کہانی انسانی فطرت یعنی مزاج کا ایسا حصہ ہے جسے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت کے پالیسی میکرز کی زبان میں کہیے تو قصے، کہانیاں اور داستانیں سُننا سُنانا انسانی فطرت کا اٹوٹ انگ ہے! ہم چاہتے ہیں کہ قدم قدم پر کوئی نئی بات سُننے کو ملے۔ انسان کے مزاج کو نئی باتوں کا چسکا پڑا ہوا ہے۔ اگر کہیں سے رائی مل جائے تو پربت بنانے کو چاہتا ہے۔ اور اگر جی نہ چاہتا ہو تو شیطان کچھ نہ کچھ وسوسے اور شوشے دل میں ڈال کر راستہ نکالنے پر تُل جاتا ہے۔
یہ بھی ایک عجیب کہانی ہے کہ تقریباً تمام ہی دلچسپ اور حیرت انگیز کہانیاں بھارت کی سرزمین پر جنم لیتی ہیں۔ اور اس حوالے سے بہار اور راجستھان کا جواب نہیں۔ راجستھان کی سرزمین رنگا رنگ ہے۔ سوال صرف اشیاء کی رنگینی کا نہیں، باتوں اور کہانیوں کی رنگینی کا بھی ہے۔ قدم قدم پر داستانیں بکھری پڑی ہیں اور ان داستانوں کے رنگوں سے فضاء میں ایسی رنگینی ہے کہ جی چاہتا ہے کہانیاں سُنتے جائیے اور دل و دماغ کو تقویت بہم پہنچاتے جائیے۔
راجستھان کے ضلع شری گنگا نگر کی تحصیل انوپ گڑھ میں بنجور نام کا ایک قصبہ ہے۔ اِس قصبے میں یاروں نے ایک پریمی جوڑے کا مزار بنا رکھا ہے اور معاملہ یہیں تک نہیں ہے۔ اس مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد چڑھاوے بھی چڑھائے جاتے ہیں۔
بات محبت کی ہو تو آپ کے ذہن میں سب سے پہلے کس جوڑے کا نام ابھرتا ہے؟ جی ہاں، بالکل درست۔ لیلٰی مجنوں کا۔ اِن دونوں کی محبت امر ہے۔ صدیوں سے لوگ یہ قصہ سُنتے سُناتے آئے ہیں۔ تاریخی شواہد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں کا تعلق عرب یا ایران یا پھر ان دونوں درمیان کسی علاقے سے تھا۔ کوئی کہتا ہے کہ وہ نسلاً عرب تھے مگر بعد میں نقل مکانی کرکے ایران میں جا بسے تھے اور پھر وہیں اُنہوں نے اِس دنیا کو خیرباد کہا۔
یہ تو ہوئی تاریخی شواہد کی بنیاد پر سُنی اور سُنائی جانے والی داستان۔ راجستھان میں کچھ اور ہی قصہ معروف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مرنے سے کچھ عرصہ پہلے یہ جوڑا پاکستان کی سرحد سے محض دو میل دور بھارتی علاقے میں آباد ہوا تھا! اور جب یہ دونوں مرگئے تو لوگوں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اور علاقے کی ''درخشاں روایات‘‘ کے مطابق اِن کا مزار بنا ڈالا تاکہ مل بیٹھنے، سال کے سال میلہ منعقد کرنے، منت مانگنے اور چڑھاوے چڑھانے کا ایک اور پوائنٹ میسر ہو!
اس موقع پر ہمیں جونؔ ایلیا یاد آئے ہیں۔ اُنہوں نے کہا تھا ؎
ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا
جو نہیں ہے وہ خوبصورت ہے!
بات کچھ یوں ہے کہ جو کچھ ہم نے نہیں دیکھا اور صرف سوچتے آئے ہیں وہ یقینی طور پر ہمیں خوبصورت ہی لگتا ہے۔ جس کے بارے میں بہت سوچا ہو اور ایک خاص تصور باندھ رکھا ہو وہ سامنے آجائے اور ہماری توقعات کے مطابق نہ ہو تو دل ٹوٹ جاتا ہے، دماغ کو جھٹکا سا لگتا ہے۔ اور کیوں نہ لگے؟ توقعات کے بارآور نہ ہونے پر ایسا ہی ہوتا ہے۔ جونؔ ایلیا نے یہی کہا ہے کہ جسے نہیں دیکھا وہ خوبصورت ہے۔ وہ سامنے آگیا تو تصور خاک ہوا!
یہ شعر ہمیں اس لیے یاد آیا کہ آج کل لیلٰی مجنوں اور ان کے مزار کی تصویر بھی سوشل میڈیا میں ہٹ ہوئی ہے۔ اس تصویر میں مجنوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اُسے دو ہفتوں سے کھانا نہیں ملا ... اور یہ کہ منشیات پر گزارا ہے! ساتھ ہی لیلٰی کی بھی تصویر ہے جسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ مجنوں اُس پر کیسے فِدا ہوا ہوگا! مجنوں کا مطلب ہے پاگل، عقل و شعور سے بے بہرہ۔ لیلٰی کی تصویر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اُس پر فِدا ہونے کے لیے انسان کا دانش اور شعور سے بے بہرہ ہونا لازم تھا! اس تصویر میں ایک عام سی شکل کی عورت دکھائی دے رہی ہے جس کی عمر بھی خاصی ڈھلی ہوئی ہے۔ آپ سوچین گے دل کا کیا ہے، وہ تو کسی پر بھی آسکتا ہے۔ ٹھیک ہے مگر اس معاملے پر پردہ پڑا ہی تو رہتا تو کیا تھا۔ لوگ لیلٰی کے بارے میں سوچتے آئے ہیں کہ وہ آخر کیسی ہوگی کہ مجنوں اُس پر جان و دل سے فِدا ہوگیا۔ ظاہر ہے کوئی نہ کوئی بات تو اُس میں رہی ہوگی۔ لیلٰی کی تصویر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ راجستھان ہی کی کوئی عورت ہے جو تیس چالیس سال کھیتوں میں کام کرکے تھک چکی ہے، نڈھال ہوچکی ہے اور گویا زندہ رہنے میں اب کوئی دلچسپی ہی نہیں رہی۔ ارے بھائی، ایسی تھکی ہاری لیلٰی کی تصویر دنیا کو دکھانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس طرح کی کوئی بھی تصویر دیکھ کر تو انسان کا لیلٰی ہی پر سے نہیں، محبت پر سے بھی اعتقاد اُٹھ سکتا ہے!
ہم بھی ایک زمانے سے طرح طرح داستان ہائے محبت سُنتے آئے ہیں۔ محبت کے بارے میں ہم نے بھی طرح طرح کے تصورات باندھ رکھے ہیں۔ شیریں فرہاد، وامق عذرا، سسّی پنہوں، رومیو جولیٹ اور دیگر پریمی جوڑوں کے بارے میں ہم نے جو کچھ سُن رکھا ہے اُس سے اپنے پڑھنے والوں کو بھی مستفید کرنا چاہتے ہیں اس لیے کبھی کبھی اِن قصوں کی رنگینیاں اپنے کالم میں بھی ''انجیکٹ‘‘ کرنے کی کوشش کرتے ہیں! اور آج کے پریمی جوڑوں کو دیکھ کر بھی ہم محبت پر بہت حد تک یقین رکھنے کی تحریک پاتے ہیں!
بُرا ہو سوشل میڈیا کا جس نے صدیوں سے چلے آرہے تصورات کے محل دُھول چاٹتے کردیئے ہیں۔ جو کچھ ذہنوں میں ہے، تصورات میں بسا ہوا ہے وہ اگر تصورات ہی میں بسا رہے تو کیا ہے؟ اب آپ ہی بتائیے، کہاں عرب کی سرزمین پر زندگی گزارنے والے لیلٰی مجنوں اور کہاں راجستھان کی مٹی میں مدفون لیلٰی مجنوں! گویا مجنوں نہ ہوئے، رانا مجنوں ہوگئے! صحرائے عرب اور صحرائے راجستھان میں صرف ایک قدرِ مشترک ہے ... اونٹ۔ اس ایک قدرِ مشترک کی بنیاد پر لیلٰی مجنوں کو عرب کی سرزمین سے اُٹھاکر راجستھان میں لا پھینکنا کسی بھی طور قابلِ ستائش حرکت نہیں! اب اگر کسی نے سوشل میڈیا کی مدد سے شیریں فرہاد کو مہا راشٹر کا اور رومیو جولیٹ کو بہار شریف کا ثابت کرنے کی کوشش کی تو رہی سہی کسر پوری ہو جائے گی!
سوشل میڈیا نے وہ سب کچھ طشت از بام کردیا ہے جو کسی بھی حال میں منظر عام پر نہیں آنا چاہیے تھا۔ اس گئے گزرے زمانے میں لے دے کر ایک محبت رہ گئی ہے جس کے بارے میں طرح طرح کے خوش کُن تصورات انسان کا دل کسی حد تک بہلائے رکھتے ہیں۔ ایسے میں لیلٰی مجنوں اور اُن کے مزار کی تصاویر کا پوسٹ کیا جانا محبت سے متعلق سارے تصورات کی مِٹّی پلید کرنے کے لیے انتہائی کافی ہے! اگر ایسی ہی مزید دس پندرہ تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی گئیں تو سمجھ لیجیے لوگوں کے ذہن سے ساری محبت بیڈ سیکٹر کی نذر ہوکر ڈیلیٹ ہوجائے گی! جو کچھ پردے میں ہے اُسے پردے میں رہنے دینا ہی اچھا ہے کیونکہ پردہ جو اُٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا۔ اور اگر محبت کی داستانوں کا بھید کھلتا رہا تو ہمیں ''اللہ میری توبہ‘‘ کہنے کی مہلت بھی نہ مل پائے گی!