''مہذّب‘‘ دنیا کی خباثتیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ جن ممالک اور خطوں نے مادّی ترقی کا دامن تھام کر زندگی کا عمومی معیار بلند کر لیا ہے اُن کی نظر میں باقی دنیا محض وحشی ہے اور غار کے زمانے میں جی رہی ہے۔ ہر ملک، ہر معاشرہ اپنے تمام معاملات کی اونچ نیچ دیکھتے ہوئے زندگی کی راہ پر آگے بڑھتا ہے۔ ہمہ گیر ترقی سب کا خواب ہے مگر اِس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے سے متعلق سب کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں۔ بعض معاشرے سب کچھ داؤ پر لگانے کے لیے تیار رہتے ہیں اور بعض ایسا بالکل نہیں چاہتے۔
مغرب نے تین چار صدیوں کے دوران جو کچھ پایا ہے وہ غیر معمولی محنت اور بہت سی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ہمہ گیر مادّی ترقی یقینی بنانے کے حوالے سے اہلِ مغرب کی ایک بڑی قربانی یہ ہے کہ انہوں نے بہت سے معاملات میں حرام و حلال کے فرق کا شعور دفنا دیا ہے۔ دنیا کو اپنا کر عقبیٰ کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ مادّے کو اپنا کر روح کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ خالص دُنیوی زندگی کو انہوں نے اپنا سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اب دنیا ہی ان کے لیے سب کچھ ہے، عقبیٰ اور دُنیوی زندگی سے متعلق حساب کتاب کا کوئی تصور ان کے ذہن میں راسخ اور واضح نہیں۔ مذہب کو انہوں نے اب تک تھام ضرور رکھا ہے مگر محض علامتی انداز سے، رسمی کارروائی اور خانہ پُری کے کھاتے میں۔ مذہب کا عمل دخل اُن کی زندگی میں برائے نام بھی نہیں۔ ہاں، کسی مجبور قوم کو مزید کچلنے کی خاطر مذہب کو خوب استعمال کیا جاتا ہے۔ مسلم ممالک کے خلاف عوام کے جذبات بھڑکائے رکھنے کے لیے مغربی دنیا کے حکمران صلیبی جنگوں کے ماحول کو اُن کے ذہنوں میں تر و تازہ رکھتے ہیں۔ علم، تحقیق اور میڈیا... تینوں محاذوں پر مسلم مخالف جذبات کو سَرد پڑنے سے روکنے کا پورا اہتمام کیا گیا ہے۔ مذہب کے نام پر کی جانے والی تحقیق میں بھی اسلام اور اہلِ اسلام کو نشانے پر رکھا گیا ہے۔ بھرپور کوشش کی جا رہی ہے کہ اسلام کو ہر اعتبار سے جدید دور کے تقاضوں سے بے بہرہ دین ثابت کیا جائے تاکہ لوگ اس کی طرف مائل نہ ہوں۔
انفرادی معاملات میں بھی یہ بات محسوس کی جا سکتی ہے اور مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ جو لوگ کیریئر یا کاروبار میں کامیابی حاصل کرلیں وہ بلند تر معیارِ زندگی کے حامل ہو جاتے ہیں اور پھر یہ انفرادی یا ذاتی نوعیت کی ترقی اُن کے ذہن میں کجی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ بلند مقام پر بیٹھے ہوئے لوگوںکو نیچے رہ جانے والے لوگ حقیر دکھائی دیتے ہیں۔ اہلِ مغرب کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اُن کے نزدیک دنیا ہی سب کچھ ہے۔ جس نے اس دنیا میں کچھ پایا وہی کسی قابل ہے، باقی سب اس قابل بھی نہیں کہ اُنہیں انسانوں میں شمار کیا جائے۔ اور معاملہ اِس بات پر نہیں رکتا بلکہ کئی قدم آگے جاکر اہلِ مغرب یہ بھی چاہتے ہیں کہ دنیا اُن کے نقشِ قدم پر چلے۔ اہلِ مغرب نے جو کچھ بھی پایا ہے اُس سے کہیں زیادہ چھوڑ دیا، پھینک دیا ہے۔ اُنہوں نے دین کو خیرباد کہتے ہوئے خالص دُنیوی (سیکولر) طرزِ فکر اپنائی ہے اور اب اُن کی خواہش اور کوشش ہے کہ باقی دنیا بھی ایسا ہی کرے۔ اور جو ایسا نہ کرے وہ صریح دشمن ہے، بس۔
مغرب کے انتہائی باخبر ذہنوں میں کیا ابھرتا ہے، اِس کا اندازہ معروف امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے ایڈیٹوریل بورڈ کے ایک مضمون سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ''آپشنز فار ریموونگ کم جانگ اُن‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضمون میں اُن تمام طریقوں پر غور کرنے کی ترغیب دی گئی ہے جن کے ذریعے شمالی کوریا کے شدید امریکا مخالف حکمران کم جانگ اُن کو ہٹایا جاسکتا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طور شمالی کوریا میں قیادت اور طرزِ حکومت تبدیل ہو جائے۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کے بزرجمہروں نے ایک مشورہ یہ دیا ہے کہ شمالی کوریا کے حکمران کو ہٹانے کے لیے وہاں کے عوام کو بھوکا مار دو! شمالی کوریا پر پہلے ہی بہت سی پابندیاں عائد ہیں۔ ان پابندیوں کے باعث شمالی کوریا میں غذا کے ساتھ ساتھ غذائیت کی بھی شدید قلت پائی جاتی ہے یعنی لوگوں کو کھانے کو کم ملتا ہے اور جو ملتا ہے اُس کا معیار بھی وہ نہیں ہوتا جو مطلوب ہے۔ شمالی کوریا کی 40 فیصد آبادی غذا اور غذائیت کی شدید کمی کا شکار ہے۔ ایسے میں وال اسٹریٹ جرنل کے ایڈیٹرز نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ شمالی کوریا کو غذائی اجناس کی سپلائی روک کر وہاں کی قیادت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے۔
اِسے کہتے ہیں ماروں گھٹنا پُھوٹے آنکھ۔ شمالی کوریا کی حکومت اگر امریکا مخالف ہے تو اُسے گرانے کے لیے عوام کو سزا دینا کہاں کی دانش مندی اور انسانیت ہے؟ ایسے اقدامات تو مکمل یعنی باضابطہ عملی حالتِ جنگ میں ہونے پر بھی نہیں کیے جاتے۔ کسی بین الاقوامی ادارے کا منشور جنگ کے زمانے میں بھی ایسے اقدامات کی اجازت نہیں دیتا۔ حد یہ ہے کہ دشمن کے فوجی گرفتار کرلیے جائیں تو اُن سے بھی بدسلوکی کی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ ایسے میں عام شہریوں کو بھوکا مارنے کی بات! ع
شرم تم کو مگر نہیں آتی!
شمالی کوریا کے مجموعی حالات ڈھکے چھپے نہیں۔ وہاں کے عوام جس اذیت سے دوچار ہیں اُس کا علم ساری دنیا کو ہے۔ امریکا سے اتنی بات ہضم نہیں ہو پارہی کہ شمالی کوریا میں اُس کی مخالف کمیونسٹ حکومت ہو۔ امریکا اور یورپ چاہتے ہیں کہ ساری دنیا میں اُن کی حاشیہ بردار لبرل ڈیموکریٹ حکومتیں ہوں۔ وہ قیادت کا ماڈل بھی اپنی مرضی کا چاہتے ہیں اور طرزِ حکومت بھی کسی اور کی نہیں، اُن کی پسند کی ہو۔
امریکا اور یورپ مادّی ترقی میں بہت آگے ہیں مگر جب بات اخلاقی اقدار کی آجائے اور انسانیت کا ذکر چھڑ جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ وہ بھی اب تک غار کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ کوشش صرف یہ ہے کہ اپنا پیٹ بھرا رہے، باقی دنیا بھوکی مرتی ہے تو مرتی رہے۔ شمالی کوریا کے معاملے میں وال اسٹریٹ جرنل کے بلند پایہ ذہنوں نے جو گھٹیا پن دکھایا ہے اُس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مادّی ترقی کے حوالے سے نِت نئی بلندیاں چُھونے والے اب تک اخلاقی اعتبار سے کس پاتال میں جی رہے ہیں اور ضمیر کے حوالے سے اُن کے قلب و ذہن کس قدر کھوکھلے ہیں! شمالی کوریا کے لیے خوراک کی سپلائی کم کرنے یا مکمل طور پر روک دینے سے نقصان میں کون رہے گا؟ صرف عوام۔ اور عوام بھی وہ جو پہلے ہی انتہائی حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اِسے کہتے ہیں مرے کو مارے شاہ مدار۔ طاقت والوں کا ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ وہ طاقت والوں سے نہیں ٹکراتے کیونکہ اُنہیں اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ طاقت کیا گُل کِھلا سکتی ہے! کچلے ہوؤں کو مزید کچلنا کون سا مشکل کام ہے؟ اور وہ بھی تہذیب سِکھانے کے نام پر! جو بات نہ مانے اُسے بھوکا مار دو! داد دیجیے کہ امریکا کے اعلیٰ ذہنوں میں غار کے زمانے کی ذہنیت اب بھی سانس لے رہی ہے، جڑ پکڑے ہوئے ہے! اگر یہی جدید دور کی تہذیب ہے اور فکر و نظر کی بلندی اِسی کو کہتے ہیں تو امریکا اور اُس کے ہم نواؤں کو بہت دور سے سات سلام!