متوازن اور مستحکم زندگی کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ دولت کمانے کی تگ و دَو کے دوران صرف دولت کو سب کچھ نہیں سمجھ لینا۔ آپ کو سب سے بڑھ کر اپنے رشتوں اور تعلقات کا خیال رکھنا ہے۔ دولت کے بارے میں زیادہ فکر مند رہنے کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنا خیال خود رکھے گی۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہم صرف دولت کے سہارے زندگی بسر نہیں کرسکتے۔ اس دنیا میں بہت کچھ ہے جو دولت سے حاصل کیا جاسکتا ہے مگر اس سے ہٹ کر بھی بہت کچھ ہے جو دولت سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ بیشتر اشیاء اور معاملات کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے مگر چند معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں ہوتی یعنی وہ ''ماورائے قیمت‘‘ ہوتے ہیں۔
دولت کے ذریعے ہم اپنے بہت سے مسائل بخوبی حل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم دولت سے اپنی ہر کمی کماحقہ پوری کرسکتے ہیں۔ بہت سے مسائل محض دولت سے حل نہیں ہوتے بلکہ اُن کے لیے کچھ اور بھی کرنا پڑتا ہے۔ رشتوں اور تعلقات کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔
ہمارا ماحول ہمیں ہر وقت یاد دلاتا رہتا ہے کہ دولت ہی سب کچھ ہے اور اس سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں۔ ہمارے ماحول میں موجود لوگ (اہل خانہ، رشتہ دار، پڑوسی، اہل علاقہ اور احباب) ہمیں قدم قدم پر باور کراتے ہیں کہ اگر اچھی زندگی بسر کرنی ہے تو زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول یقینی بنانا پڑے گا۔ یعنی ہمارا ماحول ہماری کنڈیشننگ کرتا رہتا ہے، یہ بات ہماری نفسی ساخت میں داخل کرتا رہتا ہے کہ دولت ہے تو سب کچھ ہے اور اگر دولت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ جب ہم اپنے ماحول پر نظر دوڑتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ دولت ہی کے بل پر لوگ بہت کچھ حاصل کر پاتے ہیں اور دولت ہی ہے جس کی بنیاد پر لوگ ان کے سامنے جھکتے ہیں، ان کی بات مانتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں۔
کیا واقعی دولت سب کچھ ہے؟ کیا واقعی ایسا ہے کہ ہم دولت کے بغیر ادھورے ہیں اور اگر جیب خالی ہو تو ہماری زندگی بھی خالی رہ جائے گی؟ یہ اور ایسے ہی بہت سے سوال ہر اس انسان کے ذہن میں ابھرتے اور کلبلاتے رہتے ہیں جو زندگی کو بھرپور معنویت کے ساتھ گزارنے کا خواہش مند ہو۔
کسی بھی عام آدمی کا دولت کے بارے میں غلط انداز سے سوچنا حیرت انگیز نہیں۔ ہمارے ماحول میں دولت کی مدد سے جو کچھ کیا اور حاصل کیا جاتا ہے وہ کسی بھی انسان کو دولت کے حوالے سے مغالطے میں مبتلا کرنے اور سوچ کو ایک الگ رخ پر ڈالنے کے لیے کافی ہے۔ دولت کی مدد سے ایسے ایسے غلط کام آسانی کرلیے جاتے ہیں کہ جن کے پاس دولت نہیں ہوتی وہ یہ سوچنے کی طرف مائل ہوتے ہیں کہ اگر ان کے پاس زیادہ دولت آئی تو وہ بھی غلط کام ہی کریں گے ... اور زیادہ آسانی کے ساتھ! جس کے پاس دولت ہو اُسے لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، احترام کرتے ہیں، اس کی ہر بات خاصی توجہ سے سنتے ہیں، بہت سے معاملات میں اس کی رائے قبول کرتے ہیں اور جہاں کوئی اہم فیصلہ کرنا ہو وہاں اسے خاص طور پر بلایا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ عمومی سی ذہنیت رکھنے والے کسی بھی انسان کو دولت کے بارے میں غلامانہ انداز سے سوچنے پر مجبور کردیتا ہے۔
اگر ذہن میں یہ تصوّر جڑ پکڑ چکا ہو، راسخ ہوچکا ہو کہ اس دنیا میں ڈھنگ سے جینے کا ایک ہی ڈھنگ ہے یعنی یہ کہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل اور خرچ کی جائے تو دوسری بہت سے اہم باتیں ہمیں بے معنی سی لگنے لگتی ہیں۔ دولت کو زندگی کا محور اور مقصد بنالینے سے معاملات الجھتے چلے جاتے ہیں۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ انسان کے پاس دولت تو بہت ہوتی ہے مگر باقی سب کچھ جاچکا ہوتا ہے۔ قدرت کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی خواہش اس کے ذہن میں پنپتی رہتی ہے۔
ہر انسان چند رشتوں اور تعلقات کا محتاج ہوتا ہے جن کے بغیر اس کا وجود ادھورا رہتا ہے، زندگی نامکمل سی رہتی ہے۔ مثلاً اہل خانہ کو کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جس طور وہ آپ کے سکھ اور آرام کا خیال رکھتے ہیں بالکل اسی طور ان کے سکھ اور آرام کا خیال رکھنا آپ کا بھی فرض ہے۔ اگر ہم محض دولت کمانے پر توجہ دیتے رہیں اور اہل خانہ کو نظر انداز کرتے رہیں تو ہماری زندگی میں اچھا خاصا خلاء پیدا ہوگا اور اس کے نتیجے میں دولت پاکر بھی وہ سب کچھ حاصل نہیں کیا جاسکے گا جسے پانے کے لیے دولت حاصل کی جاتی ہے۔
ہر انسان چند مخلص دوستوں کے سہارے ہی اچھا وقت گزارتا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی کی پُرخلوص دوستی کے بغیر پُر مسرّت اور متوازن زندگی بسر کرسکتا ہے تو اسے قابل رحم سمجھنا چاہیے۔ مخلص دوستوں کے بغیر بھی زندگی گزرتی تو ہے کہ مگر کچھ اِس طور کہ اُسے حقیقی معنوں میں زندگی کہا اور سمجھا نہیں جاسکتا۔ ایسا نہیں ہے کہ انسان دوستوں کے ذریعے بڑی کامیابیاں حاصل کرتا ہے مگر اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ جس کی زندگی میں چند اچھے، مخلص اور بے غرض قسم کے دوست ہوں وہ اپنے بیشتر معاملات میں متوازن رہتا ہے۔ دوستوں سے انسان اپنے دل کی بات کہتا ہے اور مشورے بھی طلب کرتا ہے۔ بہت سے معاملات میں دوست حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ انسان کے لیے تعلقات اور فیڈ بیک دونوں ہی بہت ضروری ہیں۔
اہل خانہ، رشتہ دار اور احباب ... یہ تین حلقے مل کر کسی بھی انسان کو بہتر زندگی، بھرپور کامیابی اور بے پایاں مسرت کے لیے تیار کرتے ہیں۔ جو لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے اِن تین قریبی حلقوں کو زیادہ سے زیادہ متوازن اور خوش رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور جواب میں اُنہیں بھرپور حوصلہ افزائی ملتی ہے جس کی مدد سے وہ کسی بھی بڑی کامیابی کی طرف تیزی سے قدم بڑھانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اہل خانہ، رشتہ داروں اور احباب کی طرف سے ملنے والی حوصلہ افزائی ان تھک محنت اور مہارت کے بھرپور اظہار کے لیے لازم ہوا کرتی ہے۔
جب آپ بھرپور کامیابی کی طرف بڑھ رہے ہوں اور زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہوں تب یہ بات کسی صورت بھولنی نہیں چاہیے کہ آپ کے لیے رشتے اور تعلقات بھی غیر معمولی ہیں۔ دولت کو زندگی کا مقصد و محور بنانے والے بالآخر اپنی غلطی پر شرمندہ ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں میں سے بہت سوں کے مقدر میں صرف پچھتاوا رہ جاتا ہے۔ جو لوگ دولت کو ہر چیز پر ترجیح دیتے ہیں وہ رشتوں اور معاشرتی تعلقات میں بھی الجھتے چلے جاتے ہیں۔ جب زندگی کا مقصد دولت ہو اور انسان ہر معاملے میں دولت کو مدنظر رکھ کر سوچ رہا ہو تو اس کی سوچ خالص مادّہ پرست ہوتی جاتی ہے۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ ہر معاملے کو صرف اور صرف دولت کی عینک سے دیکھنے کا عادی ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی خلوص سے سلام بھی کرے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کچھ مانگنا چاہتا ہے۔ ہر انسان ہر وقت کچھ مانگنے کے لیے خلوص کا اظہار نہیں کرتا۔ دولت کو سب کچھ سمجھ لینے سے انسان خلوص اور محبت کو شناخت کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوتا جاتا ہے۔ رشتوں کا خیال رکھنا اور انہیں پروان چڑھانا بھی اسی قدر لازم ہے جس قدر کھانا پینا اور سانس لینا۔