اور چاہے کچھ بھی اجڑے اور برباد رہے، دل کا چمن اجڑنا نہیں چاہیے۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
اِک نہ اِک پھول دل و جاں میں کِھلائے رکھنا
خود کو پت جھڑ کے زمانے سے بچائے رکھنا
بات یہ ہے کہ انسان کو ہر وقت کوئی نہ کوئی تازہ خیال چاہیے تاکہ جسم و جاں کی تازگی برقرار رہے۔ زندگی اِسی طور تقویت پاتی ہے۔ اگر دل و جاں میں ہر دم کوئی پھول کِھلا اور مہکتا رہے تو پورے وجود کا گلشن جشنِ بہاراں میں مگن رہتا ہے مگر کیا کیجیے کہ اب لوگ دل و جاں میں پھول کھلانے سے زیادہ گل کھلانے میں دلچسپی لینے کے عادی ہیں!
محترم ناصرؔ زیدی کہتے ہیں ؎
کوئی ہنگامہ چاہیے ناصرؔ
کیسے گزرے کی زندگی خاموش
قوم کے منہ کا ذائقہ بھی بگڑ چکا ہے۔ دل اور دماغ اچھی باتوں سے الرجک ہوتے جارہے ہیں۔ جواز بنتا ہو یا نہ بنتا ہو، قدم قدم رونق، بلکہ رونق میلہ درکار ہے۔ اسی کیفیت کو میرزا نوشہ یوں کہہ گئے ہیں ؎
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصوّرِ جاناں کیے ہوئے
پاکستانی قوم کی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔ کوئی دن، ذرا سی بھی ہنگامی حالت پیدا کیے بغیر، سکون سے گزر جائے تو پہلے حیرت ہوتی ہے اور پھر دل و دماغ تشویش کے دریا میں غوطے لگانے لگتے ہیں۔ یقین ہی نہیں آتا کہ کوئی دن کسی ''ایونٹ‘‘ (اور ڈی ایس این جیز کی نقل حرکت) کے بغیر بھی گزر سکتا ہے!
تین چار دن کے دوران اسلام آباد اور راولپنڈی میں جو کچھ ہوا ہے وہ حیران اور پریشان کیے دیتا ہے۔ لوگ سوچ میں ڈوبے ہیں کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ کسی کے خواب و خیال اور وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ حکومت ایسا کچھ کر گزرے گی جس سے سیاسی دیگ کے نیچے آنچ اضافی لکڑیاں ڈالے بغیر تیز ہوجائے گی اور احتجاجی حلیم تیار کرنے والوں کو زیادہ گھوٹا نہیں لگانا پڑے گا! عبدالحمید عدمؔ کیا برمحل کہہ گئے ہیں ؎
عدمؔ! خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں!
تحریک انصاف کا اعلان کردہ 2 نومبر کا دھرنا روکنے کے لیے حکومت نے جو کچھ کیا وہ انتہا سے زیادہ حیرت انگیز ثابت ہوا ہے۔ جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے اُس کے لیے کسی نے کہا ہے ؎
کمال اُس نے کیا اور میں نے حد کردی
میں خود بدل گیا اُس کی نظر بدلنے تک!
تحریک انصاف اور اس کے ہم خیال سیاسی عناصر یہی تو چاہتے تھے۔ یہی کہ حکومت مشتعل ہو اٹھے اور کچھ ایسا کر گزرے کہ بگڑی بات بن جائے۔ یعنی ''موجاں‘‘ ہی ہوجائیں!
مگر یہ کیا؟ ''موجاں ای موجاں‘‘ ضرور ہوئیں مگر توقع سے ہٹ کر، اصل مقام سے کچھ دور۔ عمران خان بنی گالہ میں نظر بندی سے ملتی جلتی کیفیت کے شکار رہے اور دوسری طرف لال حویلی فیم شیخ رشید نے سِگار سُلگائے بغیر میلہ لوٹ لیا! احتجاجی سیاست کے تماشوں میں بالعموم ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ موافق صورتِ حال کا چھینکا کسی بِلّی کے بھاگوں ٹوٹتا ہے اور ملائی کوئی اور بِلّا چٹ کر جاتا ہے!
لوگ جو کام چوڑے پہیوں والی فور وھیل سے نہیں کر پاتے وہ شیخ رشید نے ایک ذرا سی موٹر سائیکل کی مدد سے کر دکھایا۔ انہوں نے 27 اکتوبر کو شروع ہونے والی دھما چوکڑی کا 28 اکتوبر کو بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ایک پورا دن اپنے نام کیا اور چینلز کے ساتھ ساتھ اخبارات کی شہ سُرخیوں میں بھی جگہ بنائی۔
عمران خان کے ساتھ وہی کچھ ہوا ہے جو بالی وڈ کے معروف اداکار راجیندر کمار اور ان کے بیٹے (اور آں جہانی سنیل و نرگس دت کے داماد) کمار گورو عرف بنٹی کے ساتھ ہوا تھا۔ یعنی پیڑ کوئی لگائے اور پھل کوئی کھائے۔ ''جوبلی کمار‘‘ یعنی راجیندر کمار نے ''لو اسٹوری‘‘ بناکر کمار گورو کو بالی وڈ میں انٹری دلائی تھی۔ 27 فروری 1981ء کو ریلیز ہونے والی اس فلم نے اچھا کماکر دیا مگر اِس کے بعد معاملات ٹُھس ہوکر رہ گئے۔ پانچ سال گزرنے پر بھی جب کچھ بات نہ بن پائی تو راجیندر کمار نے کمار گورو کے کیریئر کو اُٹھان دینے کے لیے ایک بار پھر پروڈیوسر بننے کا فیصلہ کیا اور ''نام‘‘ بنائی۔ 30 اگست 1986ء کو ریلیز ہونے والی اس فلم کے رائٹر سلیم خان اور ڈائریکٹر مہیش بھٹ تھے۔ کمار گورو کے ساتھ چھوٹے بھائی کے کردار میں ریئل لائف سالے یعنی سنجے دت کو لیا گیا۔ سنجے دت تب تک ''ودھاتا‘‘ میں دلیپ صاحب کے ساتھ آچکا تھا مگر خیر وہ فلم دلیپ صاحب کی تھی، آج کے ''سنجو بابا‘‘ کی نہیں۔ ''نام‘‘ ریلیز اور ہٹ ہوئی تو لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کمار گورو کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا، پوری فلم کا میلہ سنجے دت نے لوٹ لیا! دیکھا آپ نے؟ راجیندر کمار نے پیسہ اپنے بیٹے کے لیے لگایا اور ''موجاں ای موجاں‘‘ کی منزل سے گزرا سمدھی کا بیٹا!
27 اور 28 اکتوبر کو راولپنڈی میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ عمران خان اور ان کے کارکن ایک طرف کھڑے تماشا دیکھتے رہے اور شیخ رشید احتجاجی بارات کے دولھا بن بیٹھے! پولیس کو چکمہ دے کر پتلی گلیوں سے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر گزرنا، عوام میں گھل مل جانا اور پھر ایک چینل کی ڈی ایس این جی پر چڑھ کر قوم کو درشن دینا شیخ رشید کے سیاسی کیریئر کو پلک جھپکتے میں وہ ''بوسٹ‘‘ دے گیا جس کی وہ صرف تمنّا کرسکتے تھے۔
قوم ہنگامے کی طالب ہے۔ شکر خورے کو اللہ شکر دے ہی دیتا ہے۔ قوم کی مراد بر آئی۔ ہنگامہ برپا ہوا۔ ڈی ایس این جیز کا اسپاٹ پر پہنچایا جانا بار آور ثابت ہوا۔ پولیس نے شیلنگ کی جس سے مظاہرین یعنی پی ٹی آئی کے کارکنوں کے آنسو نکل آئے۔ ہمیں یقین ہے کہ بنی گالہ میں شیلنگ کے بغیر ہی پی ٹی آئی چیئرمین ٹی وی اسکرین پر یہ پورا تماشا دیکھ کر آٹھ آٹھ آنسو روئے ہوں گے۔ اُن کا وہی معاملہ تھا کہ ع
وہ مِرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں!
2 نومبر تک قوم پر کیا گزرنی ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے مگر جو کچھ دکھائی دے رہا ہے اس کی بنیاد پر تقریباً بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ حکومت خود بھی احتجاجی ماحول کا درجۂ حرارت بلند رکھنے کے موڈ میں ہے۔ گویا غمِ دنیا کو غمِ یار میں شامل کرنے کی بے تابی ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ ع
نشّہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
پاناما لیکس کی تحقیقات کے مطالبے پر زور دینے کے لیے عمران خان اور شیخ رشید نے مل کر جو آتشِ شوق بھڑکانے کی کوشش کی ہے اُس کی چنگاریوں کو ہوا دینے میں حکومت بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ بعض وزراء ''ہوئے تم دوست جس کے دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو!‘‘ والا کردار ادا کر رہے ہیں۔
اب تک یہ واضح نہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری احتجاجی سیاست کے نئے اسٹیج ڈرامے میں کون سا کردار ادا کرنا پسند کریں گے۔ اگر وہ بھی اِس آتشِ نمرود میں کود پڑے تو مزا دوبالا سے ایک قدم آگے جاکر سہ بالا ہوجائے گا! کچھ دن پہلے میڈیا پر یہ الزامی اطلاع آئی تھی کہ عمران خان نے احتجاج کے مُردے میں نئی روح پُھونکنے کے لیے مذہبی جماعتوں سے چند سو تجربہ کار، ڈنڈا بردار کارکنوں کی خدمات مستعار لی ہیں۔ یہ مسلّح افرادی قوت اب تک تو دکھائی نہیں دی۔ اب شاید اِس کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ ''احتجاجی شعلے‘‘ کے جے اور ویرو جو کچھ کرنا چاہتے تھے وہ ایک قدم آگے آکر گبّر سنگھ خود کر گزرا ہے!
اس صورت حال کے تناظر میں حکومت کے لیے پیغام تو اور بھی بہت سے ہوسکتے ہیں کہ مگر ایک پیغام بہت واضح ہے۔ بات عمران خان اور شیخ رشید کے بھڑکائے ہوئے ''ہانگ کانگ کے شعلوں‘‘ سے ہوتی ہوئی بالی وڈ کے ''شعلے‘‘ تک پہنچ ہی گئی ہے تو اِس بلاک بسٹر مووی کا ایک شاہکار اور زباں زدِ عام جملہ ہم حکومت کے لیے پیغام کی شکل میں دُہرائے دیتے ہیں ... جو ڈر گیا، سمجھو مرگیا!