"MIK" (space) message & send to 7575

جینے کا بھی حق چھین لیا جائے گا ہم سے؟

حکمرانوں کی فرمائشیں ایسی ہیں کہ عوام حیران ہیں۔ سرکاری فرمودات سُن سُن کر کوئی اگر حواس باختہ نہ ہو تو اِسے کمالِ ضبط کہیے یا پھر ڈِھٹائی۔ کمالِ ضبط کا زمانہ تو خیر سے اب رہا نہیں۔ ایسے میں ڈِھٹائی ہی کہنا ٹھیک رہے گا۔ آپ اپنی مرضی کے لفظ پر گزارا کرسکتے ہیں۔ غریبوں کی بھی کیا قسمت ہے کہ زمانے بھر کی بے چارگی نصیب ہوئی ہے ‘مگر پھر بھی اُن سے طرح طرح کی فرمائشیں کی جاتی ہیں‘ عجیب عجیب توقعات وابستہ کی جاتی ہیں۔ ؎ 
اگر شرر ہے تو بھڑکے‘ جو پھول ہے تو کِھلے 
طرح طرح کی طلب تیرے رنگِ لب سے ہے 
غریب بھی سوچ سوچ کر حیران ہوتے رہتے ہیں کہ خدا جانے اُن میں ایسے کون سے اوصافِ حمیدہ چُھپے ہوئے ہیں کہ ملک کی قیادت معیشت سے معاشرت تک سب کچھ تبدیل کرنے کے حوالے سے اُن سے امیدیں وابستہ کیے رہتی ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے سپیکر مشتاق غنی نے ملک کو تبدیل کرنے کے حوالے سے عوام کے کردار کو کلیدی قرار دے دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کلیدی کردار کی وضاحت بھی کردی ہے تاکہ کسی کے ذہن میں ''بے فضول‘‘ قسم کا تجسّس یا شک باقی نہ رہے۔
مشتاق غنی کہتے ہیں کہ ملک شدید معاشی بحران سے دوچار ہے‘ قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اور قرضوں کا بوجچھ اتارنے میں عوام کا ایک معمولی سا فیصلہ ہر اعتبار سے فیصلہ کن کردار ادا کرسکتا ہے۔ پشاور میں خیبر یونین آف جرنلسٹس کے پروگرام میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے مشتاق غنی نے کہا کہ عوام کچھ ایسا کریں کہ ملک کی تقدیر بدل جائے۔ عوام اور ملک کی تقدیر؟ ع
ناحق ''اُن‘‘ مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی! 
اگر آپ لطیفہ نہ سمجھیں تو ملک کی تقدیر بدلنے کا نسخہ مشتاق غنی نے یہ بتایا ہے کہ عام (یعنی غریب) پاکستانی دو کی بجائے ایک روٹی کھائے۔ ایک روٹی کم کھانے سے معیشت سنبھل سکتی ہے‘ بلکہ بحرانی کیفیت سے نکل سکتی ہے! مشتاق غنی نے تو باتوں باتوں میں انقلابی نسخہ بیان کردیا۔ محض ایک روٹی کم کھانے سے اتنا بڑا انقلاب آسکتا ہے ‘یہ تو ہم نے کبھی سوچا ہی نہ تھا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے غریبوں کو دِلاسا بھی دیا کہ آج ایک روٹی کی قربانی دی جائے گی تو کل ایک کی بجائے دو یا پھر ڈھائی روٹی بھی مل سکے گی! کچھ دن پہلے پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وفاقی وزیر غلام سرور خان نے بھی ملک کو سہارا دینے کے حوالے سے ایک ایسی ہی انوکھی تجویز پیش کی تھی۔ اُن کی تجویز سُن کر لوگ خوب ہنسے۔ بات تھی ہی ہنسنے والی۔ عوام سوچتے سوچتے تھک جاتے ہیں کہ انتہائی محدود آمدنی کی مدد سے تعیشات کا اہتمام کیسے کریں۔ جب کچھ سمجھ میں نہیں آتا تو بنیادی ضرورت کی کسی چیز کو تھوڑے سے اہتمام کے ساتھ استعمال کرتے ہیں‘ مثلاً: سخت سردی میں گیزر استعمال کیا جاتا ہے ‘تاکہ جسم و جاں کو کچھ سُکون ملے۔ غلام سرور صاحب کو گیس کی شمع کی گرد عوامی پروانوں کا یہ رقص پسند نہیں آیا۔ اُنہوں نے گیزر کے استعمال کو عیاشی قرار دے دیا! یعنی یہ کہ عوام قدرتی دولت کو ضائع نہ کریں‘ گیس کے ذریعے گیزر چلانے سے گریز کریں۔ 
ملک کے حالات کا رونا رویا جارہا ہو اور معیشت و معاشرت کو تبدیل کرنے کی بات چل نکلے تو تان ٹوٹتی ہے غریب پر۔ جنہیں دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے سے فرصت نہیں ملتی ‘وہ جب یہ سُنتے ہیں کہ ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے اُن کی طرف دیکھا جارہا ہے‘ تو اُن پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ؎ 
زہے نصیب کہ اب ہم ہیں مرکزِ اُمّید 
امیرِ شہر تو اپنا وقار کھو بھی چکا 
جس طور فیصل آباد میں تمام بڑے راستے گھنٹہ گھر چوک پر ختم ہوتے ہیں‘ بالکل اُسی طور اس ملک میں تمام معاملات گھوم پھر کر غریب تک آتے ہیں اور ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مصداق اُس کے لیے مزید مشکلات پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ انتہائے اُمّید ملاحظہ فرمائیے کہ حکومت قرضے لیتی ہے تو محض اس اُمّید پر کہ عوام قرضوں چُکانے میں خاطر خواہ مدد ضرور کریں گے۔ عوام حیران و پریشان ہیں کہ کِس کِس کی کون کون سی بات مانیں۔ بڑی مشکل سے دو وقت کی دو دو روٹیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اب اوپر سے فرمائش آئی ہے کہ ایک روٹی کم کھائی جائے۔ ریاستی نظام کی مہربانی سے عوام کو بنیادی سہولتیں پہلے ہی ڈھنگ سے میسّر نہیں۔ ایسے میں اُن سے کہا جارہا ہے کہ کھانے میں ایک ایسی روٹی کم کردیں جو اُنہی کی کمائی ہوئی ہے! 
معیشت کا حال بُرا ہے۔ بڑے مالیاتی اداروں اور ریٹنگ ایجنسیز کی نظر میں پاکستان اب بھی قابلِ رشک حد تک قابلِ اعتبار نہیں۔ بات افسوس ناک ضرور ہے‘ حیرت انگیز نہیں۔ جو کچھ بھی ڈھائی تین عشروں سے ہو رہا ہے اُس کا یہی نتیجہ برآمد ہونا تھا۔ ہاں‘ اِس بات کا دُکھ ضرور ہے کہ جو ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے ہیں‘ وہ متوازن اور محکم پالیسیاں مرتب کرنے کی بجائے عوام سے قربانی دینے کی فرمائش کرتے رہتے ہیں اور عوام کی حالت یہ ہے کہ پریشانیوں کی بُھول بُھلیّاں سے نکلنے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی۔ ؎ 
نظر میں اُلجھنیں‘ دل میں ہے عالم بے قراری کا 
سمجھ میں کچھ نہیں آتا‘ سُکوں پانے کہاں جائیں 
آج کا عام پاکستانی معاشی امور کے حوالے سے شدید بحرانی کیفیت کا شکار ہے۔ ریاست بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے‘ مگر یہ فریضہ وہ احسن طریقے سے ادا نہیں کر رہی۔ عام آدمی کو پانی و بجلی کے علاوہ تعلیم اور صحتِ عامہ سے متعلق بنیادی سہولتوں کا حصول یقینی بنانے کے لیے بھی خاصی تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔ اس سے زیادہ شرمناک بات کیا ہوسکتی ہے کہ پانی و بجلی جیسی بنیادی اشیاء کے ساتھ ساتھ تعلیم و صحتِ عامہ کے حوالے سے بھی انسان کو تگ و دَو کرنا پڑے اور پھر اُس سے یہ فرمائش بھی کی جائے کہ وہ ایک روٹی کم کھائے! ؎ 
کیا چاہتے ہیں آپ بتا دیجے قسم سے 
جینے کا بھی حق چھین لیا جائے گا ہم سے؟ 
جن کے پاس کچھ بچا ہی نہیں اُن سے قربانی دینے کی فرمائش کو المیے کے سِوا کیا کہا جاسکتا ہے؟ قربانی کا مطالبہ اُن سے کیا جائے جن کی تجوریاں بھری ہوئی ہیں۔ دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوکر رہ گئی ہے۔ غریب کے لیے سب سے بڑا مسئلہ معاشی وسائل کا تسلسل برقرار رکھنے کا ہے۔ روزگار سے متعلق سرگرمیوں کا دائرہ سُکڑتا جارہا ہے۔ یومیہ بنیاد پر کام کرنے والوں کو غیر معمولی مشکلات کا سامنا ہے؛ اگر معیشت کو بڑا جھٹکا لگ جائے تو سب سے زیادہ متاثر یومیہ بنیاد پر کام کرنے والا طبقہ ہوتا ہے۔ اس طبقے کے لیے یومیہ بنیاد پر خوراک کا اہتمام بھی ایک مستقل دردِ سر ہے‘جو پیٹ بھر خوراک میسّر آنے کو معجزوں میں شمار کرتا ہے‘ اُس سے کم کھانے کی فرمائش! ع
ناطقہ سر بہ گریباں ہے‘ اِسے کیا کہیے! 
خالی پیٹ زندگی کی گاڑی کھینچنے والوں سے مزید کوئی قربان طلب کرنے کی بجائے اُنہیں نشانے پر لیا جائے جن کی تجوریاں اِتنی بھری ہوئی ہیں کہ کبھی تو ڈھنگ سے مقفّل بھی نہیں ہو پاتیں! قومی خزانہ اُن کی جیبیں ڈھیلی کرواکے بھرا جائے‘ جنہیں کچھ اندازہ ہی نہیں کہ زندگی کے بنیادی مسائل کیا ہوا کرتے ہیں‘ اسی صورت انہیں سُکون کا سانس لینے کا موقع مل سکتا ہے ‘جو حالات کی چِکّی میں بہت باریک پِستے جارہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں