دوستی بھی بہت عجیب تعلق ہے۔ زمانے بھر کے تعلقات ایک طرف اور دوستی ایک طرف۔ ہم پورے یقین سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ آپ بھی دوستی کو ایک عظیم بندھن یا تعلق سمجھتے ہوں گے۔ دنیا بھر کے مشاہدے اور تجربے سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے جس طرح دوست ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتے ہیں‘ اُس طرح تو حقیقی بھائی بھی ایک دوسرے کے کام نہیں آتے!
ایسا کیوں ہے؟ ہم تو اب تک سمجھ نہیں پائے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ایران طوران کی ہانکنے والے ماہرین بھی اس ذیل میں بہت حد تک خاموش ہیں! ایسا لگتا ہے کہ زمانے بھر کے اچھے اور برے معاملات کی مٹّی پلید کرنے کے بعد وہ اِس عظیم جذبے اور تعلق کو تحقیق کی ٹِکٹِکی پر ٹانگنے میں شرم محسوس کرتے ہیں! یا شاید اُنہیں کتوں سے ڈر لگتا ہے۔
ایک تحقیق سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کتوں سے دوستی معمر افراد کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوتی ہے۔ اس افادیت کا تعلق اُن کی عمومی صحت سے ہے۔ تحقیق میں دعوٰی کیا گیا ہے کہ کتوں سے جی بہلانے کی صورت میں معمر افراد کو یومیہ کم و بیش 22 منٹ اضافی جسمانی سرگرمیاں نصیب ہوتی ہیں۔ معروف ویب سائٹ بولڈ سکائی نے عالمی ادارۂ صحت کی معاونت سے کی جانے والی تحقیق کے حوالے سے بتایا ہے کہ معمر افراد کو ریٹائرمنٹ کے بعد جسمانی سرگرمیوں پر زیادہ سے زیادہ زور دینا چاہیے۔ تحقیق کے مطابق گھروں میں کتے پالنے والے افراد کی صحت اچھی رہتی ہے۔ 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کو کتوں کی بدولت زیادہ متحرک رہنے کا موقع ملتا ہے۔ کتے انہیں متحرک رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ غیر محسوس طور پر ورزش کرتے رہتے ہیں۔
ہم نے دو ایک مرتبہ گھر میں بلی اور طوطے وغیرہ پالنے کی کوشش کی ہے مگر ناکام رہے ہیں۔ سبب اس کا یہ ہے کہ ان کی دیکھ بھال اہلِ خانہ کو کرنا پڑتی ہے اور یہ بات وہ گوارہ نہیں کرتے کہ شوق تو ہمارا ہو اور خیال انہیں رکھنا پڑے۔ اُن کے خیال میں یہ معاملہ کچھ ایسا ہی ہے کہ خرچہ ساڈا تے نخرے لوکاں دے! خیر، ہم چونکہ گھر کا سکون غارت کرنے پر یقین نہیں رکھتے اس لیے کبھی اپنے شوق کی تکمیل کے لیے اہلِ خانہ کو زیادہ زحمت نہیں دیتے!
ہمیں اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں کہ دنیا والے کتوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، اُنہیں کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ کتے پالنے سے متعلق ہمارا نظریہ چوکیداری سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک بار ہمیں بھی کتا پالنے کا شوق چَر آیا۔ ویسے ہمارے پاس ایسا کچھ ہے نہیں جس کی حفاظت کے لیے کتے پالنے کی ضرورت محسوس ہو۔ پھر بھی سوچا چلیے، کچھ شغل ہی رہے گا۔
ہم نے کتا پالنے کی شاہراہ پر پہلا قدم رکھا تو سمجھ لیجیے زلزلہ سا آگیا۔ ہم نے اہلِ خانہ کو جب یہ بتایا کہ ہم گھر کے لیے کوئی جانور پالنا چاہتے ہیں تو انتہائی فوری جواب ملا ''کیا آپ پر کفالت کی ذمہ داریاں کم ہیں جو کتے کا اضافہ مقصود ہے؟‘‘ ہم فوری طور پر تو کچھ نہ کہہ سکے مگر کچھ دن کے وقفے سے جب ہم نے عرض کیا کہ جو جانور ہم پالنا چاہتے ہیں‘ وہ کتا ہے تو گھر میں کچھ دیر، بلکہ ایک دو دن کے لیے ہنگامہ برپا ہو گیا۔ ہونا ہی تھا۔ سب کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ کتا نجس ہوتا ہے اس لیے گھر میں نہیں رکھا جا سکتا۔ ہم بھی سمجھتے تھے کہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ ہم اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں جس میں کتا رکھنا انتہائی مشکل مشغلہ ہے۔
ہم نے سمجھانے کی کوشش کی کہ کتا اپارٹمنٹ کے بجائے نیچے چوکیدار کے پاس بندھا رہے گا۔ اس پر اہلِ خانہ نے اعتراض داغا کہ اگر چوکیداری کے لیے پالنا ہے تو کیا پوری اپارٹمنٹ بلڈنگ کی چوکیداری ہمارا کتا کرے گا؟ اور دل بہلانے کے لیے پالنا ہے تو نیچے بندھے رہنے کی صورت میں کیا ہمارا کتا صرف چوکیدار کا دل بہلائے گا! یہ اعتراض اس قدر مستحکم تھا کہ ہمارے پاس لاجواب ہو رہنے کے سوا آپشن نہ بچا۔
اب احباب کی باری تھی۔ جب ہم نے اُنہیں بتایا کہ ہم کتا پالنا چاہتے ہیں تو چھوٹتے ہی پوچھا گیا کہ آخری ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ گئی؟ ہم نے عرض کیا کہ کتا وفادار جانور ہے۔ ہم اُسے ہمدم کی طرح، دوست کی حیثیت سے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ احباب یہ سُن کر ناراض ہو گئے۔ چند ایک نے شکوہ کیا ''کیا ہماری وفا میں کوئی کمی ہے؟ کیا ہماری دوستی نے کوئی کسر چھوڑی ہے جو آپ کو کتے سے دوستی کی ضرورت پیش آ گئی!‘‘
یہ ایسا اعتراض تھا کہ ہم نے وہی کیا جو ایسے مواقع پر ہر شریف آدمی کرتا ہے یعنی ایک بار پھر لاجواب ہو گئے! ہم نے ہاتھ جوڑ کر دوستوں سے عرض کیا کہ ہمیں نہ تو اُن کی دوستی میں کوئی کمی محسوس ہوتی ہے نہ اُن کی وفاداری پر شک ہے۔ اور یہ کہ خدارا! اپنی وفاداری کے حوالے سے کسی شک میں پڑ کر ایک بے زبان سے حسد محسوس نہ کریں! احباب کا موڈ دیکھتے ہوئے ہم نے کتا پالنے کا خیال ذہن سے جھٹک دیا۔ اور ہم کر بھی کیا سکتے تھے؟ اب ایک کتے کے لیے ہم پورا حلقۂ احباب تو داؤ پر نہیں لگا سکتے تھے!
ویسے کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن نے کئی سال کی ''محنتِ شاقہ‘‘ سے اس امر کا بھرپور اہتمام کیا ہے کہ ہم کتوں کو دوست بنائے بغیر نہ رہیں! ایک زمانے سے کراچی میں کتا مار مہم کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ شہر بھر میں شاہراہوں اور اندرونی و ذیلی سڑکوں کے علاوہ گلیوں میں ہزاروں دُم ہلاتے کتے ''دوستوں‘‘ کی تلاش میں رہتے ہیں! رات کے پچھلے پہر تنہا سفر کرنے والے افراد کو ''دوست‘‘ بنانے کے معاملے میں یہ کتے غیر معمولی ''اپنائیت‘‘ اور ''شفقت‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہیں!
ہم چونکہ اخبارات کے نائٹ ڈیسک پر ہیں‘ اس لیے رات کو تین بجے دفتر سے روانہ ہوتے ہیں اور تقریباً پونے چار بجے گھر پہنچتے ہیں۔ اپنے علاقے میں داخل ہوتے ہی ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ کتے ہم سے ''دوستی‘‘ کے لیے کس قدر بے تاب رہتے ہیں! کہیں کہیں تو مان نہ مان میں تیرا مہمان ٹائپ کے اِن دوستوں سے پیچھا چھڑانا دشوار ہو جاتا ہے۔ موٹر سائیکل پر سفر کرنے والے ہم جیسے خوش نصیب تو پھر بھی بچ نکلتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ پیدل چلنے والوں کے لیے آوارہ کتوں کی ''اپنائیت‘‘ سے پنڈ چھڑانا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہو جاتا ہے!
معمر افراد کو کتوں سے دوستی کا یہ فائدہ سجھایا گیا ہے کہ وہ متحرک رکھتے ہیں اور اس بہانے اُن کی (یعنی معمر افراد کی) اچھی خاصی ورزش ہو جاتی ہے۔ اگر متحرک رہنا ہی ٹھہرا تو کتا پالنے کی ضرورت کیا ہے۔ کسی بھی سنسان سڑک پر نکل کر دیکھیے، وہاں موجود وفادار جانور آپ کو ایسا متحرک کریں گے کہ پھر تادیر تحرّک ختم ہونے کا نام نہ لے گا!