"MIK" (space) message & send to 7575

جواب دہ تو ہمیں ہیں…

اردو کے شعرا میں ہجر کا موضوع انتہائی مقبولیت سے ہم کنار رہا ہے۔ ہجر کے زمانے کا ذکر اِس طور کیا جاتا ہے کہ پڑھنے والوں کی پلکیں بھیگ جاتی ہیں۔ ہجر کے عالم میں دل و دماغ پر جو کچھ بیتتی ہے‘ اُسے بیان کرنے کے معاملے میں بیشتر شعرا مبالغے کی حدود میں داخل ہو جاتے ہیں۔ غالبؔ نے کہا تھا ؎ 
کب سے ہوں، کیا بتاؤں، جہانِ خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں!
جو کچھ غالبؔ نے ہجر کی راتوں کے حوالے سے بیان کیا‘ کچھ ویسا ہی معاملہ ہمارا اور صحافت کا بھی ہے۔ کم و بیش 34 برس سے ہماری راتیں صحافت کی نذر ہو رہی ہیں۔ اتنی طویل مدت کے بعد تو ہمیں عجیب و غریب خبروں کا عادی ہو جانا چاہیے مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔ بہت سی خبریں ایسی ہیں جو اب بھی آتی ہیں تو قیامت ڈھا جاتی ہیں۔ 
جب کبھی کوئی ایسی خبر آتی ہے جس میں تیزی سے وزن گھٹانے کا ذکر ہو اور یہ کارنامہ انجام دینے والے کا تعارف بھی کرایا گیا ہو تو ہماری شامت آتی ہے۔ پہلے تو گھر میں کلاس لی جاتی ہے کہ دیکھو، یہ بھی تو ہے جو وزن کم کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ پھر آپ ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ اِس کے بعد احباب کا نمبر آتا ہے۔ یو ٹیوب پر اس نوعیت کی ویڈیوز دیکھ دیکھ کر احباب وزن گھٹانے کے حوالے سے اپنا وژن بیان کرتے رہتے ہیں یعنی نسخے سُجھاتے رہتے ہیں۔ مرزا تنقید بیگ کا اپنا طریق ہے۔ وہ ایسی کوئی بھی خبر پڑھ کر کوئی مشورہ دیتے ہیں نہ نسخہ سُجھاتے ہیں بلکہ براہِ راست طنز کے نشتر چبھونے پر اُتر آتے ہیں۔ اُن کی طرف سے استدلال کی انتہا انوکھی ہے۔ جب کچھ اور نہیں سُوجھتا تو کہتے ہیں ''جب تم اپنے کالموں میں وزن پیدا نہیں کر پاتے تو اپنا وزن بڑھاکر اِس کمی کی تلافی کرتے ہو!‘‘
موٹاپے سے متعلق کسی خبر کے چھپنے کی دیر ہوتی ہے‘ لوگ ہمیں مطعون کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بہت سوں کا یہ خیال ہے کہ جو ''تھوڑا بہت‘‘ موٹاپا ہے‘ وہ ہم نے محض فیشن کے نام پر یا پھر ''کمپنی کی مشہوری کے لیے‘‘ اپنے آپ پر نافذ کر رکھا ہے! یقین کیجیے، ایسا ہرگز نہیں۔ ہم بھی پتلی پتلی ٹانگوں والے لونڈوں لپاڑوں کی طرح ''سلِم‘‘ دکھائی دینا چاہتے ہیں مگر جب اِس منزل تک پہنچنے کے سفر کے دوران پیش آنے والی صعوبتوں کا بیان پڑھتے ہیں تو سارا جوش سمندر کے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے!
دماغی قوت بڑھانے اور اُسے بروئے کار لانے سے متعلق تحقیق پر مبنی خبروں کی اشاعت پر تو مرزا کی چاندی ہو جاتی ہے۔ ایسی کوئی بھی خبر جیسے ہی منظر عام پر آتی ہے مرزا ہمیں طلب کر لیتے ہیں۔ پہلے خوب کِھلاتے پلاتے ہیں۔ جب ہم سیر ہو جاتے ہیں تب وہ اپنے بیانیے کا پوٹلا کھولتے ہیں اور شروع ہو جاتے ہیں۔ اُن کی (تقریباً) حتمی رائے یہ ہے کہ اور کسی کام کے لیے دماغ درکار ہو یا نہ ہو، کالم نگاری کے لیے اِس کی چنداں ضرورت نہیں۔ اور ثبوت کے طور پر وہ ہمارے کالموں کی مثال دینے سے نہیں چُوکتے! جس قدر بیزاری اُن میں اپنی اہلیہ کے لیے پائی جاتی ہے اُس سے کم از کم دس گنا بیزاری ہماری کالم نگاری کے لیے پائی جاتی ہے! مرزا کا بس چلے تو وہ ہماری کالم نگاری کی دکان کو تالا لگوا کر دم لیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم خاصے ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں اور اِس ڈھٹائی کی بدولت ہی کالم نگاری کے محاذ پر اب تک ڈٹے ہوئے ہیں! 
کل کی بات ہے‘ چین سے دو ایسی خبریں آئیں کہ ہم ایک بار پھر سٹپٹاکر رہ گئے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ایسی خبریں شائع ہوتے ہی گھر والے اور احباب‘ دونوں ہی چارج ہوکر ایکٹیو ہو جاتے ہیں۔ اور مرزا اس معاملے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ چین کے شہر چینگ ڈو کے 63 سالہ شی یو ژیلن نے اِس ڈھلتی عمر میں عجیب شوق پالا ہے اور نئی نسل کو شرمندہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ موصوف باڈی بلڈر ہیں۔ ڈھلتے ہوئے جسم کو اُنہوں نے باقاعدگی سے ورزش کرکے خاصا پرکشش بنایا ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں تو دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ شی یو ژیلن کہتے ہیں کہ یہ شوق اُنہوں نے نئی نسل کے لیے پروان چڑھایا ہے یعنی وہ چاہتے ہیں کہ اُنہیں بڑھاپے کی دہلیز پر پرکشش جسم کا حامل دیکھ کر نئی نسل کو تحریک ملے اور وہ بھی اس حوالے سے کچھ کرے۔ 
یہ خبر پڑھ کر ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ شی یو ژیلن کو کھل کر ستائش کے مچان پر بٹھائیں یا نیو کراچی کی ''معروف‘‘ مغلظات کی ٹِکٹِکی پر لٹکائیں! کسی کو اگر کوئی شوق ہے تو شوق سے پورا کرے مگر دوسروں کے لیے پریشانی کا سامان تو نہ کرے۔ اب یہ کیا بات ہوئی کہ شی یو ژیلن جیسے لوگ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد جسم کو جوان بنانے میں لگ جائیں اور اِدھر ہم جیسے لوگ دنیا بھر کے طعنے سُنیں۔ ایسے لوگوں کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اُن کے شوق کے ہاتھوں کتنوں کو کتنی باتیں سُننا پڑتی ہیں! وہ تو ورزش اور پاور لفٹنگ کا شوق بصد شوق پورا کر لیتے ہیں مگر طنز کے تیر برسانے والے موقع ہاتھ آتے ہی ہم جیسوں پر مشقِ ناز کرنے پر تُل جاتے ہیں! ع
کسی کی جان گئی، آپ کی ادا ٹھہری!
دوسری ''روح فرسا‘‘ خبر بھی چین ہی سے آئی ہے۔ فوجیان صوبے کی کاؤنٹی ڈیٹین میں 4814 بچوں نے بیک وقت ورزش کرکے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں نام درج کرا لیا ہے۔ اِسے کہتے ہیں یک نہ شُد، دو شُد۔ یعنی ایک طرف تو بڑے میاں ہم جیسوں کو شرمندہ کرنے پر کمر بستہ ہیں اور دوسری طرف بچے بھی راشن پانی لے کر چڑھ دوڑے ہیں!
اہلِ خانہ نے یہ دونوں خبریں پڑھیں تو ہمیں یاد دلایا کہ دنیا میں جہاں اور بہت کچھ ہے وہاں جسم کو چُست و توانا رکھنے والی ورزشیں بھی ہیں۔ اِس سے پہلے کہ ہم کوئی باضابطہ اور معقول عذر پیش کرتے، اہلِ خانہ نے بیانیہ آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ جب 63 سال کی عمر میں باڈی بلڈنگ کی جاسکتی ہے اور چھوٹے بچے ورزش کر سکتے ہیں تو آپ کیوں نہیں کر سکتے؟ 
ابھی ہم اہلِ خانہ سے نمٹنے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ مرزا کی طرف سے بلاوا آ گیا۔ ایسی خبریں پڑھنے کے بعد تو وہ دماغ کی لنگوٹ کس کر ڈرائنگ روم کے اکھاڑے میں ہمارا انتظار کرتے ہیں۔ مرزا کی اگر کوئی خواہش ہے تو بس یہ کہ ہم خواہ دہی بڑوں کا ٹھیلا لگائیں، چائے کا ہوٹل کھولیں یا سبزی کی دکان چلائیں... بس کالم نگاری نہ کریں! اب انہیں کون سمجھائے کہ فی زمانہ کالم نگاری بھی دکان داری ہی ہے! 
ہم مرزا کی بیٹھک میں پہنچے تو انہوں نے کہا ''یار! تھوڑی بہت ورزش کر لیا کرو تو تمہاری تحریر میں نہ سہی جسم ہی میں کچھ چُستی آ جائے، لوچ پیدا ہو جائے! اور اگر باڈی بلڈنگ کرنے لگو تو جو شہرت تمہیں قلم نہ دے سکا وہ شاید باڈی کے ہاتھوں نصیب ہو جائے!‘‘
مرزا کی بات سُن کر ہمیں احمد فرازؔ یاد آ گئے ؎ 
فرازؔ! اُس نے وفا کی یا بے وفائی کی 
جوابدہ تو ہمیں ہیں، سوال جو بھی ہو!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں