دوستی نبھانے کے سو طریقے ہوتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ دوستی نبھانے کا ہُنر ہمیں اب تک یاد ہے۔ چین ہمارا دیرینہ رفیق، بلکہ جگری یار ہے۔ اُس نے ہمیں (ہماری) ہر مشکل گھڑی میں یاد رکھا ہے اور اِس جگری یار کو ہم بھی کبھی نہیں بھولتے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ قوم کے چند سپوتوں کو گدھوں کی کھالیں اسمگل کرنے کا آئیڈیا سُوجھا تو چین پہلی منزل قرار پایا۔
آپ سوچیں گے کہ گدھوں کی کھالیں برآمد کرنے میں چین کو ترجیح دینے کا مطلب دوستی نبھانا کہاں سے ہوگیا؟ ہر معاملے میں کسی نہ کسی ایسی ویسی بات کی بُو سُونگھنے کے جو شوقین ہیں وہ خواہ کچھ کہتے پھریں، حقیقت یہ ہے کہ گدھوں کی کھالیں برآمد یا اسمگل کرنے کے معاملے میں چین کو ترجیح دینے والوں نے ثابت کردیا ہے کہ ہمیں چینیوں کا جان و مال ہی نہیں، اُن کا حُسن بھی عزیز ہے! شُنید ہے کہ گدھے کی کھال میں ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں جن کی مدد سے حُسن کی حفاظت کے عمل میں استعمال ہونے والے متعدد آئٹمز (کاسمیٹکس) تیار کیے جاتے ہیں! چینی بھائیوں کے لیے ہماری جانیں بھی حاضر ہیں مگر پہلے مرحلے میں ہمارے گدھے جان سے جا رہے ہیں۔ (خیر، ہر مرحلے میں گدھے ہی جان سے جاتے ہیں!)
گدھے کی کھالیں اسمگل کرنے کا اسکینڈل کئی سال پہلے منظر عام پر آیا تھا اور رفتہ رفتہ اِس نے ایسی جان پکڑی ہے کہ آج کل میڈیا کی مدد سے قوم کے سَر پر چڑھ کر ناچ رہا ہے۔ کئی برس سے کراچی، لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں گدھے کا گوشت فروخت کیے جانے سے متعلق خبریں میڈیا میں زور و شور سے چلتی رہی ہیں۔ اب معلوم ہوا کہ مسئلہ لوگوں کو گدھے کاٹ کر کھلانے کا نہیں تھا۔ اِن بے زبان حیوانوں کی کھال اِن کے لیے موت کا پیغام بن گئی۔ چین اور دوسرے بہت سے ممالک میں گدھے کی ایک کھال پچیس ہزار روپے تک میں فروخت ہوتی ہے۔ ایسے میں گدھے کیونکر بچ سکیں گے؟ گویا ہرن کو مُشک مروا دیتا ہے اور گدھے کو کھال۔ گدھے کے گوشت کی فروخت اور کھالوں کی اسمگلنگ مرزا تنقید بیگ کے پسندیدہ موضوعات میں سے ہیں۔ ہم نے جب بھی اِس حوالے سے اُن سے بات کی ہے اُنہیں گدھوں کی سی لگن اور محنت کے ساتھ دلائل نوازی پر مائل پایا ہے! کل کی ملاقات میں جب گدھوں کی کھالیں اسمگل کرنے اور اُس کا گوشت فروخت کرنے کے اسکینڈل کا ذکر چھڑا تو مرزا نے کہا ''پاکستان میں بسنے والے انسانوں نے شاید کبھی کسی سے کچھ بھی نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ دن رات گدھوں کو محنت کرتے ہوئے پاتے ہیں مگر خود محنت کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ اگر کسی کی توجہ اِس طرف دلائیے تو کہتا ہے مجھے کیا گدھا سمجھ رکھا ہے! جب ہم محنت کرنے والوں کو محض گدھا سمجھیں گے اور اُنہیں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے تو قدرت بھی ہمیں نہیں بخشے گی۔ نتیجہ دیکھ لو۔ ہم عالمی برادری میں اُسی مقام پر ہیں جس مقام پر ہمارے ہاں گدھے ہیں!‘‘
ہم نے مرزا کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ قوم دن رات محنت کرنے اور سَر جُھکاکر زندگی بسر کرنے سے شاید اِس لیے گریزاں ہے کہ گدھے کے انجام سے اچھی طرح واقف ہے! اب دیکھیے نا، اپنے اپنے مالک کی روزی روٹی میں اضافہ کرنے کے لیے دن رات بوجھ اُٹھانے والے گدھے کس انجام سے دوچار ہیں۔ پہلے تو محنت کرنے پر بھی عزت نہ ملنے کا مسئلہ تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ اُنہیں دیکھ دیکھ کر منہ سے رال ٹپکاتے ہیں کہ موقع ملتے ہی اُنہیں دُنیا سے اور اُن کی کھال کو ملک سے رخصت کردیں! مرزا نے ایک بار پھر ''خر بیانی‘‘ کا جنریٹر اسٹارٹ کیا ''بھئی ہمیں تو یہ پورا معاملہ اچھی خاصی ذہنی پیچیدگی اور اخلاقیات کے بُحران میں لُتھڑا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ گدھوں کی طرح محنت کرنا تو اِس قوم نے سیکھا نہیں۔ ہڈ حرامی اور مفت خوری میں حد سے گزر جانے پر اب شاید یہ گدھوں سے آنکھیں چار کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہی اِس لیے اُنہیں ٹھکانے لگانے پر تُلی ہے تاکہ بات بے بات شرمندہ نہ ہونا پڑے! حالانکہ ہونا تو کچھ اور چاہیے تھا۔‘‘
ہم نے حیران ہوکر پوچھا کہ اور بھلا کیا ہونا چاہیے تھا۔ مرزا نے ہمیں مبتلائے حیرت پاکر مسکراتے ہوئے جواب دیا ''تم جیسے محنت سے جی چرانے والوں کا 'فطری استحقاق‘ بنتا ہے کہ تمہیں گدھے کا گوشت کھلایا جائے! اگر براہِ راست نہ سہی تو ٹیبلٹس وغیرہ کی شکل میں ہی سہی۔ شاید کہ لحمیاتِ خَر کے اجزاء تم جیسوں کے معدے میں پہنچ کر محنت اور لگن سے کام کرنے کا تھوڑا بہت جذبہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں!‘‘
یہی تو ہے مرزا کا بدنامِ زمانہ کمینہ پن! بُھوسے میں چنگاری ڈال کر ایک طرف ہو جاتے ہیں اور ٹکٹ لیے بغیر تماشائی بن جاتے ہیں۔ یہ ''خَر بیانیہ‘‘ ادھورا رہ جائے گا اگر ہم اِس میں اپنی ذاتی رائے کی آمیزش سے دامن بچائیں۔ ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ گدھے کاٹ کر گوشت مقامی منڈی میں اور کھالیں انٹر نیشنل مارکیٹ میں فروخت کرنے کی خبریں بہت حد تک ''کِل‘‘ کردی جائیں تو اچھا ہے۔ سوال آئینہ دیکھ کر ڈر جانے یا گدھوں کی کھال کے مقابلے میں اپنی کھال کی بے توقیری ملاحظہ فرماکر قنوطیت کے گڑھے میں گِرنے کا نہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ دن رات پوری فرماں برداری کے ساتھ بھرپور محنت کرنے پر چار ٹانگوں والے گدھوں کا یہ خُونچکاں انجام دیکھ کر دو ٹانگوں والے گدھے بِدک جائیں گے اور وہ تھوڑی بہت محنت بھی نہیں کریں گے جو وہ کسی نہ کسی طور کرلیتے ہیں!