"MIK" (space) message & send to 7575

مدعی سست، گواہ چست

اِس دنیا کی، بلکہ اِس فِتنہ پرور دور کی ایک انتہائی انوکھی بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ متعلقین کو اطلاع دیئے بغیر اُن کے بارے میں تحقیق کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی کسی معاملے میں تحقیق کا بازار اس قدر گرم کیا جاتا ہے کہ تپش محسوس ہونے لگتی ہے۔ جو لوگ بھرپور کامیابی سے ہم کنار ہوچکے ہیں اُن کے بارے میں اس قدر تحقیق کی گئی ہے کہ اگر یہ ساری تحقیق اُن کے گوش گزار کردی جائے تو وہ شاید حیرت کے مارے سکتے میں رہ جائیں کہ ارے! ہم نے کن کن مراحل سے گزر کر یہ بھرپور کامیابی حاصل کی اور خود ہمیں کو اِس کا احساس تک نہ ہوسکا! 
دنیا بھر میں ہر شعبہ ناکام ترین لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔ جنہیں ہر اعتبار سے ناکام رہنے کا شوق ہو اُنہیں اِس شوق کی تکمیل سے کوئی روک نہیں سکتا۔ اور قدرت تو خیر بالکل نہیں روکتی۔ جسے ناکامی سے دوچار رہنے کا شوق ہو اُسے بھلا قدرت بھی کس خوشی میں روکے؟ مگر ناکام رہنے والوں کو اندازہ نہیںکہ وہ کامیابی سے تو بچ کر جی سکتے ہیں، ناکامی پر دادِ تحقیق دینے والوں سے بچ کر نہیں جی جاسکتے! کسی نے خوب کہا ہے ؎ 
بال چوٹی کے کریںگے بدنام 
یہ مُوئے پیچھے پڑے رہتے ہیں! 
ماہرین کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ یہ اگر کسی موضوع کے پیچھے پڑ جائیں تو اُس کا مُردہ اکھاڑ کر اور خراب کرکے ہی دم لیتے ہیں۔ انسان کامیاب رہے یا ناکام، ماہرین کا ''طریقِ واردات‘‘ تبدیل نہیں ہوتا یعنی وہ تحقیق سے باز نہیں رہتے۔ اگر کوئی بالکل ناکام ہو تب بھی تحقیق کا موضوع بن جاتا ہے۔ اور ناکامی کے مختلف پہلوؤں کو دنیا پر واضح کرنے کے لیے ماہرین دور کی کوڑیاں لاتے ہیں۔ لوگوں کو کامیابی کے حصول کے لیے دی جانے والی قیمت کا بھرپور احساس ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ کامیابی کی طرف جانے کے بجائے کچھ نہ کرکے ''پرسکون‘‘ زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں! یہ ان کی اپنی پسند و ناپسند کا معاملہ ہے۔ مگر ماہرین تحقیق و تجزیے کے ذریعے ناکامی کے رنگ میں بھی بھنگ ڈالنے سے گریز نہیں کرتے! کبھی کبھی تو ناکام انسانوں پر بھی اِس انداز سے تحقیق کی جاتی ہے کہ خود اُنہیں یعنی ناکام رہ جانے والوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اُنہوں نے اپنی زندگی کی مِٹّی پلید کی ہے یا واقعی (نہ چاہتے ہوئے اور نادانستگی کے عالم میں) کوئی کارنامہ انجام دے ڈالا ہے! 
ماہرین کی دست بُرد سے ازواجی زندگی کا شعبہ بھی محفوظ نہیں رہا۔ جن کی زندگی میں گھریلو زندگی کی خوشیاں نہیں لکھی ہوتیں یا زیادہ نہیں لکھی ہوتیں اُن پر تحقیق کے دوران ماہرین ایسے ایسے نکات بیان کرتے ہیں کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ گھر کی خوشیاں دوبالا کرنے کے لیے سو طرح کے نُسخے یوں بیان کیے جاتے ہیں جیسے ماچس کی تیلی جلائی اور موم بتّی سُلگالی۔ اگر گھریلو زندگی کا اندھیرا دور کرنا ایسا ہی آسان ہوتا تو لوگ یہ اندھیرا دور نہ کرلیا کرتے، اپنے ظاہر و باطن کو جگمگانے میں تساہل یا تاخیر سے کیوں کام لیتے! 
دس پندرہ سال سے کراچی میں ایک ایسی بڑی اور واضح تبدیلی رونما ہوئی ہے جو اب کراچی کی ''شناخت‘‘ کا درجہ اختیار کرتی جارہی ہے۔ کراچی میں لوگ رات رات بھر ہوٹلوں میں بیٹھ کر گپ شپ لگانے کے عادی ہوگئے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ وہ بھی کیا کریں، اُنہیں ایسا کرنے ہی سے لطف حاصل ہوتا ہے۔ ہوٹلوں پر چائے تو رسمی کارروائی کے طور پر پی جاتی ہے، اصل مزا تو بیٹھنے اور دنیا بھر کی ہانکنے کا ہے ؎ 
مے سے غرض نشاط ہے کس رُوسیاہ کو 
اِک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے! 
ماہرین کی نظر اِس طرف گئی نہیں ورنہ وہ رات دیر گئے تک جاگنے کے بارے میں ایسے ایسے ہیبت ناک نکتے بیان کریں گے کہ ہوٹلوں میں بیٹھنے والے ڈر کے مارے گھر سے نکلنا بھی چھوڑ دیں گے! 
مثل مشہور ہے کہ مُلّا کی دوڑ مسجد تک۔ یہی حال ماہرین کا ہے۔ جب اُنہیں کوئی اور ڈھنگ کا موضوع نہیں سُوجھتا یا دکھائی نہیں دیتا تب وہ موٹاپے کی مِٹّی پلید کرنے، کھال اتارنے پر تُل جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں موٹاپے پر انتہائی فعال تحقیق کی جارہی ہے یعنی ماہرین متحرک ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس معاملے کا کوئی بھی پہلو بے نقاب ہونے سے رہ نہ جائے۔ 
موٹاپے اور موٹاپے پر تحقیق کے درمیان چھتیس کا آنکڑا ہے۔ گویا ع 
ہم سے تو تم کو ضِد سی پڑی ہے 
طرفہ تماشا یہ ہے کہ موٹاپے پر کی جانے والی تحقیق میں جس قدر اضافہ ہوتا جارہا ہے، موٹاپا اُسی قدر بڑھتا جارہا ہے۔ لگتا ہے موٹاپے نے طے کرلیا ہے کہ جس قدر تحقیق ہوتی جائے گی، وہ اُسی قدر لوگوں کی زندگی کا حصہ بنتا جائے گا! یہ ایسا ہی معاملہ جیسے کسی پر جِن چڑھ گیا ہو اور اُس جن کو اتارنے کی کوشش کرنے والوں پر بھی جن چڑھ جائیں! 
امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے موٹاپے کے حوالے سے چالیس سال سے زائد عمر کے دس ہزار افراد کا بارہ سال تک جائزہ لینے کے بعد ''انکشاف‘‘ کیا ہے کہ جو لوگ معمول کی ورزش کے دوران تھوڑا بہت وزن اٹھاتے ہیں وہ موٹاپے سے دور رہتے ہیں۔ وزن اٹھانے کی عادت پیٹ اور کمر کے گرد جمع ہونے والی چربی کو پگھلانے میں مدد دیتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ پیٹ اور کمر کے گرد چربی جمع ہونے سے موٹاپا طاری نہ بھی ہو یعنی توند نہ نکلے تب بھی دل کے امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ تو برقرار رہتا ہے۔ ماہرین نے یہ انتباہ یقیناً اِس خیال سے کیا ہے کہ لوگ کسی نہ کسی طور موٹاپے سے گلو خلاصی کی طرف آئیں اور اُن کی توند نہ نکلے۔ 
یہ بات ہماری سمجھ میں اب تک نہیں آئی کہ کسی کی توند نکل آئے تو دوسروں کو پریشانی کیوں لاحق ہو جاتی ہے۔ جس کی توند ہے اُسے فکر نہیں اور باقی پورا شہر افسردہ دِلی کا شکار ہوا جاتا ہے! اِسے کہتے ہیں مدعی سُست، گواہ چُست۔ 
ایک طرف تو ماہرین کہتے ہیں کہ توند نکلنے یعنی موٹاپے کا شکار ہونے سے فلاں فلاں بیماریاں لاحق ہوتی ہیں اور انسان کا وجود سُستی و کاہلی کا شکار ہوتا جاتا ہے۔ اور دوسری طرف مختلف حوالوں سے کی جانے والی تحقیق یہ بھی ظاہر و ثابت کرتی ہے کہ توند والے یعنی موٹاپے سے دوچار افراد خاصی پُرلطف طرزِِ عمل سے ہم کنار رہتے ہیں! ہم نہیں کہتے ہیں، ماہرین ہی سے پوچھ لیجیے کہ موٹے افراد مجموعی طور پر کیسی زندگی بسر کرتے ہیں۔ آپ کو بتایا جائے گاکہ موٹے افراد انتہائی زندہ دل ہوتے ہیں، بات بات پر قہقہے لگاکر خود بھی ہشّاش بشّاش رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی خوش و خرّم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اگر موٹاپا زندہ دلی کی علامت ہے تو پھر اُسے خیرباد کیوں کہیے۔ ایسی فٹنس کس کام کی جس میں توند تو نہ نکلے مگر زندگی سے زندہ دِلی ہی نکل جائے! ماہرین کی آراء کی روشنی میں آپ چاہیں تو شوق سے اپنائیں، ہمیں تو ایسا کوئی بھی ہیلتھ پیکیج کسی بھی حالت میں قبول نہیں جس میں بالکل ہموار (بلکہ پسلیوں سے لگا ہوا) پیٹ تو ہو مگر زندہ دِلی ہی نہ پائی جاتی ہو۔ ایسی زندگی کس کام کی جس میں انسان کھل کر قہقہہ لگانے سے بھی جائے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں