں وہ انسانوں کی بے جا مداخلت کسی طور گوارا نہیں کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں