"MIK" (space) message & send to 7575

میٹرک کی سرحد پر

ہر سال ملک بھر میں نئی نسل اٹھارہویں سال میں قدم رکھتی ہے ‘یعنی قومی شناختی کارڈ کی حامل ہو جاتی ہے۔ لاکھوں لڑکے اور لڑکیاں قومی شناختی کارڈ کے حصول کی طرف بڑھنے سے پہلے ایک اور اہم سنگِ میل عبور کرتے ہیں۔ یہ ہے سیکنڈری سکول سرٹیفکیٹ (ایس ایس سی) کا امتحان۔ عرفِ عام میں اسے میٹرک کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں میٹرک کی منزل سے گزرنا رسمی کارروائی سمجھا جاتا ہے۔ کم ہی لوگ اس بات پر غور کرتے ہیں کہ نئی نسل اس منزل سے گزرنے پر عملی زندگی کی طرف بڑھتی ہے اور یوں اُن کی زندگی میں انقلابی تبدیلیوں کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ 
ہمارے ہاں بچوں کو بہت چھوٹی عمر سے سکول میں داخل کرادیا جاتا ہے‘ جس کے نتیجے میں عموماً چوتھے یا پانچویں سال میں بچہ پہلی جماعت تک پہنچ جاتا ہے۔ پندرہویں سال میں نویں اور سولہویں سال میں دسویں جماعت کے امتحان کا سنگِ میل عبور کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اہلِ نظر جانتے ہیں کہ نویں اور دسویں جماعت کے نصاب میں جو کچھ شامل ہوتا ہے‘ اُسے بہتر طور پر سمجھنے کی صلاحیت پندرہ اور سولہ سال کے لڑکوں اور لڑکیوں میں پیدا نہیں ہو پاتی۔ یہی سبب ہے کہ ہماری نئی نسل جب کالج کی سطح پر پہنچتی ہے تو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہتی ہے اور گریجویشن تک کی معیاری تعلیم حاصل نہیں کر پاتی۔ دنیا بھر میں گریجویشن کو بہتر عملی زندگی کے لیے ٹھوس بنیاد تصور کیا جاتا ہے۔ عام تصور یہ ہے کہ جس نے گریجویشن تک تعلیم پالی اُس نے گویا بہتر زندگی کے لیے خود کو تیار کرلیا۔ ہمارے ہاں معاملہ بہت مختلف اور مایوس کن ہے۔ گریجویشن‘ یعنی چودھویں تک تعلیم پانے والے لڑکوں اور لڑکیوں میں بہتر عملی زندگی کے لیے مطلوب قابلیت شاذ و نادر ہی پیدا ہو پاتی ہے۔ 
زمانے کی رفتار بہت تیز ہے۔ عملی زندگی کے لیے نئی نسل کو بہتر انداز سے تیار کرنے کا عمل اب خاصا پیچیدہ ہوچکا ہے۔ دنیا بھر میں مقابلہ سخت ہے۔ ہر معاشرہ اس حوالے سے شدید دباؤ محسوس کر رہا ہے۔ ہمارے ہاں بھی‘ یعنی ایک پس ماندہ معاشرے میں تعلیم و تربیت‘ عملی زندگی اور معاش کے بہتر مواقع کے حوالے سے بہت کچھ بگڑا ہوا ہے۔ جہاں معاملات اتنے بگڑے ہوئے ہوں وہاں والدین‘ طلبا اور اساتذہ سبھی کو معاملات کی درستی پر غیر معمولی حد تک متوجہ ہونا پڑتا ہے‘ مگر افسوس کہ ہمارے ہاں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ایک طرف والدین اپنی ذمہ داری محسوس کرنے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف اساتذہ کو بظاہر صرف کمانے سے غرض ہے اور طلبا ... تو جناب!اُنہیں یہ پورا معاملہ رسمی کارروائی کے سے انداز نمٹانے سے مطلب ہے۔ 
ایس ایس سی کی منزل تک آتے آتے لڑکوں اور لڑکیوں میں نئی زندگی کے حوالے سے جوش و جذبہ قابلِ دید ہوتا ہے۔ ایک طرف تو یہ احساس دل کی دھڑکن بڑھادیتا ہے۔ ایس ایس سی ‘یعنی میٹرک کی شکل میں پہلا بڑا امتحان دینا ہے اور دوسری یہ تصور بھی بہت خوش کن ہوتا ہے کہ دسویں جماعت کے امتحان میں کامیاب ہوتے ہی کالج کے دروازے کھل جائیں گے۔ 
کالج میں قدم رکھنے کا اپنا چارم ہے‘ جُنون ہے۔ کالج کی زندگی میں آزادی کا عنصر اس قدر غالب ہے کہ آج بھی نئی نسل دسویں کے امتحان میں کامیاب ہونے پر کالج میں قدم رکھنے کے تصور ہی سے شاداں و فرحاں دکھائی دیتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ کالج میں قدم رکھنے پر بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ پہلے جو عمل ''کلاس میں بیٹھنا‘‘ کہلاتا تھا ‘اب وہی عمل ''لیکچر اٹینڈ کرنا‘‘ کہلاتا ہے! سکول میں بھی کینٹین تو ہوتی تھی مگر کلاس روم سے غائب ہوکر کینٹین میں بیٹھنے اور گپیں ہانکنے کی اجازت و آزادی نہ تھی۔ ع
میں چمن میں کیا گیا‘ گویا دبستاں کُھل گیا 
یہ سب تو بہت خوش کن لگتا ہے‘ مگر جب تیاری ہی نہ ہو تو بہتر زندگی کی طرف بڑھنے کی راہ کیسے کُھلے۔ آج کا پاکستان تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایک ایسے بحران کا شکار ہے‘ جس نے نئی نسل ہی کو الجھن میں نہیں ڈال رکھا ‘بلکہ ملک کے مستقبل کو بھی داؤ پر لگا رکھا ہے۔ زمانے کی تیزی دیکھتے ہوئے والدین کو بچوں کی بہتر تربیت اور مستقبل کے حوالے سے تیاری پر متوجہ ہونا چاہیے‘ مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکی جب آٹھویں جماعت میں قدم رکھے تب ہی والدین اُسے ذہن نشین کرادیں کہ اب اُس کی زندگی ایک نئے اور اہم موڑ پر ہے‘ اس لیے زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ تفریح ِ طبع اپنی جگہ اور مستقبل کے حوالے سے تیاری کیلئے ذہن سازی اپنی جگہ۔ ان دونوں کو گڈمڈ کرنے سے معاملات بگڑتے ہیں؛ اگر نئی نسل کو اندازہ ہو کہ اُسے بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے تیاری بھی بہتر طریق سے کرنی ہے تو اُس میں سنجیدگی بھی پیدا ہوگی۔ بچوں میں مطالعے کی عادت پانچویں جماعت سے ڈالی جانی چاہیے ‘تاکہ وہ آٹھویں جماعت میں آنے تک اُن کا ذخیرۂ الفاظ قابلِ رشک ہوچکا ہو۔ دنیا بھر میں عمومی روش یہ ہے کہ بہت چھوٹی عمر سے بچے کے رجحان کا اندازہ لگاکر اُسے وہی پڑھایا جائے ‘جو اُس کی ممکنہ عملی زندگی کے لیے لازم ہو۔ ہمارے ہاں اس حوالے سے سوچنے والے والدین اور اساتذہ خال خال ہیں۔ نئی نسل کو اپنے بارے میں کوئی واضح فیصلہ کرنے کا کچھ خاص شعور نہیں ہوتا۔ یہ کام تو والدین اور اساتذہ کا ہے کہ وہ نئی نسل کی عملی زندگی کا رخ بہتر انداز سے متعین کریں۔ 
حکومتی اور نجی دونوں ہی سطحوں پر اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ نئی نسل میں اعتماد کا گراف بلند کرنے کی خاطر بڑے کاموں کے لیے اُسے چھوٹی عمر سے تیار کیا جائے۔ اس حوالے سے والدین کی ذمہ داری زیادہ ہے۔ سکول میں بچہ جو کچھ پڑھتا ہے ‘اُس کی بہتر تفہیم یقینی بنانے کے لیے اُنہیں وقت نکالنا چاہیے ‘تاکہ بچے میں یہ احساس شدت سے ابھرے کہ اُس پر توجہ دی جارہی ہے۔ یہ احساس اُسے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی تحریک دینے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ 
نئی نسل کو روش مستقبل کے لیے تیار کرنا ایک باضابطہ شعبہ ہے ‘جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہر سال ایس ایس سی کی منزل سے گزر کر کالج کی سطح تک آنے والوں کو منظم اور ٹھوس انداز سے بتایا جائے کہ اُنہیں مستقبل کے لیے کس طور تیار ہونا ہے۔ معیاری پروفیشنل زندگی بسر کرنا ‘اُسی وقت ممکن ہوسکتا ہے‘ جب تعلیمی اداروں اور والدین نے اپنا کردار بہ طریقِ احسن ادا کیا ہو۔ ڈھائی تین عشروں کے دوران ہم نے نئی نسل کی تیاری کا فریضہ اطمینان بخش طریقے سے انجام نہیں دیا‘ جس کا نتیجہ آج بھگت رہے ہیں۔ اب یہ معاملہ مزید لاپروائی اور تاخیر و تساہل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ زمانے کی روش اس امر کی متقاضی ہے کہ ہم نئی نسل کو بہتر تیاری کے ساتھ عملی زندگی کے میدان میں داخل کریں۔ رجحان کے برعکس شعبہ منتخب کرنے پر یا کمتر اور پھسپھسی تیاری کے ساتھ نئی نسل کسی بھی محاذ پر کچھ نہیں کرسکتی۔ ایس ایس سی سے دو سال قبل لڑکوں اور لڑکیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ انہیں کس طرف جانا ہے۔ گیارہویں سے چودھویں جماعت تک کی تعلیم و تربیت کے دوران انہیں اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ جو کچھ بھی وہ سیکھ رہے ہیں ‘وہ بہت دُور تک ان کا ساتھ دے گا اور قابلِ رشک زندگی یقینی بنائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں