گزشتہ ماہ کی بات ہے کہ قربانی کے جانور منہ مانگے داموں خریدے گئے اور انسانوں کو شرمندہ کرگئے۔ ہم بھی کس دور میں جی رہے ہیں کہ ہر چیز کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، اور برائے نام بھی اضافہ نہیں ہو رہا ہے تو بس انسان کی قدر و قیمت میں۔ انسان کا خون بھی ارزاں ہے اور عزتِ نفس بھی۔ اور حق تو یہ ہے کہ عزتِ نفس کی برائے نام بھی قیمت بچی ہے نہ قدر۔
دس پندرہ دن سے سبزی خریدنے کے لیے گھر سے نکلنے کو جی ہی نہیں چاہ رہا۔ عیدالاضحٰی کے بعد کچھ دن معاملات نارمل رہے اور پرنالے پھر وہیں بہنے لگے۔ معاملہ یہ ہے کہ ٹماٹر انسانوں کو نیچا دکھانے، شرمندہ کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ دس بارہ دن ہوگئے کہ اِس کی قیمت نیچے آنے پر آمادگی ظاہر ہی نہیں کر رہی۔ اب تو وہ زمانہ محض یادوں ہی کا حصہ ہوکر رہ گیا ہے جب جلسوں میں انٹ شنٹ تقریر کرنے والوں کی تواضع گندے انڈوں اور ٹماٹروں کے ذریعے کی جاتی تھی۔ اب کسی سے نفرت بھی ہو تو اُسے انڈے اور ٹماٹر مارنے سے پہلے انسان دس بار سوچتا ہے!
کبھی آلو آنکھیں دکھاکر خون کا پانی کرتا ہے اپنی قیمت کے ڈیپ فرائر میں خریداروں کے دل و دماغ کو بُھون کر رکھ دیتا ہے اور کبھی پیاز اشک بہانے پر مجبور کردیتی ہے۔ لہسن کے بارے میں سنا ہے کہ کولیسٹرول گھٹانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے مگر اُس کی قیمت بھی اِس قدر ہے کہ سالن سے ہٹ کر استعمال کرنے کا سوچیے تو حواس کا کولیسٹرول بے قابو ہونے لگتا ہے! بھنڈی کے اپنے نخرے ہیں۔ کبھی کبھی اُس کے اندر کی چکناہٹ باہر نکل کر اُس کی قیمت میں شامل ہو جاتی ہے یعنی بھنڈی ہاتھ نہیں آتی، بس پھسلتی جاتی ہے! کریلے کے بارے میں کبھی غور کیا ہے آپ نے؟ اِس قدر کریلا مگر پھر بھی کتنا قدر و قیمت والا کہ لوگ ڈھونڈتے پھریں! توری کسی زمانے میں گھر میں لگائی جانے والی بیل کے ذریعے اس قدر حاصل ہوتی تھی کہ لوگ کھا کھاکر تنگ آجاتے تھے۔ اب یہی توری سبزی کے ٹھیلے پر اہتمام سے، سجی سجائی ملتی ہے۔
دل کو جلانے والا معاملہ صرف سبزیوں تک محدود نہیں۔ کھانے پینے کی اور بھی بہت سی اشیاء خون پینے پر بضد رہتی ہیں۔ دہی کی مثال بہت واضح ہے۔ کوئی تہوار ہو یا ذرا سی زیادہ گرمی پڑ جائے تو دہی بازار سے یوں غائب ہو جاتا ہے جیسے ہمارے مزاج سے قناعت پسندی رخصت ہوگئی ہے! ایسے میں اگر دہی کی تلاش میں نکلیے تو دماغ کی لَسّی بنتے دیر نہیں لگتی! کبھی کبھی دودھ بھی دہی کی دیکھا دیکھی قیامت ڈھانے پر تُل جاتا ہے اور ذرا سی دیر میں ذہنی کیفیت کچھ ایسی ہو جاتی ہے جیسے کسی نے گرم دودھ میں لیموں نچوڑ دیا ہو!
ہم بنیادی طور پر ''گوشت خور‘‘ قوم ہیں۔ گھریلو بجٹ کا بڑا حصہ گوشت کی نذر ہو جاتا ہے۔ مرغی کا گوشت کسی بھی اعتبار سے اتنا طاقتور اور لذیذ نہیں کہ 200 روپے فی کلو سے زیادہ نرخ پر کھایا جائے مگر ہم یہی پُھسپُھسا اور بے لذت گوشت 350 روپے فی کلو کے نرخ پر بھی خریدتے ہیں! بکرے کے گوشت کی قیمت اتنی ہے کہ خریدنا تو دور کی بات ہے، قصاب سے قیمت معلوم کرتے ہوئے بھی دل تھامنا پڑتا ہے! من ہی من دعا مانگنا پڑتی ہے کہ یا اللہ! زور کا جھٹکا دھیرے سے لگے! اب رہ گیا بیف یعنی گائے، بیل وغیرہ کا گوشت۔ یہ بھی رفتہ رفتہ قوتِ خرید کی حدود سے باہر ہوتا جارہا ہے۔
ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ہر معاملہ ٹیکنالوجی کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ گیا ہے۔ ہم بھی اپنے اطراف ٹیکنالوجی کی بہار دیکھ رہے ہیں۔ قدم قدم پر نئی چیزیں زندگی کو آسان بنانے کے نام پر انتہائی دشوار بناتی جارہی ہیں۔ زندگی کا کوئی بھی معاملہ اب ٹیکنالوجی کی دسترس سے باہر نہیں۔ مگر ہاں، ایک ٹیکنالوجی ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ اِسے آپ ''پرائسنگ ٹیکنالوجی‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں! دنیا بھر میں افراطِ زر کو قابو میں رکھنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے تاکہ عوام زیادہ سے زیادہ سہولت اور آسانی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ عوام کو زندگی سے بیزار کرنے والا ہر کام مطلوب جوش و جذبے سے کیا جارہا ہے! کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں قابو میں رکھنا ہر حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہوتا ہے تاکہ لوگ پرسکون رہتے ہوئے اپنی استعداد کے مطابق محنت کریں، زیادہ سے زیادہ بارآور ثابت ہوں اور معیشت کے استحکام میں اپنا کردار پوری ایمانداری اور تندہی سے ادا کرسکیں۔ ہمارے ہاں اب تک قائم کی جانے والی حکومتوں میں سے کسی کو بھی اس بات کی توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ عوام کو بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل بنانے پر توجہ دے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ انتہائی بنیادی اشیاء و خدمات کی قیمت قابو میں رکھی جائے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ لوگوں کو پانی، بجلی اور گیس جیسی انتہائی بنیادی سہولتوں پر بھی بجٹ کا بڑا حصہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ اِس سے آگے بڑھیے تو کھانے پینے کی اشیاء کا اہتمام کرنے پر بھی بجٹ کا بڑا حصہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد تعلیم اور صحت وغیرہ کے لیے کچھ خاص بچتا نہیں۔ اور رہی تفریح تو اُس کے لیے خواب حاضر ہیں۔ خواب دیکھنے پر حکومت نے کوئی پابندی نہیں لگائی۔ خواب میں جہاں کی بھی سیرکرنی ہے، کر آئیے اور وہ بھی مفت! یہ ہے صورتِ حال یعنی سیدھی سی زندگی جلیبی کی طرح گھماؤ دار ہوکر رہ گئی ہے! ؎
فکرِ معاش، عشقِ بُتاں، یاد رفتگاں
اِس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کِیا کرے!
پاکستان خانہ جنگی سے تباہ حال کوئی افریقی ریاست نہیں۔ یہ خشکی سے گِھرا ہوا، وسائل سے محروم ملک بھی نہیں۔ محلِ وقوع ایسا نہیں کہ مجبوریاں دامن گیر رہیں اور ترقی کا عمل روک دیں۔ وسائل بھی ہیں، پرجوش اور باصلاحیت افرادی قوت بھی ہے مگر پھر بھی پژ مُردگی اور یتیمی سے چھائی ہوئی ہے۔ ہر معاملے کو زیادہ سے زیادہ بگڑنے کی کھلی چُھوٹ دے دی گئی ہے۔ حکومت نے تو جیسے طے کرلیا ہے کہ معاملات کو وہاں پہنچادیا جائے جہاں لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا بھی جُوئے شیر لانے کے مترادف ہو جائے! اب کیا اناج، سبزی، گوشت، دودھ وغیرہ ایسے آئٹم ہیں جن کی قیمت پر قابو پانا کوئی بہت بڑا چیلنج ہو؟ یقیناً نہیں مگر عوام کی مشکلات حل کرنے کے بارے میں سوچنے کی توفیق ہی نصیب نہیں ہو رہی۔
ہم کوئی للو پنجو قوم نہیں، جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاست کے امین ہیں۔ صورتِ حال پر ہنسی کیوں نہ آئے کہ دنیا کو منہ دینے کی باتیں ہو رہی ہیں اور گھر کی حدود میں عام آدمی کے لیے چند بنیادی سہولتوں کا ڈھنگ سے اہتمام کرنے کی صلاحیت و سکت بھی نہیں پائی جارہی ... یا یوں کہیے کہ ایسا کرنے کی نیت ہی نہیں۔ یہ صورتِ حال!