"MIK" (space) message & send to 7575

مُرجھائے پُھول کِھل اُٹھے میرے مزار کے

پریشانی ختم ہوئی اور جان میں جان آئی۔ یہ پڑھ کر آپ مطمئن نہ ہوں۔ اور ہم بھی کیا خاک مطمئن ہوں؟ پریشانی کے ختم ہونے کا ذکر ہم آپ کے حوالے سے کر رہے ہیں نہ اپنے بارے میں کوئی حقیقت بیان کر رہے ہیں۔ ہم اور آپ ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ جب تک دم میں دم ہے، غم ہے اور پیہم ہے۔ 
فی زمانہ جس کی پریشانی ختم ہو اُس کا اقبال بلند سمجھیے۔ یہی بات یوں بھی کہی جا سکتی ہے کہ جن کا اقبال بلند ہو یعنی کھونٹا مضبوط ہو اُن کی پریشانیوں کے مقدر میں جلد یا ''بہ جلد‘‘ ختم ہو جانا ہو رہنا لکھا ہوتا ہے۔ 
تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور، بزعمِ خود ''بابائے احتساب‘‘ یعنی عمران خان کی پریشانیاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ ایک سبب اس کا یہ بھی ہے کہ وہ خود بھی فارغ نہیں رہنا چاہتے۔ شاید وہ دماغ کو فارغ رکھ کر اُسے شیطان کے کارخانے کے طور پر پکارے جانے کو برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں! ان کی تو وہی مثال ہے ہے ... چھوڑیے، اب کیا مثال دیں۔ اب کے بھی ہماری مثال ضائع ہو جائے گی۔ وہ تو لکھنے والوں کی بیان کردہ ہر مثال کے برعکس ثابت ہونے پر تُلے رہتے ہیں! 
زہے نصیب، پی ٹی آئی چیئرمین کی ایک پریشانی تو ختم ہوئی۔ بقول فراقؔ گورکھ پوری ع 
رکی رکی سی شبِ ہجر ختم پر آئی 
خوشا کہ احتساب کے نام پر جو دھماچوکڑی مچائی جانے والی ہے اُس میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ڈاکٹر طاہرالقادری رضامند ہوگئے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ عمران خان کے سینے پر دَھری ہوئی ایک بڑی سِل ہٹ گئی ہوگی۔ جنرل (ر) خالد محمود عارفؔ خوب یاد آئے ہیں ؎ 
بادِ سَحر نے جب تِرے آنے کی دی نوید 
مُرجھائے پُھول کِھل اُٹھے میرے مزار کے! 
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ نے ایک بار پھر تحریک انصاف اینڈ کمپنی کے احتجاجی سرکس میں پرفارم کرنے کے حوالے سے گرین سگنل دیا ہے تو حکومتی ارادوں اور فیصلوں کی منڈی میں مندی کا رجحان تھوڑا بہت تو ضرور بڑھا ہوگا۔ یا یوں کہیے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی ''نِکّی جئی‘‘ ہاں نے عمران خان کے سینے پر سے جو سِل ہٹائی وہ کسی حد تک حکومت کے سینے پر دَھر دی! 
کیا ہم یہ سمجھیں کہ حکومت پریشان ہے؟ شاید۔ مگر اِس سے کیا ہوتا ہے ... یا کیا ہوگا؟ متنوّع پریشانیوں کے باوجود حکومت رہی ہے اور رہے گی۔ اور عمران خان بھی کہاں ماننے والے اور کہاں کہیں جانے والے ہیں؟ وہ ہیں اور احتجاج کا شغلِ نامراد ہے! فکرمند اور پریشان ہونے کا ''حق‘‘ تو صرف ہمیں، آپ کو ہے جنہیں ہاتھیوں کی لڑائی میں گنّے کا کردار ادا کرتے رہنا ہے! 
خیر، بات ہورہی ہے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ''راضی بہ احتجاج‘‘ ہونے کی۔ معاملہ ادھورا سا تھا۔ شیخ رشید تو حسبِ منصوبہ روزِ اوّل سے ساتھ ہیں۔ اور دوسروں کے ساتھ ساتھ چوہدری برادران بھی ''دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے‘‘ کے اصول کی بنیاد پر اب عمران خان کے کیمپ میں ہیں۔ جملۂ معترضہ کے طور پر عرض کر دیں کہ عمران خان کی خیریت اِس میں ہے کہ وہ احتجاجی رونق میلے کی ترجمانی کا فریضہ چوہدری شجاعت کو سونپنے سے گریز کریں۔ یہ قوم خان صاحب کی بات ویسے ہی نہیں سمجھتی۔ اگر کہیں اُن کی طرف سے چوہدری شجاعت بولنے لگے تو قوم فہم کے ساتھ ساتھ سماعت کی استطاعت سے بھی محروم ہو جائے گی! 
شیخ رشید اور چوہدری برادران کے ہوتے ہوئے بھی کیمپنگ نامکمل تھی۔ لوگ یہ سوچ کر پریشان اور اُداس تھے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی سیماب صفت شخصیت ہی نہ ہوئی تو احتجاجی تماشے کا کیا خاک لطف آئے گا! عمران خان میں اب وہ تیزی نہیں رہی جو کبھی اُن کی in-cutter میں ہوا کرتی تھی مگر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اپنی عظمتِ رفتہ کی چند نشانیوں کو اچھی طرح maintain کیے ہوئے ہیں۔ جلسوں، جلوسوں، دھرنوں اور مظاہروں کے لوازم میں شمار ہونے والا جوش ڈاکٹر طاہرالقادری کے جسم و جاں میں ''بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں‘‘ کے مصداق تھوڑا بہت ضرور سمایا ہوا ہے! 
پاناما لیکس کی تحقیقات کا مطالبہ منوانے کے لیے اسلام آباد میں 2 نومبر کو دیئے جانے والے دھرنے میں شمولیت پر پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ کی آمادگی بہت حد تک وائلڈ کارڈ انٹری کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ میدان میں آئے ہیں تو عمران خان کے لیے وہی کیفیت پیدا ہوئی ہے جو علامہ نے ''کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا‘‘ والے مصرع میں پیدا کی ہے! اس مقام پر یہ کہنے سے ہم کسی طور گریز نہیں کرسکتے کہ جب بھی لازم ہوا کہ عمران خان اپنے سیاسی کارڈ شو کریں تب اُنہوں نے اجتناب کی راہ چلتے ہوئے تُرپ کے ہر پَتّے کو وائلڈ کارڈ انٹری کے کنویں میں پھینک کر ناکامی کو قوم کو ساتھ سیلیبریٹ کیا ہے! 
مے کدہ اداس تھا۔ طاہرالقادری کے جانے سے ''تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے‘‘ والی کیفیت پیدا ہو جایا کرتی ہے۔ اب وہ ایک بار پھر احتجاجی میدان کی طرف آئے ہیں تو احتجاجی چمن کی کلی کلی چٹک رہی ہے، کِھلنے کو بے تاب ہوئی جاتی ہے! عمران خان نے اُمّید کا جو ساغر بے دِلی کے ساتھ ایک طرف رکھ دیا تھا اُسے پھر تھام لیا ہے۔ ؎ 
پُھول ہی پھول کِھل اُٹھے مِرے پیمانے میں 
آپ کیا آئے بہار آ گئی مے خانے میں 
اب کے بھی احتجاجی تماشا وقت یا موقع کی نزاکت کے اعتبار سے تھوڑا سا آؤٹ آف ٹچ دکھائی دے رہا ہے۔ قوم حیران ہے کہ سازِ حال کے تاروں سے کوئی اور دُھن پُھوٹ رہی ہے اور ''بابائے احتساب‘‘ کوئی اور ہی راگ الاپنے پر کمربستہ ہیں! 
پی ٹی آئی کے چیئرمین کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اُن کی سوچ اب تک ''کرکٹانہ‘‘ ہے! ہر سیاسی معاملے کو وہ کرکٹ میچ کی طرح برتتے ہیں۔ یہ خوش گمانی (یا خوش فہمی) نہیں جاتی کہ محض دو ڈلیوریز کی مدد سے پورے میچ کا رخ تبدیل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ 1992ء کے ورلڈ کپ میں وسیم اکرم کی دو مسلسل گیندوں پر ایلن لیمب کرس لیوئس کے بولڈ ہونے سے ہوا تھا۔ 1971ء میں ایسا ہی کمال بھارت کے اسپنر سلیم دُرّانی نے پورٹ آف اسپین (ویسٹ انڈیز) میں میزبان ٹیم کے خلاف بھی کر دکھایا تھا۔ خان صاحب صرف ایک بات بھول گئے ہیں ... یہ کہ اب اُن میں کسی بھی سطح کی جادوئی ڈلیوری کرانے کا دم خم نہیں۔ وہ عمر کے اُس مرحلے میں ہیں جس کا رونا میرزا نوشہ نے یُوں رویا تھا ؎ 
مارا زمانے نے اسداللہ خاں تمہیں 
وہ ولولے کہاں، وہ جوانی کدھر گئی؟ 
خان صاحب چاہے جتنا زور لگا لیں، ایک آدھ آنچ کی کسر رہ جاتی ہے۔ ایک بڑی الجھن یہ بھی ہے کہ وقت گزرنے یعنی عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ اُن میں جھنجھلاہٹ کا گراف بھی بلند ہوتا جارہا ہے۔ جس طور کبھی کبھی شاٹ کھیلتے ہوئے بیٹ نکل کر دور جا گرتا ہے اور بیٹسمین کے ہاتھ میں صرف ہینڈل یعنی ''ہتّھا‘‘ رہ جاتا ہے بالکل اُسی طور عمران خان اب ذرا سی بھی ایسی ویسی بات پر ہتّھے سے اکھڑنے میں دیر نہیں لگاتے! 
اور سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا بھی اب وہ دور نہیں رہا۔ ان کے لیے بھی معاملہ ''بس ہو چکی نماز، مُصلّٰی اٹھائیے‘‘ جیسا ہی ہے۔ اُن کا کینیڈا سے آنا اور پھر واپس جانا قومی معمول کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اُن کے آنے پر لوگ ابھی کچھ سوچ ہی رہے ہوتے ہیں کہ اُن کے جانے کی خبر آجاتی ہے۔ع 
آئے بھی وہ گئے بھی وہ، ختم فسانہ ہو گیا 
ملکی حالات احتجاج کے نام پر برپا کیے جانے والے ہنگامہ و فساد کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اب عوام کی دلچسپی شٹر ڈاؤن میں ہے نہ پہیہ جام میں۔ معاملہ جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں تک رہے تو خوب ہے۔ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طور کچھ ہلّا گُلّا ہوتا رہے کہ اب یہی قوم کی اجتماعی نفسی ساخت ہے ؎ 
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق 
نوحۂ غم ہی سہی، نغمۂ شادی نہ سہی! 
مگر اب ہم بھی کیا روئیں؟ اور ہمارے رونے سے کون سا انقلاب برپا ہو جائے گا؟ ہمارے لکھے سے عمران خان اور اُن کے رفقاء کون سا مان جائیں گے؟ اور پھر یارانِ وطن بھی یہی چاہتے ہیں کہ رونق میلہ لگا رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں