سوچنا انسان کی فطرت کا حصہ ہے اور فطرت کا حصہ بھی کیوں کہیے‘ پوری فطرت ہی سوچنے سے عبارت ہے۔ روئے ارض پر انسان واحد مخلوق ہے‘ جسے سوچنے کی صلاحیت عطا کی گئی ہے۔ سوچنے کی صلاحیت کا عطا کیا جانا اس امر کا واضح اظہار ہے کہ اُسے سوچنے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سوچنے ہی پر منحصر ہے کہ انسان کیا کرے گا‘ کیسے جیے گا‘ جہاں ہے ‘وہاں سے آگے بڑھے گا ‘تو کیسے بڑھے گا اور اگر جائے گا‘ تو کس سمت جائے گا؟۔
قدیم یونان میں جنہیں قدرت نے دانش سے نوازا تھا وہ ''سوفسٹ‘‘ کہلاتے تھے۔ اس لفظ کا سادہ سا مفہوم ہے اہلِ دانش۔ وہ کہ جن کے پاس علم بھی ہے اور علم کو دوسروں تک پہنچانے کی صلاحیت بھی۔ یونان میں اہلِ دانش کی غیر معمولی قدر و قیمت تھی۔ لوگ اُنہیں گھیرے رہتے تھے۔ اُن سے سیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اہلِ دانش بھی خوب تھے کہ کسی کو نوازنے کے معاملے میں بخل کا مظاہرہ نہ کرتے تھے۔ یوں تعلیم و تعلّم کا دائرہ پھیلتا گیا‘ مگر پھر یہ بھی ہوا کہ جنہیں قدرت نے علم سے نوازا تھا‘ وہ محض تقریر تک محدود ہوکر رہ گئے۔ تقریر خود کلامی ہی کی ایک واضح شکل ہے‘ یعنی ایک بولتا ہے اور سو سُنتے ہیں۔ تقریر کے ذریعے بھی علم منتقل ہوتا ہے ‘مگر محض تقریر کرنے سے کام نہیں بنتا۔ سُننے والوں نے جو کچھ سنا ہے‘ جب تک اُس کے حوالے سے اپنا ہر طرح کا اشکال دور نہیں کرلیتے تب تک معاملہ درست نہیں ہوتا۔ یونان کے عمومی علمی ماحول میں ایک بڑی خرابی یہ تھی کہ جن کے پاس علم تھا وہ خود کو عقلِ کُل سمجھ بیٹھے تھے اور اس میں کسی حد تک لوگ بھی قصور وار تھے۔ لوگوں نے علماء کو سُنتے رہنے کی عادت اپنالی تھی۔ رفتہ رفتہ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ علم ایک طرف رہا اور تعلّی نے میدان مار لیا‘ جو تھوڑا بہت بول سکتا تھا وہ علم کی تقسیم کے منصب پر فائز ہوگیا۔ تقریر میں دعوؤں اور بڑھک کا تناسب بڑھتا گیا۔
تقریر کی شکل میں پنپ جانے والی خود کلامی کا سِحر توڑنے کی پہلی بہترین کوشش سقراط نے کی۔ ''پہلی بہترین‘‘ یوں کہ اس سے قبل بھی بعض اہلِ علم تقریر کو گفتگو تک لانے کی کوشش کرچکے تھے۔ عمومی ماحول یہ تھا کہ ایک بولتا تھا اور سو سُنتے تھے۔ علم منتقل ہوتا تھا ‘مگر خام شکل میں۔ لوگوں کے ذہنوں میں سوال ابھرتے تھے ‘مگر ماحول ایسا نہ تھا کہ کوئی سوال کرے‘جو خود کو علم کی تقسیم کے منصب پر فائز کرچکے تھے‘ اُنہوں نے اپنے طور پر طے کرلیا تھا کہ کسی بھی موضوع پر جو کچھ وہ کہہ دیں‘ بس وہی حرفِ آخر ہے اور یوں تقریر ہی تقریر رہ گئی‘ گفتگو کو دیس نکالا سا مل گیا۔
سقراط کی آمد نے منظر تبدیل کردیا۔ سقراط نے خود کلامی کی روایت ترک کرتے ہوئے سوال کرنے کی روایت کو زندہ کیا۔ لوگ سوال کرنے سے گھبراتے اور کتراتے تھے۔ سقراط نے لوگوں کو سوال کرنے کی تحریک دی۔ وہ بہت کچھ جانتا تھا ‘مگر اس نے زیادہ بولنے پر سوال کرنے کو ترجیح دی۔ مقصود یہ تھا کہ جب وہ سوال کرے تو لوگ جواب میں مافی الضمیر بیان کریں اور اُن کے ذہن کی گرہیں کھلیں۔ سقراط کے طریقِ تدریس نے غیر معمولی شہرت پائی۔ یہ طریق ذہن کو پروان چڑھانے والا تھا۔ یونانی معاشرے میں اہلِ دانش کی کمی نہ تھی‘ مگر اُن سے عوام کو کچھ مل نہیں رہا تھا‘ کیونکہ وہ اپنی بات کہتے تھے یا یوں سمجھ لیجیے کہ جو کچھ اُن کے ذہن میں ہوتا تھا وہ لوگوں کے ذہنوں میں انڈیل کر خود کو ''فارغ الفرض‘‘ سمجھ لیا کرتے تھے۔ یہ پورے معاملے کا صرف ایک پہلو تھا۔ لوگ جو کچھ سُنتے تھے اُس کے حوالے سے اُن کے ذہنوں میں جو کچھ ابھرتا تھا ‘اُس کے بارے میں بھی تو سوچنا ہوتا تھا۔ اُس کا کوئی کیا کرے؟ ذہنوں میں سوال کُلبلاتے تھے‘ مگر لب کُشائی کی جرأت کوئی نہ کر پاتا تھا‘ کیونکہ سوال کرنے کی روایت ہی دم توڑ چکی تھی یا پھر یہ کہ اُس کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔
سقراط کی آمد سے یہ ہوا کہ لوگ سوال کرتے ہوگئے۔ سقراط کو خود بھی یہ پسند تھا کہ زیادہ سے زیادہ سوال کرے اور لوگوں کو سُنے۔ لوگ جواب میں جو کچھ کہتے تھے ‘اُسی سے سقراط مزید سوالوں کا تانا بانا تیار کرتا تھا اور یوں گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھتا تھا۔
بات ہو رہی ہے گفتگو کی۔ ہمارے ہاں تقریر پنپ چکی ہے۔ لوگ اپنی بات کہنا چاہتے ہیں‘ مگر دوسروں کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ اپنا موقف بیان کرکے سمجھ لیا جاتا ہے کہ معاملہ ختم ہوگیا‘ جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ۔ بولنے‘ بلکہ بولتے چلے جانے کو تعلیم و تعلّم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ گفتگو ہوتی ہے‘ تو ذہنوں سے اشکال دور ہوتے ہیں؛ اگر کوئی ایک بولتا رہے تو بات گاڑی کے اُس پہیّے کی طرح ہوتی ہے‘ جو کسی گڑھے میں پھنس کر گھومتا رہے۔
قدیم یونان کے جس ماحول میں سقراط نے جنم لیا تھا‘ وہی ماحول آج ہمارے ہاں بھی پنپ چکا‘ جو لوگ کچھ پڑھ لیتے ہیں ‘وہ بات بے بات تقریر پر تُل جاتے ہیں۔ تقریر کرتے وقت اُن کے ذہن میں صرف یہ ہوتا ہے کہ دنیا بھر کا علم اُن میں سماگیا ہے اور اب کسی کو کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں‘ کیونکہ ہر سوال کا جواب اُن کے پاس ہے! تقریر اس انداز سے کی جاتی ہے کہ دنیا کے ہر سوال کا جواب اُن کے پاس ہے ‘اس لیے لوگ توجہ سے سُنیں اور ہر سوال کا جواب پائیں۔ سوال کرنے والوں کو پسند نہیں کیا جاتا۔ کسی بھی سمت سے آنے والا سوال اتھارٹی کے لیے چیلنج کا درجہ رکھتا ہے۔ جو خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں ‘وہ اس بات کو پسند ہی نہیں کرتے کہ اُن کی اتھارٹی کو چیلنج کیا جائے۔ کسی بھی بات کو سُن کر سوچنا انسان کی فطرت ہے۔ یہ وصف قدرت نے رکھا ہے‘ از خود پیدا نہیں ہوگیا۔
ذہنوں کو سوچنے کی تحریک دینے والوں کی ضرورت ہے۔ تقریر کے نام پر خود کلامی کی روایت کمزور پڑنی چاہیے۔ جنہیں ‘اللہ نے علم سے نوازا ہے‘ وہ لوگوں کو سوچنا سکھائیں‘ سوال کرنے کی تحریک دیں۔ اپنی ہر بات کو حرفِ آخر کا درجہ دے کر سوالوں کی راہ مسدود کرنے والے اہل دانش معاشرے کے لیے کسی کام کے نہیں۔ یہ کام تو مشین بھی کرسکتی ہے۔ جنہیں ‘اللہ نے دانش بخشی ہے‘ وہ سوچنے اور سوال کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں‘ تو بات بنے‘ جو کچھ ذہنوں میں پنپ رہا ہے ‘وہ باہر بھی آنا چاہیے اور اُس کا تسلی بخش جواب بھی دیا جانا چاہیے۔
قدیم یونان کا ماحول ہمارے ہاں اپنی اصل میں موجود ہے۔ صرف طریق بدل گیا ہے۔ کل یہ ہوتا تھا کہ کسی عالی شان ہال میں کوئی صاحبِ دانش بولتا تھا اور سیکڑوں یا ہزاروں افراد سُنتے تھے۔ آج یوں ہے کہ لوگ گھر کے اندر ''ایڈیٹ باکس‘‘ کے سامنے بیٹھتے ہیں اور زانوئے احترام تہہ کیے ہوئے‘ وہ سب کچھ سُنتے ہیں‘ جو اُن کے ذہنوں میں انڈیلا جارہا ہوتا ہے۔ سوچنے اور سوال کو ترتیب دینے کی روایت لوگوں نے از خود نوٹس کے تحت ترک کردی ہے۔ ایسے میں عمومی سطح پر حقیقی مطلوب دانش کے پنپنے کی گنجائش پیدا ہو تو کیسے ہو؟
وقت آگیا ہے کہ عام پاکستان سوچنے کی طرف مائل ہو اور جو کچھ ذہن میں ابھرے اُسے سوال کی شکل دے کر باہر لائے اور اپنے ذہن کو تمام علوم پر محیط سمجھنے والوں سے سوال کرے۔ طویل خطاب سُنتے چلے جانے کو محض بھیڑ چال ہی سمجھا جائے گااور کچھ نہیں۔