بہت سے اشعار ہیں کہ ہماری زندگی اور نفسی ساخت کا لازمی جُز ہو کر رہ گئے ہیں۔ اِنہی میں ایک یہ شعر بھی ہے ؎
حسینوں سے اجی صاحب سلامت دُور کی اچھی
نہ اِن کی دوستی اچھی نہ اِن کی دشمنی اچھی
جس طور نظریۂ ضرورت کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا‘ بالکل اُسی طرح یہ شعر بھی اب تک طرح طرح کی صورتِ حال پر منطبق کیا جاتا رہا ہے۔ اور خوبی کی بات یہ ہے کہ یہ ہر جگہ فِٹ ہو کر رہتا ہے۔ بات حسینوں، ماہ جبینوں کی ہو یا پھر پولیس والوں کی، سیاست دانوں کا تذکرہ ہو یا کاروباری شخصیات کا ... یہ شعر ہر انگوٹھی میں نگینہ بن جاتا ہے۔
اب ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ جمہوریت کئی بار ہم تک آئی ہے مگر یوں کہ نہیں آئی۔ ہر بار یہی محسوس ہوتا ہے کہ ایک آدھ آنچ کی کسر رہ گئی ہے۔ ہم سوچتے ہی رہ گئے ہیں کہ ؎
قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند
دوچار ہاتھ جبکہ لبِ بام رہ گیا!
کیا ہم جمہوریت چاہتے ہیں؟ یقیناً، یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ مگر کیا ہم اِس کے لیے تیار ہیں؟ یہ ذرا ٹیڑھا سوال ہے۔ اور اِس سے بھی ٹیڑھا سوال یہ ہے کہ ہم جمہوریت چاہتے ہیں یا جمہوریت کے نام پر محض ڈرامے دیکھنے کے شوقین ہیں؟ کیا سبب ہے کہ حکومت سازی میں بنیادی اور کلیدی کردار ادا کرنے کا موقع ملنے پر بھی ہم اپنی ذمہ داریوں سے کماحقہ سبک دوش ہونے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے؟
مملکتِ خدادادِ پاکستان میں جب جب جمہوریت بحال ہوئی ہے، ہم نے خود کو بے حال سا کیوں محسوس کیا ہے؟ جمہوریت کی آمد پر ابھرنے والی ابتدائی کیفیت کو فیضؔ نے یوں بیان کیا ہے ؎
پھر نظر میں پھول مہکے، دل میں پھر شمعیں جلیں
پھر تصوّر نے لیا اُس بزم میں جانے کا نام
مگر پھر کچھ ہی دیر میں معاملہ کچھ کا کچھ ہونے لگتا ہے۔ نظر میں مہکنے والے پھول کیکر کے کانٹے بن کر چبھنے لگتے ہیں۔ دل میں جل اٹھنے والی شمعیں شعلہ ضرور بنتی ہیں، روشنی کا سامان نہیں کرتیں! اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جمہوریت کے بطن سے پھر صفر برآمد ہوتا ہے! ؎
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نہ نکلا!
سیاست دان آرڈر تو خوب لیتے ہیں، ایک ایک بات نوٹ کرتے ہیں اور وعدوں پر وعدے کیے جاتے ہیں مگر جب ڈلیور کرنے کی بات آتی ہے تب معاملہ ٹائیں ٹائیں فِش کی منزل پر پہنچ کر دم توڑ دیتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ بات کیوں نہیں بنتی؟ کیا سبب ہے کہ عوام کا مفاد کہیں راستے ہی میں تھک کر بیٹھ جاتا ہے یا پھر دم توڑ دیتا ہے؟ ایسی کیا بات ہے کہ عوام کی حقیقی نمائندگی کے دعوے کرتے نہ تھکنے والے اپنی ذمہ داریوں سے اس قدر غافل ہو جاتے ہیں کہ عوام جمہوریت سے اُوب سے جاتے ہیں؟
استادِ محترم رئیسؔ امروہوی کو حالاتِ حاضرہ پر قطعہ نگاری کی اِقلیم کا شہنشاہ قرار دیا جاتا ہے۔ آپ نے 50 یا 60 سال قبل جو کچھ کہا تھا وہ آج بھی غیر متعلق محسوس نہیں ہوتا۔ اِس میں آپ کی فن کارانہ یا تخلیقی صلاحیت کا کمال تو ہے ہی، حالات کی جادوگری بھی کم نہیں۔ دلاور فگار کہہ گئے ہیں ع
حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہو گئے!
رئیسؔ امروہوی کے قطعات کو زندہ رکھنے میں نصف صدی سے بھی زائد مدت سے تبدیل نہ ہونے والے حالات نے بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ غالباً 1960ء کی دہائی میں رئیسؔ امروہوی نے کہا تھا ؎
ناز و نعمت سے مدتوں ہم نے
بے بی جمہوریت کو پالا ہے
اب یہ محسوس ہو رہا ہے رئیسؔ
شیر کے مُنہ میں ہاتھ ڈالا ہے!
کیا زندہ رہ جانے والی بات کہی ہے استادِ محترم نے۔ ہمارا قصہ یہی تو ہے کہ جب بھی جمہوریت نے انٹری دی ہے، ہم نے کچھ ہی دنوں میں یہ محسوس کیا ہے کہ ہم ایک بار پھر شیر کے مُنہ میں ہاتھ دے بیٹھے ہیں۔
ملک میں جب جب جمہوریت نہیں رہی تب تب عوام نے خلا سا محسوس کیا ہے۔ غیر جمہوری ادوار میں عمومی تاثر یہ رہا ہے کہ جیسے ملک کو چلانے کے معاملات میں کچھ کمی سی ہے۔ جب رائے دہی کا حق چھین لیا جاتا ہے تب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہت کچھ ہاتھ سے نکل گیا ہے‘ مگر الجھن یا المیہ یہ ہے کہ جب ''بے بی جمہوریت‘‘ تشریف لاتی ہے تب بہت کچھ ہاتھ سے نکل جانے کا احساس ہی شدت اختیار نہیں کرتا بلکہ پیروں تلے سے زمین بھی سرکنے لگتی ہے!
جب رائے دہی کا حق بحال ہوتا ہے تب عوام بھرپور جوش اور جذبے کے ساتھ اپنی رائے دیتے ہیں تاکہ مرضی کی حکومت تشکیل پائے۔ دوسری طرف معاملہ کچھ اور رہا ہے۔ اقتدار اور اختیارات کو ترسے ہوئے اہلِ سیاست بہت تیزی سے بہت کچھ کرنے کے نام پر بہت کچھ ہڑپنے، ڈکارنے لگتے ہیں! عوام غیر جمہوری دور کی سیاہ رات کے ختم ہونے پر ابھی آنکھیں ملتے ہوئے جمہوریت کے صبح کے جلوے نہار ہی رہے ہوتے ہیں کہ اُن کے حقوق کی پاسبانی کے دعویدار قومی خزانے کو بھنبھوڑنے کا عمل شروع کر دیتے ہیں! ایسے میں عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ جمہوریت کو گلے لگانے کے نام پر کیا ایک بار پھر شیر کے مُنہ میں ہاتھ ڈال دیا گیا ہے؟
اگر کسی کو شیر کا مُنہ اور ہمارا ہاتھ والی مثال اچھی نہ لگے تو معاملے کو ہاتھی تک لے جائے، یعنی ہاتھی سے گنّا چھین کر دکھاؤ والی کیفیت ہے۔ نہ جانے کس کی بد دعا کا یہ نتیجہ ہے کہ ہمارے لیے جمہوریت کے سائے تلے بسر کرنا شیر کی سواری جیسا ہی ثابت ہوا ہے۔ اگر اترے تو وہ چٹ کر جائے گا اور جب تک اُس پر سوار رہیں گے، اُس کی مرضی جہاں کی ہو گی وہاں لے جائے گا۔
علامہ نے کہا تھا کہ ؎
جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے!
بات سولہ آنے درست ہے مگر تحفظات کو کیا کیجیے کہ ابھرتے ہی رہتے ہیں۔ علامہ نے جمہوریت کو یہ کہتے ہوئے مسترد کیا ہے کہ اِس میں ووٹوں کی تعداد دیکھی جاتی ہے، امیدواروں کی قابلیت نہیں دیکھی جاتی۔ ہم عرض کریں گے کہ معاملہ گنتی کا ہو یا تولنے کا، جو جیسا ہوتا ہے حتمی تجزیے میں ویسا ہی رہتا ہے۔ ہمیں جمہوریت کی گاڑی کے جو ڈرائیور ملے ہیں اُنہیں تولنے سے صلاحیت کا مہارت کا گراف بلند نہیں ہو جائے گا۔
تو پھر؟ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ڈرائیور تبدیل کیے جائیں۔ رائے دہی کا حق اِسی لیے دیا گیا ہے کہ ہم اپنے اچھے اور بُرے میں فرق کرنا سیکھیں اور اِس کا عملی مظاہرہ بھی کریں۔ ایک ہی سُوراخ سے بار بار خود کو ڈسوانے کا عمل اب رک جانا چاہیے۔
طرزِ حکمرانی خواہ کوئی ہو، معاملات عوام کے حق میں صرف اُس وقت جاتے ہیںجب وہ اِس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور اپنا کردار پوری دیانت اور جاں فشانی سے ادا کرنے کی طرف مائل ہوں۔ اِس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ عوام کا باشعور ہو جانا غیر جمہوری ادوار میں بھی ملک کے مفاد میں بہت کارگر اور بارآور ثابت ہوا ہے۔ اور جمہوریت کی آمد پر بھی عوام کا جوش و جذبے سے عاری رہنا کسی کام کا ثابت نہیں ہوا۔
عوام کا بھیڑ یا بکری ثابت ہونا ہی جمہوریت یا کسی اور طرزِ حکمرانی کو شیر بناتا ہے۔ سوچ اور ترجیحات کی تبدیلی ہی ہمارے لیے بہترین آپشن ہے۔ اگر ہم اپنے حقوق سے کماحقہ واقف نہ ہوں تو گھوڑے کی سواری بھی شیر کی سواری ثابت ہوگی۔ اور اگر حقوق و فرائض کا شدید احساس چابک کی صورت ہمارے ہاتھ میں ہو تو کوئی بھی طرزِ حکمرانی شیر بن کر ہم پر حملہ آور ہونے کے تصوّر سے بھی گریز کرے گی۔ یعنی معاملات گھوم پھر کر ہماری اپنی ذات اور احساسِ ذمہ داری تک ہی پہنچتے ہیں ؎
ہم جو چلتے ہیں تو بنتا ہی چلا جاتا ہے
لاکھ مِٹّی میں چھپا کر کوئی رستہ رکّھے