دنیا بھر میں ''تحریک‘‘ کا غلغلہ ہے۔ بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو۔ دنیا کو کچھ کا کچھ بنانے پر زور دیا جارہا ہے۔ بادی النظر میں یہ کوشش غیر ضروری اور لاحاصل سی لگتی ہے‘ کیونکہ دنیا تو پہلے ہی کچھ کی کچھ ہوچکی ہے۔ مگر خیر‘ دنیا کو بہتر بنانے‘ اپ گریڈ کرنے کی گنجائش تو ہمیشہ موجود رہتی ہے۔
انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں انسان کو تحریک دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ سوچنے والوں نے سوچنا شروع کیا کہ اب انسان کو بہتر زندگی کی طرف رواں کرنے کے لیے کچھ ایسا لکھا جائے جو سوچنے اور کام کرنے کی بھرپور لگن پیدا کرنے میں معاون ثابت ہو۔ ابتدا سیلف ہیلپ یعنی اپنی مدد آپ کے حوالے سے لکھے جانے سے ہوئی۔ پھر اِس موضوع کو موٹیویشن یعنی تحریک کہا جانے لگا۔ بعد میں یہی سب کچھ پرسنل ڈیویلپمنٹ یعنی شخصی ارتقا کے نام سے ہونے لگا۔ انسان کو زیادہ سے زیادہ متحرک کرنے اور رکھنے کے لیے اب بہت کچھ لکھا اور بولا جارہا ہے۔ کل تک مطبوعہ لفظ کی اہمیت تھی۔ آج سمعی و بصری مواد بھی بہت بڑے پیمانے پر موجود ہے اور مزید بہت کچھ تیار کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں لوگ متحرک ہیں۔ آج دنیا بھر میں اس نکتے پر زور دیا جارہا ہے کہ انسان کو زیادہ سے زیادہ عمل پسند ہونا چاہیے۔ تقریباً ہر معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو زندگی کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے لکھی جانے والی کتابیں شوق سے پڑھتے ہیں۔ لوگ ایسا لٹریچر پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے کچھ کرنے کی تحریک ملے۔ ایسا اس لیے ہے کہ تحریک پانا اور تحریک دینا انسان کے فطری رجحانات کا حصہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انسان کے لیے لازم ہے؟ کیا وہ کہیں سے تحریک پائے بغیر کچھ نہیں کرسکتا؟ اس نوع کی تحریریں انسان میں فہم و ادراک اور عمل کے حوالے سے دلچسپی اور لگن پیدا کرنے میں کچھ نہ کچھ کردار ضرور ادا کرتی ہیں۔ ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں مہمیز دینے والے یا تحریکی لٹریچر کے نام پر جو کچھ لکھا جارہا ہے اُسے پڑھنے سے کتنوں کا بھلا ہوتا ہے۔ یہ لٹریچر کردار کی تشکیل و تہذیب میں کوئی کردار ادا کرتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کا عام آدمی زندگی کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے کچھ نہ کچھ کرنا ضرور چاہتا ہے‘ مگر اُسے راہ سجھائی نہیں دیتی۔ وہ بہت سے غیر متعلق امور میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر کچھ نیا کرے تو کیسے کرے۔ جیسی عمومی روش ہوتی ہے لوگ ویسے ہی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ عمومی سطح پر جینے والوں کو بہتری کے لیے‘ زندگی کو اپ گریڈ کرنے کے لیے تحریک دینا لازم ہوتا ہے۔ جب تک تحریک نہ دی جائے لوگ بدلتے ہیں نہ کچھ ایسا کرتے ہیں ‘جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ وہ زندگی کا معیار بلند کرنے کو اہمیت دیتے ہیں‘ اپنے اور دنیا کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
انسان کو بہتر زندگی بسر کرنے کی تحریک دینے کے لیے ویسے تو ہر دور میں کچھ نہ کچھ لکھا جاتا رہا ہے۔ کسی بھی تحریر کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ پڑھنے والا اُسے پڑھنے کے بعد کچھ سوچے اوراُس کی بنیاد پر اپنے آپ کو اور اپنے ماحول کو تھوڑا بہت بدلنے کی طرف مائل ہو۔ دو صدیوں کے دوران ایسی تحریریں تواتر سے آئی ہیں جن کا مقصد عام آدمی کو بہتر زندگی کے لیے کمر کسنے پر مائل کرنا اور زیادہ سے زیادہ عمل پسند ہونے کی تحریک دینا رہا ہے۔ اس حوالے سے بیسویں صدی میں غیر معمولی پیش رفت ہوئی۔
مغربی معاشروں میں جب اصلاح کی ضرورت محسوس ہوئی تب لکھنے والوں کی ایک خاصی بڑی کھیپ سامنے آئی۔ فکشن لکھنے والوں نے بھی حقیقی زندگی کو اپنی تحریروں میں سمونے کی کوشش کی تاکہ عام آدمی جب پڑھے تو اُس کے دل و دماغ میں ہلچل مچے اور وہ اپنی اور دوسروں کی زندگی کو زیادہ بامعنی اور بامقصد بنانے کے بارے میں سوچے۔ جب لکھنے والوں نے تواتر سے طبع آزمائی کی تو شخصی ارتقاکو ایک باضابطہ موضوع کا درجہ حاصل ہوا۔
ہر انسان اپنے وجود کی زیادہ سے زیادہ تسکین اور تشفی چاہتا ہے مگر اپنے ہی معاملات میں وہ ناکام رہتا ہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب چند ایک مغالطوں کا پایا جانا اور فکر و عمل میں تضاد ہے۔ ہر دور کا ایک بنیادی المیہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ ساری دنیا کو سیدھا کرنا چاہتے ہیں وہ اپنی زندگی میں پائی جانے والی کجی ہی دور نہیں کر پاتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے پیچیدگی میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔ یورپ میں فطری علوم و فنون کو فروغ دینے والے جنونی سامنے آئے تو صنعتی انقلاب رونما ہوا۔ اس انقلاب نے دنیا کو پلٹ اور بدل کر رکھ دیا۔
صنعتی انقلاب نے سوچ کے سانچے اور زاویے تبدیل کردیئے۔ انسان کے لیے ایک بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ اخلاقی اقدار کو جوں کا توں رہنے دے یا نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے اُن میں کچھ تبدیلی کرے۔ صنعتی انقلاب نے مرد کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی نئی زندگی بخشی۔ وہ معاشی جدوجہد میں متحرک ہوئی تو بہت کچھ بدل گیا۔ گھریلو زندگی بھی متاثر اور تبدیل ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ تب سے اب تک یہ معاملہ انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کرچکا ہے۔ کئی معاشرے تلپٹ ہوچکے ہیں اور جو اب تک محفوظ سمجھے جاتے رہے ہیں اب وہ بھی خرابیوں کی زد میں ہیں۔
ٹھوس اور مربوط سوچ رکھنے والوں کی نظر میں شخصی ارتقا کے حوالے سے تیار کیا جانے والا لٹریچر نیند کی گولی جیسا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انسان کو کام کرنے کی تحریک کے نام پر محض بہلایا پُھسلایا جارہا ہے۔ بنیادی اعتراض یہ ہے کہ شخصی ارتقا کے نام پر ایسے فارمولے بیان کیے جاتے ہیں جن کا مقصد پڑھنے والے کے ذہن میں یہ مغالطہ پیدا کرنا ہوتا ہے کہ وہ کوئی توپ قسم کی چیز ہے اور خواہ مخواہ پستول یا رائفل کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہا ہے!
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شخصی ارتقا کے نام پر مارکیٹ میں موجود لٹریچر کا بڑا حصہ نیند کی گولی جیسے اثرات ہی کا حامل ہے‘ کیونکہ اُسے خاصے سطحی انداز سے تیار کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود ہم اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ دو صدی پہلے کے انسان کی طرح آج کے انسان کو بھی تحریک اور اصلاح کی ضرورت ہے۔ اگر براہِ راست‘ سطحی انداز سے نصیحت کرنے والی تحریروں کے بجائے فکشن یا فکشن نما نان فکشن کے ذریعے ٹھوس نکات والا تحریکی مواد فراہم کیا جائے تو عام آدمی بہتر زندگی بسر کرنے کے حوالے سے سوچنے اور تیاری کرنے پر مجبور ہوگا۔
شخصی ارتقاکے حوالے سے لکھنے والوں کو خاصی جرأت آمیز حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عام آدمی کو بتانا چاہیے کہ وہ معیاری زندگی بسر نہیں کر رہا اور محض پُرامید رہتے ہوئے وہ کچھ حاصل نہیں کرسکتا۔ کچھ پانا ہے تو وہی کرنا ہے جو پانے والے کرتے ہیں۔ صلاحیتوں کو بہتر بناکر اور سکت میں اضافہ کیے بغیر اپنا اور باقی معاشرے کا معیار بلند نہیں کیا جاسکتا۔ جس طور اخبارات میں ٹیبل سٹوریز شائع ہوتی ہیں اُس نوع کی کتابیں لکھنے سے بہتر یہ ہے کہ شخصی ارتقاء کے کسی بھی موضوع پر وسیع تحقیق کے ذریعے بات بیان کی جائے تاکہ پڑھنے والے کو حقیقی زندگی کی مثالوں سے اندازہ ہو کہ اُس نے کہاں کہاں غلطی کی ہے اور اصلاح کی صورت کیا ہوسکتی ہے۔