خواب دیکھنا بُرا ہے نہ اِس پر کوئی پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔ مزید کہ خواب دیکھنے پر لاگت بھی کچھ نہیں آتی۔ ہاں‘ خواب دیکھنے کے لیے سونا لازم ہے۔ مگر جاگتی آنکھوں کے خوابوں کا کیا کیجیے!
معاشرے کی عمومی روش یہ ہے کہ لوگ راتوں رات سب کچھ پانا چاہتے ہیں۔ سبھی کو بہتر زندگی چاہیے۔ کون ہے جو پُرکشش جاب کی تلاش میں نہیں؟ کون ہے جو دوسروں سے نمایاں اور ممتاز ہونا اور دکھائی نہیں دینا چاہتا؟ آپ سوچیں گے سبھی ایسا چاہتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ محض خواہش کے مرحلے میں رہتا ہے‘ عمل کی چوکھٹ تک نہیں آتا۔ ہم بہتر زندگی تو چاہتے ہیں مگر اِس کے لیے تیاری نہیں کرتے۔ حلقۂ احباب کو وسعت دینے کی خواہش کس کے دل میں پروان نہیں چڑھتی؟ تو کیا محض سوچنے سے حلقۂ احباب وسیع اور بہتر ہو جاتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ ایسا کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے احباب میں کامیاب اور ذی حیثیت افراد شامل ہوں تو بہت کچھ کرنا ہوگا۔ جب آپ کچھ کریں گے‘ کچھ بنیں گے تب ہی وہ لوگ آپ کو اپنائیں گے جو اپنے اپنے شعبے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ ہم بہت کچھ کرنا اور پانا چاہتے ہیں۔ دل میں سینکڑوں خواہشیں انگڑائیاں لیتی رہتی ہیں۔ عمومی سطح پر یہ سب ہماری جاگتی آنکھوں کے خواب ہیں یعنی اِن کی ٹھوس بنیاد نہیں پائی جاتی۔ اور جن معاملات کی ٹھوس بنیاد نہیں ہوتی وہ بالآخر یا تو مطلوب نتائج پیدا نہیں کرتے یا پھر غیر مطلوب نتائج ہمارے سَروں پر تھوپ دیتے ہیں۔
آج تک تو دنیا میں یہی ہوا ہے کہ جس کسی نے کچھ پانا چاہا ہے اُس نے پہلے آنکھوں میں خواب بسائے ہیں اور پھر اِن خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے بارے میں سوچا ہے۔ اگر آپ کی آنکھوں میں بھی کچھ خواب بسے ہیں تو یہ کسی بھی اعتبار سے حیرت انگیز ہے نہ پریشان کن۔ ہر خواہش ایک خواب کی طرح آنکھوں میں بسی رہتی ہے۔ ہم خواب اُس وقت دیکھتے ہیں جب گہری نیند میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔ نیند ہی خواب لاتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خواب وہ ہے کہ جو نیند اُڑادے! کسی بھی حوالے سے کوئی شدید خواہش جب ہمارے حواس‘ اعصاب اور فکری ساخت پر اثر انداز ہوتی ہے تب خواب بن کر آنکھوں میں سمائی رہتی ہے۔ کسی خواہش کا خواب بن کر آنکھوں میں سما جانا دراصل اُس کیفیت کا نام ہے جب ہم کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے دن رات سوچتے رہیں اور اِس حوالے سے مصروفِ عمل بھی ہوں۔
جاگتی آنکھوں کے خواب کچھ نہیں دیتے۔ یہ ادھوری‘ پژمردہ اور ناکام خواہشیں ہیں جو جاگتی آنکھوں میں خواب کی شکل اختیار کیے رہتی ہیں۔ یہ کیفیت اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان محض خوش فہمیوں کی نذر ہوکر زندگی بسر کرنے میں دلچسپی لیتا ہے۔ محض خواب دیکھنے اور کسی چیز کو وژیولائز کرنے میں بہت فرق ہے۔
ذہن کے پردے پر کسی چیز کی تصویر بناکر اُسے برقرار رکھنا بھرپور کامیابی کی طرف بڑھنے کے عمل میں پہلا قدم ہے۔ جب کوئی چیز ذہن کے پردے پر تادیر قیام کرتی ہے تب اُس کے حصول کے حوالے سے کچھ کرنے کی تحریک بھی ملتی رہتی ہے۔ ذہن کے پردے پر موجود رہنے والی چیز انسان کو سوچنے پر مائل کرتی ہے۔ انسان جب پورے شعور کے ساتھ کسی چیز کے بارے میں سوچتا ہے تو زندگی میں کچھ فرق پیدا ہوتا ہے۔ حقیقی مفہوم میں اِسی کا نام آنکھوں میں خواب سجانا ہے۔ جب خواب متحرک ہوں تو اُنہیں شرمندۂ تعبیر کرنے کی فکر بھی لاحق ہوتی ہے۔
ہم زندگی بھر خواہشات کے غلام رہتے ہیں۔ خواہشات کی غلامی کہنے کو بہت معیوب بات لگتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ بھرپور کامیابی اُنہی کو ملتی ہے جو چند واضح اور بڑی خواہشات کو عملی شکل دینا چاہتے ہیں۔ سوال محض خواہشات پالنے کا نہیں بلکہ اُن کے حوالے سے سنجیدہ ہونے اور اُنہیں عمل کی دنیا میں نئے پہلوؤں سے برتنے کا ہے۔ جو کسی بھی معاملے میں واقعی خواہش مند ہوتے ہیں وہ سنجیدہ اور متحرک بھی ہوتے ہیں۔
اگر کوئی اچھا فکشن رائٹر بننا چاہتا ہے تو محض سوچنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ پہلے تو اُسے بہت پڑھنا ہوگا۔ پڑھے بغیر وہ زیادہ اور اچھا سوچنے کے قابل نہیں ہوسکے گا۔ خوب پڑھنے کے بعد سوچنا بھی لازم ہے۔ سوچنے ہی سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ کسی بھی فکشن رائٹر کے لیے زیادہ اور بہتر سوچنا کس حد تک مفید ہوتا ہے۔ محض سوچنے سے بھی کوئی فکشن رائٹر نہیں ہو جاتا۔ کسی تجربہ کار فکشن رائٹر سے مشاورت لازم ہے تاکہ وہ آپ کو لکھنے کے مختلف طریقوں سے اچھی طرح آگاہ کرے۔ فکشن رائٹرز کی آپ بیتیاں اور انٹرویوز پڑھ کر بھی آپ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ بہر کیف‘ تربیت لازم ہے۔ اگر آپ فکشن رائٹر بننا چاہتے ہیں اور کسی سے باضابطہ تربیت نہیں پاتے تو بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں مگر ہاں‘ اِس میں وقت تھوڑا سا زیادہ لگے گا۔ اور لغزشوں کا احتمال بھی رہے گا۔
اگر آپ فکشن رائٹر کی حیثیت سے کیریئر شروع کردیں تب بھی دوسروں کو اور بالخصوص ہم عصر فکشن رائٹرز کو پڑھنا لازم ٹھہرے گا تاکہ اندازہ ہوسکے کہ کیا لکھا جارہا ہے اور لوگ کون سی اصناف زیادہ شوق سے پڑھ رہے ہیں۔ یاد رکھیے‘ فکشن رائٹرز کو اپنے فن میں وسعت پیدا کرنے کے لیے اخبارات و جرائد پڑھنے اور کتابوں کے مطالعے کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں سے ملنا بھی پڑتا ہے۔ رائٹرز اپنے تعلقات سے بھی بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ اُن کے لیے جیتے جاگتے کرداروں کی طرح ہوتے ہیں۔ اُن سے مل کر خیالات کے لیے توانائی اور رعنائی کا اہتمام آسان ہو جاتا ہے۔
کسی بھی شعبے میں کچھ کرنے کے حوالے سے ہم زندگی بھر خواہشات کے اسیر رہتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ امید بھی اپنا کام کر رہی ہوتی ہے۔ خواہشات اور امیدوں کے دامن سے لپٹے رہنا کوئی معیوب رجحان نہیں مگر اِس منزل میں رک جانا یقیناً قابلِ اعتراض اور معیوب و مُضِر ہے۔ جب آپ کسی شعبے میں کچھ کر دکھانے کا ذہن بنالیں تو پہلے مرحلے میں آپ کو یہ اندازہ ہونا چاہیے کہ اُس شعبے میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے دوسرے بہت سے لوگوں نے عمل کی دنیا میں خود کو کہاں تک اور کس طور آزمایا۔ کچھ کر دکھانے کے قابل ہونا دراصل سیکھنے کے ایسے عمل کا نام ہے جو سدا جاری رہتا ہے۔ جنہیں نام کمانا ہو وہ مرتے دم تک سیکھتے اور سیکھے ہوئے پر عمل کرتے رہتے ہیں۔
فی زمانہ ہر شعبہ غیر معمولی توجہ چاہتا ہے۔ مسابقت اِتنی اور ایسی ہے کہ دن رات ایک کیے بغیر انسان کچھ نہیں کرسکتا۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ انسان بیک وقت کئی شعبوں میں بہت کچھ نہیں کرسکتا۔ ہر شعبہ مستقل بنیاد پر تبدیلیوں کی زد میں رہتا ہے۔ پیش رفت کا بازار گرم ہے۔ ایسے میں آپ کو بھی پیش رفت کا حامل رہنا ہے۔ آپ کو اپنی پسند کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ مہارت حاصل کرنی ہے۔ خود کو منوانے کا یہی ایک موزوں طریقہ ہے‘ باقی ساری باتیں تو اضافی ہیں۔
آنکھوں میں سجائے جانے والے خوابوں کا حق بھی تو ادا کرنا ہوتا ہے۔ یہ حق اُسی وقت ادا ہو پاتا ہے جب آپ زیادہ سے زیادہ باعمل ہوں‘ زیادہ کام کریں اور زیادہ نتائج پیدا کریں۔ کامیابی کے لیے تیاری سراسر شعوری عمل ہے۔ یہ عمل آپ سے زیادہ سے زیادہ متحرک رہنے کا تقاضا کرتا ہے۔ محض خواب دیکھنے تک محدود نہ رہیے بلکہ عمل کی دنیا میں اپنا آپ آزمانے پر بھی خاطر خواہ توجہ دیجیے۔