لائن آف کنٹرول پر جب معاملات آؤٹ آف کنٹرول ہونے کی منزل سے گزرے تو بہت کچھ داؤ پر لگ گیا۔ کہتے ہیں جنگ میں پہلی ہلاکت سچ کی ہوتی ہے۔ یعنی فریقین اپنی بات منوانے کے لیے جھوٹ پر جھوٹ بولتے چلے جاتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہوگا مگر سچ یہ ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کے بڑھتے ہی سچ کے ساتھ ساتھ تفریح کی بھی موت واقع ہوگئی!
کشیدگی تو واقع ہوتی ہی رہتی ہے۔ ہم یہ سوچ کر مطمئن تھے کہ کچھ دن کی بعد ہے جس کے بعد پرنالے پھر اپنے اصل مقام ہی پر بہنے لگیں گے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ بقول پروین شاکر ؎
ہم تو سمجھے تھے کہ اِک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اُتر جائے گا
جو بات کنٹرول لائن پر بگڑی تھی وہ بڑھتے بڑھتے گھروں تک آگئی۔ سوچا بھی نہ تھا کہ اب کے کشیدگی کے ہاتھوں دل و دماغ کی بھی واٹ لگے گی۔ جب بھارتی الیکٹرانک میڈیا نے زیادہ شور مچانا اور حقیقت کو کوئی اور ہی رنگ دینا شروع کیا تو طے پایا کہ بھارتی چینلز پر پابندی عائد کردی جائے۔ بھارت اس معاملے میں ہم سے بہت آگے یعنی جذباتی و ''غیرت مند‘‘ ہے! جب بات غیرت کی آئی تو ہمارے لیے بھی لازم ہوگیا کہ اپنے آپ کو غیرت مند ثابت کریں۔
عادت اچھی ہو یا بُری، پختہ ہوجائے تو جی کا جنجال ہو جایا کرتی ہے۔ اُس کا ترک کیا جانا دردِ سر سے کم نہیں ہوتا۔ اپنوں کے ساتھ ساتھ غیروں کے بھی بہت سے چینلز نے ہماری زندگی میں اب لازمے کی شکل اختیار کرلی ہے۔ پاکستان میں گھر گھر ملکی و غیر ملکی چینلز یکساں دلچسپی کے ساتھ دیکھے جاتے رہے ہیں۔ بعض کیسز کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ اپنے اور پرائے چینلز دیکھنا میکانیکی معاملہ ہے۔ یعنی ان چینلز کو سوچے اور سمجھے بغیر دیکھ رہے ہیں۔
حالت یہ ہے کہ ہم سے پان، گٹکا آسانی سے نہیں چھوٹتا۔ ایسے میں یہ توقع کیونکر کی جاسکتی ہے کہ بھارتی چینلز دیکھے بغیر سکون سے نیند آجائے گی؟ جب سے کیبل والوں نے حکومتی ہدایت کی روشنی میں بھارتی چینلز پر بندش لگائی ہے، ہر طرف وحشت سی ہے۔ بہت سوں کو شدید پریشانی لاحق ہے۔
یہ بھی ٹھیک ہے کہ پاکستانی چینلز اب زیادہ معیاری ڈرامے پیش کر رہے ہیں اور ہمارے نیوز چینلز بھی جسم و جاں میں بے قراری کے دریا کو رواں رکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود پرائی چیز تو پرائی چیز ہی ہوتی ہے یعنی اچھی لگتی ہے۔
بھارتی چینلز تھے تو انہیں دیکھ کر ہمیں اندازہ ہو جایا کرتا تھا کہ ہم کتنے خطرناک لوگ ہیں اور عالمی امن کو ہم سے کس قدر خطرہ لاحق ہے! اب ہم کہاں جائیں اور کس سے معلوم کریں کہ ہم ''خطرناکیت‘‘ کی کون سی منزل میں ہیں۔ ''انڈیا ٹی وی‘‘ نے ایک ایسا ماحول پیدا کر رکھا تھا کہ اُس کی نشریات دیکھ کر دل کو سکون ملتا تھا کہ کوئی ہے جس کا جینا ہم نے حرام کر رکھا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اس چینل کی نشریات دیکھنے کے بعد ہی ہم یومیہ بنیاد پر اندازہ لگا پاتے تھے کہ پاکستان کی حدود میں پائے جانے والے ایٹمی ہتھیار زیادہ خطرناک ہیں یا اِس میں بسنے والے لوگ! یہ چینل پاکستانیوں کے بارے میں اُول جلُول قسم کے نیوز پیکیجز اتنے بھرپور اعتماد کے ساتھ چلاتا تھا کہ ہم بھی حیران ہیں کہ اقوام متحدہ یا امریکی دفتر خارجہ نے اب تک پاکستان کو دہشت گرد ریاست کیوں قرار نہیں دیا! امریکی محکمہ خارجہ شاید یہ سوچ کر مجتنب رہتا ہے کہ ہماری طرف سے استفسار ہوگا۔ ع
تم تو اپنے آدمی تھے، تم کو آخر کیا ہوا!
اور ہوسکتا ہے کہ یہ خوف بھی دامن گیر رہتا ہو کہ کہیں دنیا یہ ''فرمائش‘‘ نہ کر بیٹھے کہ ع
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ!
خیر، بھارتی چینلز کی بندش نے بہت سے پاکستانیوں کو شدید ذہنی کوفت سے دوچار کیا ہے۔ ہم ان کی بات نہیں کر رہے جو بھارتی چینلز دیکھنے کے عادی، بلکہ ''دَھتّی‘‘ ہیں۔ ہم تو ان لوگوں کی الجھن بیان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بھارتی چینلز کی بندش کے باعث ایک انوکھی الجھن سے دوچار ہوئے ہیں ... اور ہوئے جارہے ہیں!
دفتر میں نیوز ڈیسک کے ساتھ محمد شکیل کو کئی دن سے پریشان دیکھا تو ہم سے یہ پوچھے بغیر رہا نہ گیا کہ آخر ایسی کیا الجھن ہے کہ چہرہ ہر وقت مقبوضہ کشمیر کا سماں پیش کر رہا ہوتا ہے! ہمارے استفسار پر ایک سرد آہ بھرکر بھائی شکیل نے اپنے لہجے میں ''اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ والی کیفیت پیدا کرتے ہوئے ''انکشاف‘‘ فرمایا کہ بھارتی چینلز کی بندش نے گھر میں قیامت سی برپا کردی ہے!
یا اللہ خیر! گھر میں ... اور قیامت؟ ایک قیامت تو کب کی برپا ہے ... یعنی یہ کہ بھائی شکیل شادی شدہ ہیں! اور قیامتِ صُغرٰی کا تصور بھی اُن کے لیے نیا نہیں کہ خیر سے کئی بچوں کے باپ ہیں! ایسے میں ایسی کون سی نئی قیامت ہوسکتی ہے جو قیامت بن کر ٹوٹی ہے؟
ہم نے سوچا شاید معاملہ یہ ہے کہ بھارتی چینلز کی بندش نے بھائی شکیل کی اہلیہ کو اسٹار پلس وغیرہ کے ڈرامے دیکھنے سے روک دیا ہے تو اُن کے دل و دماغ میں ہلچل مچی ہوئی ہیْ ایسی حالت میں خاتونِ خانہ کا غصہ میاں اور بچوں ہی پر اترا کرتا ہے۔ بھائی شکیل نے توضیح فرمائی کہ ایسا کچھ نہیں ہے یعنی یہ کہ ہم اپنے دماغ کو کالمانہ رفتار سے دوڑاکر جس نتیجے تک پہنچ رہے ہیں وہ ناپید ہے۔ گویا معاملہ کچھ اور ہے۔ ہم نے سوچا اگر واقعی ایسا نہیں ہے تو پھر ع
''کون‘‘ معشوق ہے اِس پردۂ زنگاری میں!
اِس کے بعد بھائی شکیل نے پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے ایسی باتیں شروع کردیں کہ اُنہیں ضبطِ تحریر میں لانے کی صورت میں تحریر اور صاحبِ تحریر دونوں ہی کے ضبط ہوجانے کا خطرہ ہے! بھائی شکیل دونوں ملکوں کی قیادت کے بارے میں کچھ دیر تک انٹ شنٹ بولتے رہے۔ ہم یہ سوچ کر سنتے رہے کہ وہ شاید ٹی وی پر تجزیہ کار کی حیثیت سے کام کرنے کی پریکٹس کر رہے ہیں! مگر جب وہ بولتے چلے گئے تو ہم بھی سوچتے ہی چلے گئے کہ (اے بھائی شکیل کے) دلِ ناداں، تجھے ہوا کیا ہے!
معلوم ہوا کہ کیبل آپریٹرز نے حکومتی ہدایت کی روشنی میں بھارتی چینلز ہی بند نہیں کر رکھے بلکہ کیبل نیٹ ورک پر بھارتی فلمیں بھی نہیں لگائی جارہیں! اِس کا (انتہائی خطرناک) نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ کیبل آپریٹرز کے اپنے چینلز پر ''مان نہ مان، میں تیرا مہمان‘‘ کے مصداق پاکستان کی ''شاہکار‘‘ فلمیں لگائی جارہی ہیں اور پرانے مزاحیہ، بلکہ مسخرانہ اسٹیج ڈرامے بھی پیش کیے جارہے ہیں!
یہ تو ہم نے بھی نہ سوچا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر پائی جانے والی سرد مہری کیبل ٹی وی کے محاذ پر ایسی ''گرم بازاری‘‘ پیدا کرکے دم لے گی!
بھارتی فلموں کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ ہر حال میں اخلاق باختہ کرکے دم لیتی ہیں۔ بھائی شکیل کا خیال ہے کہ بالی وڈ کی فلموں سے صرف اخلاق بگڑیں گے، یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ لالی وڈ کی تیار کردہ ''عجیب الخلقت‘‘ فلمیں دیکھنے سے بچوں کے دماغ کی چُولیں ہل رہی ہیں! کیبل نیٹ ورک پر پیش کی جانے والی پنجابی فلمیں دیکھ کر بچے پوچھتے ہیں کہ ولن کون ہے۔ اور پھر شفقت چیمہ اینڈ کمپنی کو اداکاری کے نام پر اوٹ پٹانگ حرکتوں میں مشغول دیکھ کر مزید استفسار فرماتے ہیں کہ اِن سب کو کون سی بیماری لاحق ہے!
بیس پچیس سال پہلے کے مزاحیہ اسٹیج ڈرامے دیکھ کر بھی بچے خوب الجھ رہے ہیں۔ بھارتی چینلز اخلاق بگاڑتے ہیں اور ہمارے یہ ڈرامے اخلاق کے ساتھ ساتھ زبان اور دہن دونوں ہی کا بیڑا غرق کرنے پر تُلے رہتے ہیں!
بھائی شکیل سے ہم اتنا ہی کہیں گے کہ بس کچھ دنوں کی بات ہے۔ تعلقات معمول پر آئیں گے تو نشریات کے پرنالے بھی وہیں بہنے لگیں گے جہاں یہ بہتے آئے ہیں۔ اپنے وطن کی فلموں اور اسٹیج ڈراموں کے نام پر حواس باختہ کردینے والی یہ حرکتیں کچھ ہی دن جھیلنی ہیں۔ ع
اِک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں!