"MIK" (space) message & send to 7575

گراف گِرنے نہ پائے

گزشتہ دنوں یو ٹیوب پر ایک ویڈیو کلپ دیکھا تو طبیعت باغ باغ ہوگئی۔ یہ ویڈیو کلپ کلاسیکی موسیقی کی ایک کانفرنس کا تھا جس میں معروف کلاسیکل گایک استاد راشد خان ''ہائی پروفائل‘‘ حاضرین کے سامنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ استاد بڑے غلام علی خان مرحوم کی گائی ہوئی (اور اُن کے لیے ''ٹریڈ مارک‘‘ کا درجہ رکھنے والی) مشہورِ زمانہ ٹھمری ''یاد پیا کی آئے‘‘ کو استاد راشد خان نے بھی جم کر‘ ڈٹ کر گایا۔ حاضرین میں بھارتی گلوکاروں کی نئی اور پرانی دونوں نسلوں کے مضبوط اور نمایاں ترین نمائندے موجود تھے۔ کلاسیکی موسیقی کے گھرانوں کی خاصی معتبر بزرگ ہستیوں کے علاوہ انوپ جلوٹا‘ طلعت عزیز‘ کیلاش کھیر‘ ہنس راج ہنس‘ سونو نگم‘ ایلا ارون‘ اُدت نارائن‘ سریش واڈیکر ... سبھی موجود تھے۔ اداکاروں اور اداکاراؤں کی بھی کمی نہ تھی۔ معروف سکرین رائٹر اور شاعر جاوید اختر بھی موجود تھے۔ 
اس ویڈیو کلپ کو دیکھ کر ایک تو یہ بات اچھی لگی کہ بھارت کی فلم انڈسٹری میں عمومی سطح پر اب تک کلاسیکی موسیقی سے غیر معمولی رغبت پائی جاتی ہے۔ عوام جن کے آگے پیچھے گھومتے ہیں وہ کلاسیکی گایکی کے استادوں کے پیر چھونے میں اپنی رفعت محسوس کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جب استاد راشد خان پرفارمنس دے رہے تھے‘ تب ہال میں موجود تمام افراد ہمہ تن گوش تھے۔ اچھے اچھے گانے والے استاد راشد خان کی لگائی ہوئی جگہوں پر خوب داد دیتے ہوئے پائے گئے۔ انوپ جلوٹا کو اس ویڈیو کلپ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ محض منہمک ہی نہیں رہے ‘بلکہ مسکراتے ہوئے داد بھی دیتے رہے۔ ایلا ارون معروف گلوکارہ ہیں مگر وہ اِس طور سُن رہی تھیں گویا پہلی بار موسیقی کی کسی محفل میں آئی ہوں! سونو نگم کو قدم جمائے زمانہ گزر چکا ہے مگر اس ویڈیو میں اُنہیں ایسے ذوق و شوق کے ساتھ سُنتے دیکھا جاسکتا ہے ‘جیسے فرسٹ ایئر میں داخلہ لینے کے بعد کوئی لڑکا کالج میں پہلی کلاس اٹینڈ کر رہا ہو! 
جب استاد راشد خان نے شاندار پرفارمنس ختم کی تب حاضرین نے نشستوں سے اٹھ کر انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ اچھی پرفارمنس کی بنیاد پر کسی کو اسی طور سراہنا چاہیے۔ استاد راشد خان کا فن اپنی جگہ کتنا ہی قابلِ احترام سہی‘ مگر حاضرین کا اس ماحول میں بھرپور دلچسپی لینا‘ اُس میں ڈوب جانا اور پھر سراہنے کا حق ادا کرنا بھی اپنی جگہ قابلِ ستائش ہے۔ 
ہم کسی بھی چیز سے اُس وقت تک کماحقہ مستفید نہیں ہوسکتے جب تک اُس میں خاطر خواہ حد تک دلچسپی نہ لیں۔ کوئی بھی شخص جب پوری دلچسپی کے ساتھ پرفارم کر رہا ہوتا ہے تب حاضرین کے لیے بھی لازم ہو جاتا ہے کہ پوری توجہ کے ساتھ اُس کی پرفارمنس دیکھیں یا سُنیں۔ کسی بھی کام کا حقیقی لطف اُس وقت محسوس ہوتا ہے جب دیکھنے اور سُننے والے اُس میں ڈوب جائیں‘ اُس طرح متوجہ ہوں جیسا کہ متوجہ ہونے کا حق ہے۔ کھیل ہوں یا پھر پرفارمنگ آرٹس ... دونوں ہی میدانوں میں کچھ کر دکھانے کا مزا اُس وقت ہے جب فیڈ بیک اچھا ہو‘ لوگ بھرپور رسپانس دیں۔ 
ہر انسان چاہتا ہے کہ اُسے سراہا جائے۔ یہ خواہش بہت عمومی سطح پر بھی خوب پائی جاتی ہے یعنی گدھا گاڑی چلانے والا بھی اس بات کا خواہش مند رہتا ہے کہ لوگ کہیں ''واہ بھئی واہ‘ کوئی اگر گدھا گاڑی چلائے تو ایسے چلائے جیسے تم چلاتے ہو!‘‘ درزی چاہتا ہے کہ اُس کے سِیے ہوئے کپڑوں کی تعریف کی جائے۔ باورچی اپنے پکائے ہوئے کھانے کو سراہے جانے کا منتظر رہتا ہے۔ سڑک کے کنارے ٹھیلے پر جُوس بیچنے والا بھی چاہتا ہے کہ لوگ اُس کے کام کو سراہیں۔ 
یہ تو ہوا عمومی سطح پر کام کرنے والوں کا احوال۔ کھلاڑی اور فنکار عمومی سطح سے خاصے بلند ہوکر کام کرتے ہیں۔ اُنہیں اپنی صلاحیتوں کے پروان چڑھانے پر بھی بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ بالخصوص پرفارمنگ آرٹس کی دنیا کے لوگ حاضرین سے غیر معمولی توجہ کے طالب رہتے ہیں۔ سبب سیدھا سا ہے ... یہ کہ فن سیکھنے اور ڈھنگ سے پرفارم کرنے کے حوالے سے اُنہوں نے بہت محنت کی ہوتی ہے۔ طویل مدت تک غیر معمولی جدوجہد کے بعد اُنہیں کوئی بلند مقام عطا ہوتا ہے اور پھر اُس مقام پر ڈٹے رہنے کے لیے بھی اُنہیں بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ ایسے میں وہ فیڈ بیک اور رسپانس چاہتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ جاندار پرفارمنس کی تحریک ملتی رہے۔ یہی سبب ہے کہ پرفارمنس آرٹس سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد قدرے موڈی پائے گئے ہیں۔ وہ اپنی دُھن اور اپنی دنیا میں رہتے ہیں۔ کوئی بات مزاج کے ذرا بھی خلاف جائے تو بدک جاتے ہیں‘ بھڑک اٹھتے ہیں۔ اپنے ماحول سے اُنہیں بالعموم کچھ خاص غرض نہیں ہوتی۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ کام پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے اور اِس بات کی چنداں پروا نہ کی جائے کہ لوگ کیا سوچتے ہیں‘ کیا چاہتے ہیں۔ خیر‘ یہ سیکھنے اور مشق کرنے کے مرحلے کا ذکر ہے۔ فنکار جب حاضرین کے سامنے ہوتے ہیں تب لاتعلق رہنا پسند نہیں کرتے۔ خواہش یہی ہوتی ہے کہ پرفارمنس کے دوران حاضرین پوری طرح متوجہ رہیں۔ جہاں داد ملنی چاہیے ‘وہاں اگر داد ملے تو فن کے اظہار کی خواہش مزید شدت اختیار کرتی ہے۔ 
غور کیجیے تو ہر شعبے کا یہی معاملہ ہے۔ دنیا ہم سے ہر حال میں بھرپور توجہ کی طالب رہتی ہے اور ہم خود بھی تو یہی چاہتے ہیں کہ جب ہم کچھ کر رہے ہوں‘ اپنے فن کا بھرپور اظہار کرنے کے موڈ میں ہوں تب دنیا متوجہ رہے۔ داد نہ ملے تو بات نہیں بنتی۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے مقام پر فنکار ہی تو ہے۔ فنکاری کو زیادہ سے زیادہ جِلا بخشنے کے لیے ہم چاہتے ہیں کہ کوئی دیکھے‘ متوجہ ہو اور سراہے۔ 
اب ذرا اس نکتے پر غور فرمائیے کہ جب آپ لوگوں سے داد چاہتے ہیں تو کیا لوگ آپ سے داد نہیں چاہتے ہوں گے؟ یقیناً‘ آپ کو بھی دوسروں کو سراہنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ بھرپور زندگی کا بھی یہی راز ہے۔ جب ہم دوسروں میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں تو وہ بھی ہماری طرف کماحقہ متوجہ ہوتے ہیں۔ یوں فیڈ بیک کے جواب میں فیڈ بیک ملتا ہے اور کارکردگی کا گراف بلند کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ 
دلچسپی کا عنصر ہر شعبے میں بھرپور کامیابی کی بنیاد ہے۔ جب ہم کسی بھی حوالے سے فقید المثال دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو غیر معمولی کارکردگی کی بھی راہ ہموار ہوتی ہے۔ دلچسپی اور کارکردگی ایک دوسرے کے لیے انتہائی لازم ہیں۔ ہر کامیاب انسان اپنے وجود‘ ماحول اور زندگی میں بھرپور دلچسپی لیتا دکھائی دے گا۔ یہ وصف شخصیت سے ظاہر ہوکر رہتا ہے۔ جب ہم اپنے ماحول کو قبول کرتے ہیں تب اُس میں دلچسپی لیتے ہیں‘ اُسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اِس مرحلے سے گزرنے ہی پر ہم اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور اُن کے اظہار کی حقیقی تحریک پاتے ہیں۔ 
بھرپور زندگی کے لیے ایسا ذہن چاہیے جو بیداری کی حالت میں تر و تازہ اور توانا ہو یعنی ماحول سے پوری طرح ہم آہنگ رہے اور کسی بھی اہم معاملے سے الگ تھلگ رہنے پر مائل نہ ہو۔ جب یہ منزل آتی ہے تب شاندار کامیابی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اپنے ماحول سے جُڑے رہیے‘ اُس میں بھرپور دلچسپی لیجیے اور پھر دیکھیے کہ آپ کی زندگی میں کیسی کیسی خوش گوار تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور آپ کی کارکردگی کا گراف کتنی تیزی سے بلند ہوتا ہے۔ کلیدی نکتہ ... دلچسپی کا گراف گِرنے نہ پائے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں