"MIK" (space) message & send to 7575

منہ ٹھیک سے میٹھا نہ ہوا!

پیش گوئی کرنے والوں اور انشورنس ایجنٹس میں ایک واضح قدرِ مشترک ضرور ہے ... یہ کہ دونوں ہی اپنے موقف پر ڈھٹائی کی حد تک ثابت قدم رہتے ہیں! آپ بیس بار انکار کیجیے، بلکہ دھتکار دیجیے تب بھی انشورنس ایجنٹ اکیسویں بار آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیمہ پالیسی کی خصوصیات اور چیدہ چیدہ نکات بیان کرنے سے باز نہیں آئے گا۔ یہی حال پیش گوئی کرنے والوں کا ہے۔ ہزار پیش گوئیاں بھی غلط ثابت ہوجائیں تو اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے یہ اللہ کے بندے حالات کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے پھر کوئی نہ کوئی پیش گوئی کر بیٹھتے ہیں۔ 
ایک زمانے سے ہم سنتے آرہے ہیں کہ آنے والے دور میں جنگیں زمین کے لیے ہوں گی نہ مال و دولت کے لیے بلکہ یہ تو پانی کے لیے ہوں گی۔ ماہرین جس دور کے حوالے سے آبی جنگوں کی بات کرتے تھے وہ دور کب کا آچکا ہے مگر پینے کے پانی کا معاملہ اب تک خانہ جنگیوں میں الجھا ہوا ہے، جنگ کی منزل تک نہیں پہنچا۔ 
اپنے حصے کا دریائی پانی روکے جانے پر ہم نے بھارت سے لڑنے بھڑنے پر معاملہ پہلے مرحلے میں اللہ اور دوسرے مرحلے میں آبی تنازعات کے عالمی کمیشن کے حوالے کرنے کو ترجیح دی ہے۔ مگر خیر، خود بھارت میں دریائی پانی کی تقسیم کے حوالے سے کئی ریاستوں کے درمیان شدید اختلافات رہے ہیں اور معاملات عدالت تک بھی پہنچے ہیں۔ جنوب کی ریاستوں میں کئی دریاؤں کے پانی کی تقسیم سے متعلق مناقشے منظر عام پر آتے رہے ہیں۔ دریائے کاویری اس معاملے میں خاصا بدنام رہا ہے۔ بیٹھے پانی کے حصول کا یہ ذریعہ کروڑوں افراد کے منہ کا مزا خراب کرتا آیا ہے۔ اس دریا کے پانی کی تقسیم پر پائے جانے والے تنازع نے کئی ریاستوں کے درمیان بارہا مہا بھارت کا ماحول پیدا کیا ہے۔ 
خیر ہو مغربی بنگال اور اڑیسہ کی جنہوں نے پانی پر لڑنے کی روایت کو کچھ دیر کے لیے بالائے طاق رکھ کر ایک ایسے اشو پر جنگ کا ماحول پیدا کیا جس کے بارے میں لوگوں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ یہ منفرد جنگ دو سال قبل شروع ہوئی جب ایک حسین و لذیذ سوغات کی ایجاد یا اختراع کا کریڈٹ لینے کی کوشش شروع ہوئی۔ مغربی بنگال اور اڑیسہ دونوں مشرقی ریاستیں ہیں اور اِس مناسبت سے اُنہوں نے دعوٰی کیا کہ رس گُلّے اُن کی فضاء میں طلوع ہوئے تھے! جی ہاں، دونوں ہی ریاستیں لذتِ شیریں کی دنیا میں رس گُلّے متعارف کرانے کا کریڈٹ لینے میدان میں نکل آئیں۔ جس طور ماہرین آنکھیں بند کرکے فرماتے ہیں کہ ڈائنوسار بیس، تیس یا چالیس کروڑ سال پہلے روئے ارض پر مٹر گشت کیا کرتے تھے بالکل اُسی طور اڑیسہ کے ایک وزیر نے سلطان راہی اور اقبال حسن کے سے انداز سے بڑھک لگائی کہ اڑیسہ کی سرزمین پر رس گُلّے 600 سال سے ہیں! انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ ڈھائی تین سو سال پہلے کا لٹریچر تو مل نہیں پاتا، رس گُلّوں کے 600 سالہ وجود کا ثبوت کہاں سے لائیں گے!
مغربی بنگال بضد تھا کہ مارکیٹ میں رس گُلّے اُس نے پیش کیے ہیں۔ بس، دونوں میں ٹھن گئی۔ اور جب معاملہ آسانی سے نہ سلجھا تو انہوں نے جیوگرافیکل انڈیکسیشن رجسٹری سے رجوع کیا۔ یہ سرکاری ادارہ کسی بھی چیز کی اوریجن یعنی اصلیت کو کھوج نکالتا ہے اور اس حوالے سے سند بھی جاری کرتا ہے۔ بنگال کا جادو زمانے بھر میں مشہور ہے۔ اور حسن کی بات ہو تو بنگالی دوشیزائیں بھی کسی سے کمتر نہیں گردانی جاتیں۔ بنگال کی موسیقی بھی بہت مدھر اور جاں فزا ہے۔ صنعت و حرفت میں بھی بنگال کا شہرہ رہا ہے۔ سُنا ہے ڈھاکہ میں کاریگر ایسی مہین و نازک ململ تیار کرتے تھے کہ پورا تھان ماچس کی ڈبیا میں بند کیا جاسکتا تھا! نیک نامی کے لیے یہ سب کچھ کیا کم تھا کہ اب بنگال کے تاج میں رس گُلّے بھی جَڑ گئے ہیں! 
ایک زمانے سے ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ جب کہیں لڑائی ختم ہوتی ہے تو مٹھائی منگاکر فریقین ایک دوسرے کا منہ میٹھا کراتے ہیں۔ رس گُلّوں کی مہربانی سے پہلی بار یہ دیکھا کہ منہ میٹھا کرنے والی چیز نے دو صوبوں کے درمیان منہ کا ذائقہ خراب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا! جب لڑنے کے لیے کوئی بات نہیں ہوتی، کوئی جواز ہاتھ نہیں لگتا تو ایسے ہی عجیب و غریب واقعات رونما ہوا کرتے ہیں۔ غالبؔ نے اِسی کیفیت کو یوں بیان کیا ہے ؎ 
قطع کیجے نہ تعلق ہم سے 
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی! 
مغربی بنگال اور اڑیسہ نے سوچا ہوگا کب تک آبی وسائل کے حوالے سے محرومی کا راگ الاپ کر لوگوں کا ناک میں دم کیا جائے، ذرا ''غیر روایتی‘‘ انداز سے کچھ ایسا کیا جائے کہ دنیا دیکھے اور سیکھے کہ ع 
... اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا 
پانی، تیل، معدنیات وغیرہ پر تو سبھی لڑتے ہیں، اچھا ہے کہ کسی بے ضرر اور لذت بخش چیز کو سببِ نزاع میں تبدیل کیا جائے تاکہ دانشِ بے بدل کی سند رہے! ویسے بھارت ہے بھی اتنا بڑا اور نسلی، لسانی و ثقافتی تنوع بھی اِس قدر ہے کہ بات بے بات مناقشوں کا سر اٹھانا اور رائی کے دانے کا پربت میں تبدیل ہوجانا حیرت انگیز ہے نہ تشویش ناک۔ 
مغربی بنگال اور اڑیسہ نے ایک ستم البتہ ایسا ڈھایا ہے کہ دل میں کسک سی رہ گئی۔ رس گُلّوں کو فساد کی جڑ میں تبدیل کرکے دونوں نے عدالتی کارروائی تک معاملہ پہنچایا۔ یہ بات بھی دکھ دینے والی ہے۔ ایک من بھاون، میٹھی چیز کو تلخی کے سبب کی شکل دے کر دونوں نے بہت سوں کو بے مزا کیا ہوگا۔ باضابطہ تسلیم شدہ مٹھائی اور کسی میٹھی چیز کی تقسیم پر تو لڑائی ہوسکتی ہے اور ہوتی ہی ہے (مثلاً پیپلز پارٹی کی تقریبات میں کیک کٹائی کے بعد ''کیک لُٹائی‘‘ یا پی ٹی آئی کے جلسوں کے اختتام پر لنگر کی تقسیم وغیرہ) مگر خود مٹھائی ہی کو لڑائی کی بنیاد بنانا کچھ اچھی بات تو نہیں۔ خیر، ہم بات کر رہے ہیں اِس تنازع کے حوالے سے دل میں رہ جانے والی کسک کی۔ بنگال کے میٹھے دہی کی طرح اہلِ بنگال کے تیار کردہ رس گُلّے بھی ہم بہت چاؤ سے کھاتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے استعمال ہونے والی چیز کے ہم اتنے رسیا ہیں کہ اِس سے پیٹ بھرنے میں بھی کچھ جھجک یا باک محسوس نہیں کرتے! ہمیں حیرت صرف اس بات پر ہے کہ مغربی بنگال کے ہاتھوں مقدمہ ہار جانے پر اڑیسہ کے حکام نے اپنی شکست کی ذمہ داری آئی ایس آئی پر نہیں ڈالی! جہاں اور بہت سے (بے ڈھنگے) معاملات اہلِ بھارت آئی ایس آئی کو موردِ الزام ٹھہرانے اور اُس کے سر پر کچرے کا ٹوکرا اُلٹنے سے اجتناب نہیں برتتے تو اِس معاملے میں دشمن کی ایجنسی کو ''استثناء‘‘ سے کیوں نوازا! اگر اِس ''رس گُلّا جنگ‘‘ میں کوئی فریق آئی ایس آئی کو بھی گھسیٹ لیتا تو لڑنے کا حق ادا ہو جاتا اور اہلِ وطن کی نظر بھی عزت بھی رہ جاتی کہ دشمن کو مزید بدنام کرکے منہ رس گُلّوں سے بھر دیا! سچ تو یہ ہے کہ بھارت کی سرزمین پر کسی مناقشے کے ذیل میں اگر آئی ایس آئی کا نام نہ لیا جائے تو بھارت کو انہیں چین نہیں آتا۔ وہ اس قدر خوف کا شکار ہو چکے کہ انہیں سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے بس ایک ایجنسی سے ڈر آتا ہے اور کیوں نہ آئے کہ اس کی دھاک پوری دنیا پر بیٹھ چکی!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں